زہر بھری فضا میں گھلتی زندگی

سید بابر علی  اتوار 30 مارچ 2014
شپ بریکنگ یارڈ گڈانی میں آلودہ تیل اور خطرناک کیمیکلز کے درمیان بدترین حالات میں روزوشب کرتے مزدوروں کی بپتا۔ فوٹو: فائل

شپ بریکنگ یارڈ گڈانی میں آلودہ تیل اور خطرناک کیمیکلز کے درمیان بدترین حالات میں روزوشب کرتے مزدوروں کی بپتا۔ فوٹو: فائل

ساحل پر تاحد نگاہ پھیلی آسمان کی وسعتیں ایک طرف دعوت نظارہ دے رہی ہیں تو دوسری جانب بے کراں سمندر ساحل پر کھڑے لوگوں کو ان جانی خواہشات سے گرما رہا ہے۔ انہی ساحلوں پر ہر روز ڈوبتا سورج بے شمار افراد کے راز اپنے سینے میں دفن کرلیتا ہے، تو ساتھ ساتھ نئی صبح کے انتظار کا پیغام بھی دے جاتا ہے کہ آنے والی صبح نئی خوشیاں ساتھ لائے گی۔

دنیا بھر میں ذہنی سکون اور سیر وتفریح کے لیے ساحل سمندر کو بہترین جگہ قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے معدنی وسائل سے مالامال ’’پس ماندہ ‘‘ صوبے بلوچستان کے ساحلی شہر گڈانی کے ساحل کا شمار بھی ایک خوب صورت ساحلی تفریح گاہ میں کیا جاتا ہے لیکن اگر گڈانی پکنک پوائنٹ جانے کے بجائے گاڑی کا رخ بائیں ہاتھ پر واقع گڈانی شپ بریکنگ یارڈ کی طرف کردیں تو یقیناً آپ کو ’’مخمل میں ٹاٹ کا پیوند‘‘ نظر آجائے گا۔

ساحل بھی وہی ہے، ساحل سے اٹھکھلیاں کرتی لہریں بھی وہی ہیں، پوری آب و تاب سے چمکتا سورج بھی وہی ہے، لیکن اگر کچھ فرق ہے تو صرف انسان کا، یہاں کے مزدوری کرنے والے انسان اور پکنک پوائنٹ پر تفریح میں مصروف انسان میں بہت سے نمایاں فرق ہیں، بل کہ ان کی ایک وسیع خلیج دکھائی دیتی ہے۔ ایک طرف پکنک کو تفریحی اور یادگار بنانے میں مصروف متوالے ہیں تو دوسری طرف اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر حصول رزق کے لیے کوشاں محنتی مزدور ہیں جن میں بڑا فرق نظر آتا ہے۔

گڈانی شپ بریکنگ یارڈ جسے عرف عام میں ’’جہازوں کا قبرستان‘‘ بھی کہا جاتا ہے، آہستہ آہستہ سمندری حیات اور وہاں کام کرنے والے مزدوروں کے لیے موت کا سامان بنتا جا رہا ہے۔ دنیا کے اِس تیسرے بڑے شپ بریکنگ یارڈ میں داخل ہوتے ہی دیو ہیکل کرینیں دکھائی دیتی ہیں، ہوا کے ساتھ اڑتے ’’گلاس وول‘‘ (مقامی زبان میں کھجلی) کے ذرات ہیں، کیمیکلز کی مخصوص بُو ہے جو ناک میں چبھتی ہے، یہ سب ناگوار چیزیں آپ کا استقبال کرتی ہیں۔ یہاں پر کام کرنے والے مزدور انتہائی کسمپرسی کی حالت میں اور خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ کچھ مزدور یونینز کی بدولت ان کی اجرت میں برائے نام اضافہ تو ہوا ہے، لیکن دیگر سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، جس کا واضح ثبوت اسی علاقے میں لکڑی کے کیبینز میں بنی پرانے جوتوں اور کپڑوں کی دکانیں ہیں، کیوں کہ کام کرنے کے لیے حفاظتی جوتے اور کپڑے  بھی انہیں اپنی جیب سے خریدنے پڑتے ہیں۔ ان مزدوروں کو نہ تو پینے کے لیے صاف پانی میسر ہے اور نہ ہی سر چھپانے کے لیے مناسب جگہ، کچھ مزدوروں نے اپنی مدد آپ کے تحت جہازوں سے نکلنے والے ’’ناقابل فروخت‘‘ سامان کی مدد سے اپنی جھگیاں بنالی ہیں جن میں وہ موسم کی شدت سے محفوظ نہیں رہ پاتے۔

کارکردگی کے لحاظ سے دنیا کے پہلے بڑے شپ یارڈ میں کام کرنے والے مزدوروں کی فلاح بہبود اور جان و مال کے تحفظ کے لیے کسی قسم کے موثر اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔ یہاں کام کرنے والے کم عمر اور بوڑھے، دونوں طرح کے مزدور حفاظتی جوتوں، دستانوں، فیس ماسک، یونیفارم اور حفاظتی آلات کے بغیر رزِق حلال کے لیے کوشاں ہیں۔ ناکارہ جہازوں میں موجود کینسر اور سانس جیسی مہلک بیماریوں کا سبب بننے والا آلودہ تیل ان کے لیے خطرناک ہے۔ ان کے ساتھ کئی کیمیکلز (ایبیسٹوز، گلاس وول، پولی کلورینیٹڈ بائی فنائیل، بلج اور ڈسٹ واٹر) ان مزدوروں کو ’’دمے‘‘ اور ’’کینسر‘‘ سمیت کئی مہلک جلدی بیماریوں میں مبتلا کر رہے ہیں۔ تاہم ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ حادثے سے بچیں، کیوں کہ ایسے میں مناسب طبی امداد میں تاخیر انہیں موت سے ہم کنار کردیتی ہے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ زخمی اسپتال پہنچنے سے قبل ہی زیادہ خون بہنے کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلا گیا۔ ہاتھ پیر میں فریکچر کی وجہ سے بھی مزدور کام سے محروم ہوجاتے ہیں۔

اس پورے علاقے میں حکومتِ بلوچستان کی جانب سے صرف ایک ایمبولینس فراہم کی گئی ہے جو نہ ہونے کے برابر ہے۔ سرکاری ڈسپنری کے بارے میں مزدوروں کا کہنا ہے کہ یہاں صرف نزلہ، کھانسی وغیرہ کا علاج ہوتا ہے یا پھر معمولی زخموں کی مرہم پٹی کی جاتی ہے۔ اس ڈسپنسری کی بوسیدہ عمارت کے خستہ حال دروازے پر تالا لگا ہوا تھا۔ کھڑکیاں بھی ٹوٹی ہوئی تھیں، جن کی وجہ سے اندر موجود تھوڑے بہت طبی آلات بھی سمندری ہوا اور گردوغبار کی وجہ سے غیرمحفوظ ہوچکے تھے۔ برابر والے کمرے میں بحری جہاز کے انجن کے کچھ پارٹس رکھے تھے۔

ایک بوسیدہ اور زنگ آلود ایکس رے مشین دروازے کے باہر رکھی تھی۔ وہ خطرناک کیمیکل جن پر دنیا کے بیش تر ممالک میں پابندی عاید ہوچکی ہے، ریت پر جا بہ جا ان کے ڈھیر لگے تھے۔ گلاس وول (جسے مزدور اپنی زبان میں کھجلی کا نام دیتے ہیں) کے ڈھیر کچرے کی صورت میں جا بجا پھیلے تھے، چوں کہ یہ ہوا کے رخ پر تھے، اس لیے ان کے ذرات سے فضا آلودہ تھی۔ مزدور گلاس وول، ایبیسٹوز اور دیگر ہلاکت خیزکیمیائی مادوں کی ہلاکت خیزی سے بے خبر ان کے درمیان اپنے شب و روز بسر کر رہے ہیں اور انجانے میں کھانسی، دمے اور جلد کے امراض میں مبتلا ہورہے ہیں۔ یہ مادے کارسینوجینک ہیں، یعنی ان کی وجہ سے کینسر لاحق ہوسکتا ہے، لیکن اس کا علم ان مزدوروں کو نہیں ہے۔ کیوںکہ طبیعت زیادہ خراب ہونے پر مزدوروں کو جبری رخصت پر بھیج دیا جاتا ہے۔ بروقت تشخیص اور علاج معالجے کی سکت نہ ہونے کے سبب وہ پھیپھڑوں کی بیماری یا کینسر میں مبتلا ہوکر دنیا سے چلے جاتے ہیں۔

محمد اشرف یہاں دس گیارہ سال سے ویلڈنگ کا کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے:’’ویلڈنگ کے لیے صرف چشمہ اوردستانے ٹھیکے دار فراہم کرتا ہے، مگر اس کے دھوئیں سے بچنے کے لیے رومال بھی ہم خود خریدتے ہیں اور جوتے بھی۔ شروع میں یہاں کام کرنے میں بہت مشکل پیش آتی تھی، لیکن اب اس ماحول اور بو کا عادی ہو چکا ہوں۔ یہاں کام کے دوران ہی مجھے سانس کی موذی بیماری ہوگئی لیکن بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے کوئی نہ کوئی کام تو کرنا ہی ہے۔‘‘

گذشتہ تین سال سے شپ یارڈز میں کام کرنے والے سوات کے سترہ سالہ نوجوان گُل باچا کا کہنا ہے:’’گھر والوں کی بہت یاد آتی ہے، لیکن وہاں روزگار نہیں ہے۔ مگر یہاں آنے کے بعد ہاتھ پیروں میں خارش اور کھانسی رہنے لگی ہے۔‘‘

کچھ یارڈز میں انسانی جانوں کے لیے غفلت کا بدترین مظاہرہ بھی وہاں دکھائی دیا۔ ویلڈنگ میں استعمال کیے جانے والے آکسیجن کے بڑے سیلنڈرز کے قریب ویلڈنگ کا کام زورشور سے جاری تھا، جس سے نکلنے والی چنگاریاں اور دھواں کسی بھی وقت کسی بڑے حادثے کا بن سکتا تھا، مگر اس کا کسی کو خیال نہیں تھا اور نہ ہے۔

جب یارڈ کے ٹھیکے دار حاجی گل سے اس کے بارے میں پوچھا تو اس نے ہمارے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ واضح رہے کہ ہر یارڈ (جہاز توڑنے کی جگہ)کا کرتا دھرتا وہاں کا جمعدار (ٹھیکے دار) ہے جو مزدوروں کی تن خواہوں سے لے کر جہاز سے نکلنے والے تمام سامان کی فروخت کا ذمے دار بھی ہے اور کسی حادثے کی صورت میں بھی اسی کے بیان کو اہمیت دی جاتی ہے۔

اس رپورٹ کی تیاری کے دوران چار سو سے بارہ سو روپے یومیہ پر کام کرنے والے ہیلپر سے لے کر فورمین تک کھانسی، خارش اور جوڑوں کے درد میں مبتلا نظر آئے۔

گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں جہاں مزدوروں کی زندگی کو خطرات ہیں، وہیں آبی حیات بھی اسی خطرے سے دوچار ہے۔ گڈانی شپ بریکنگ یارڈز میں لائے جانے والے جہازوں کی اکثریت تیل بردار اور کارگو جہازوں پر مشتمل ہوتی ہے جن سے نکلنے والا آلودہ تیل آگے فروخت کردیا جاتا ہے ۔ اورکیچڑ جیسے خراب آئل کو بوریوں میں بند کر کے سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے جو آبی حیات کے لیے بڑا خطرہ ہے۔

جہاز کے پیندے میں سوراخ کرکے مزدور بلاسٹ واٹر/بلج واٹر بھی سمندر میں بہا دیتے ہیں جب کہ جہاز رانی کے بین الاقوامی قوانین کے مطابق بلج واٹر یا بلاسٹ واٹر کو ٹریٹمنٹ کے بعد تلف کیا جاتا ہے۔ تین سال قبل تک گلاس وول، سلج اور دیگر زہریلے کیمیکلز کو سمندر اور ساحل پر پھینکنے پر پابندی تھی، مگر اب اس پر عمل نہیں ہورہا ہے۔

اس کی وجوہ بیان کرتے ہوئے اسسٹنٹ کمشنر گڈانی فواد احمد سومرو نے بتایا:’’ 2010تک اسسٹنٹ کمشنر کے پاس فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کے اختیارات تھے جن کے مطابق ہم نے تمام شپ بریکنگ یارڈز کو پابند کیا تھا کہ وہ جہازوں سے نکلنے والے خطرناک مٹیریلز کو سمندر یا ساحل پر پھینکنے کے بجائے زمین میں دفن کریں۔ اُس وقت ہم نے ’’انوائر مینٹل پروٹیکشن ایکٹ‘‘ کے تحت خلاف ورزی کرنے والے کئی شپ یارڈز پر جرمانہ بھی کیا اور چار پانچ شپ یارڈز کو بند بھی کیا تھا۔ یہ قانون اور پابندی اب بھی موجود ہے لیکن اب ہمارے پاس اس پر عمل کروانے کے اختیارات نہیں ہیں، اب اس پر عمل درآمد کروانا ’انوائر مینٹل پروٹیکشن ایجنسی‘ اور فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کی ذمے داری ہے۔‘‘

انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی گڈانی کے ڈائریکٹر جنرل نصیر کاشانی کا کہنا ہے کہ ہم وقتاً فوقتاً شپ بریکنگ یارڈز کی وجہ سے ماحول پر مرتب ہونے والے اثرات کی مانیٹرنگ کرتے رہتے ہیں۔ یارڈ پر آنے والے ہر جہاز کو ڈس مینٹل (اسکریپ میں تبدیل کرنے سے پہلے) سے پہلے این او سی (نو آبجیکشن سرٹی فیکیٹ) کا حصول لازمی ہے اور ہم اُس جگہ کا پورا معائنہ کرنے کے بعد ہی این او سی جاری کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ یہ اجازت نامہ صرف ایک جہاز کو ڈس مینٹل کرنے کے لیے ہوتا ہے اور یارڈ پر آنے والے ہر جہاز کے لیے اِس کا حصول لازمی ہے۔ این او سی کے بغیر کام کرنے والے شپ یارڈ پر جرمانہ اور بعض اوقات انہیں بند بھی کردیا جاتا ہے۔ ساحل پر ہونے والی آلودگی کو مانیٹر کرنے کی ذمے داری کوسٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے پاس بھی ہے، جب کہ حال ہی میں ہم نے خلاف قانون کام کرنے والے شپ یارڈز پر جرمانہ بھی عاید کیا تھا، لیکن ہر وقت اس علاقے کی نگرانی کرنا ممکن نہیں۔ تاہم کوئی شکایت ملنے پر ہم فوراً کارروائی کرتے ہیں۔

شپ بریکنگ یارڈ سے نکلنے والے کیمیائی مواد اور آلودہ تیل کی وجہ سے آبی حیات پر مرتب ہونے والے مضراثرات کے بارے میں ڈبلیو ڈبلیو ایف میرین فشریز کے ٹیکنیکل ایڈوائزر محمد معظم خان کا کہنا ہے:’’ہمارا ادارہ پوری دنیا میں جنگلی اور آبی حیات کے تحفظ کے لیے کوشاں ہے، ہم گڈانی کے ساحل خصوصاً شپ بریکنگ یارڈ کے زیراثر سمندری علاقے میں آبی حیات کے تحفظ کے لیے شعور اجاگر کرنے والے پروگرام بھی کرتے رہتے ہیں۔ یقیناً جہازوں سے نکلنے والے بلاسٹ واٹر، کیمیکل اور تیل کی وجہ سے سمندری حیات کو خطرات لاحق ہیں لیکن دوسرے ممالک (بنگلادیش، انڈیا) کی شپ بریکنگ کی صنعت کی نسبت گڈانی میں سمندری حیات کو اتنا نقصان نہیں پہنچا، اِس کے باوجود ہم اس کی روک تھام کے لیے مسلسل کام کررہے ہیں۔‘‘

گڈانی کے مزدوروں کی حالت اور دیگر مسائل کے بارے میں ’’شپ بریکنگ مزدور یونین‘‘ کے صدر بشیراحمد محمودانی کا کہنا ہے:’’130یارڈز میں سے تقریباً 20 پر شپ بریکنگ کا کام ہورہا ہے، لیکن اُن پر مزدوروں کو ذاتی حفاظتی آلات فراہم نہیں کیے جاتے، جب کہ جہازوں سے نکلنے والے خطرناک کیمیکلز کی وجہ سے مزدور دمے اور جلدی امراض کا شکار ہوچکے ہیں۔ گلاس وول فوم کی طرح کا ریشے دار کیمیکل ہے۔ یہ اگر جسم کے کسی حصے پر لگ جائے تو شدید خارش ہوتی ہے۔ سانس کے ساتھ یہ پھیپھڑوں میں جا کر کھانسی اور دمے میں مبتلاکر دیتا ہے۔ ہمارا شروع سے مطالبہ رہا ہے کہ مزدوروں کو کام کرنے کے لیے ذاتی حفاظتی آلات اور کسی حادثے کی صورت میںفوری طبی امداد فراہم کی جائے، لیکن یہاں تو مزدوروں کو کام کرنے کے لیے جوتے اور کپڑے بھی خود خریدنے پڑتے ہیں۔

اتنے بڑے علاقے میں مریضوں کی سہولت کے لیے صرف ایک ایمبولینس ہے۔ بلندی پر کام کرنے میں خطرات بھی زیادہ ہوتے ہیں، جن کے لیے خصوصی حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہے، مگر یہاں مزدوروں کے ہاتھ پیروں میں فریکچر ہونا یا جلنا کٹنا معمول کی بات ہے۔ یہاں سے قریب ترین اسپتال بھی تقریباً 50کلومیٹر دور کراچی میں ہے۔ اگر کسی مزدور کے ہاتھ یا پیر میں فریکچر ہوجائے تو اُسے دوبارہ کام پر رکھنے کے بجائے گائوں بھجوادیا جاتا ہے۔ مزدوروں کے لیے رہنے کے لیے نہ مناسب جگہ ہے اور نہ ہی پینے کے لیے میٹھا پانی، مجبوراً انہیں بورنگ کا کھارا پانی پینا پڑتا ہے، جس سے اُنہیں پیٹ کی بیماریاں بھی لاحق ہوجاتی ہیں۔ مزدوروں کی خراب صورت حال کی ذمے داری مالکان کے بجائے ٹھیکے داروں پر عاید ہوتی ہے، کیوں کہ انہوں نے گروپ بندی کی ہوئی ہے۔ اگر کوئی مزدور کام کے دوران مر جائے تو ٹھیکے دار اور علاقہ پولیس کی چاندی ہو جاتی ہے، کیوں کہ انہیں اچھی خاصی رقم مل جاتی ہے۔ آبی آلودگی کی وجہ سے مچھلیوں کی نسل تو تقریباً ناپید ہوچکی ہے۔

اگر آپ پورا دن بھی یہاں کانٹا ڈال کر بیٹھے رہیں تب بھی ایک مچھلی بھی نہیں آئے گی، کیوں کہ سمندر میں پھینکے جانے والے کیمیکلز نے انہیں ساحل کے اس حصے سے دور کردیا ہے۔‘‘

’’شپ بریکنگ مزدور یونین‘‘ کے جنرل سیکریٹری محمد طاہر یوسف زئی کا کہنا ہے کہ مالکان اور حکومت کو ریونیو کی مد میں اربوں روپے فراہم کرنے والی اس صنؑعت میں مزدور جان ہتھیلی پر رکھ کر کام کر رہے ہیں، اور آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ ہر جہاز پر انتہائی اونچائی پر کام کرنے والے مزدور آپ کو حفاظتی جنگلے اور (سیفٹی ہارنیس) حفاظتی رسی کے بغیر نظر آئیں گے۔ ناکارہ جہازوں میں تیل اور گیس کے پائپوں کو کھولنا اور کاٹنا ماہر گیس فٹر کا کام ہے کیوں کہ اگر انہیں بد احتیاطی سے کھولا یا کاٹا جائے دھماکے کے ساتھ آگ لگ جاتی ہے۔ ایسے واقعات یہاں آئے دن ہوتے رہتے ہیں اور صرف اس وجہ سے اب تک درجنوں مزدور اپاہج اور کئی جاں بحق ہوچکے ہیں۔ اس صورت حال میں بلندی پر کام کرنے والے مزدور زیادہ متاثر ہوتے ہیں، کیوں کہ ان کے نیچے اترنے کے لیے کوئی ہنگامی راستہ موجود نہیں ہوتا۔

ایسے ایک واقعے میں مزدور جان بچانے کے لیے سمندر میں کود گئے تھے اور ایک مزدور ہلاک اور 7 اپاہج ہوگئے تھے۔ پورے ملک کو سوئی گیس فراہم کرنے والے صوبے کے اس علاقے میں مزدور کیکر کی لکڑیوں پر کھانا پکا نے پر مجبور ہیں۔ اس لکڑی کے جلنے سے نکلنے والا دھواں انہیں سانس اور آنکھوں کی مختلف بیماریوں میں مبتلا کر رہا ہے۔ ایک ایسی جگہ جہاں آتش گیر کیمیکل، آکسیجن کے بڑے بڑے ٹینک موجود ہوں، وہاں لکڑی جلانا اپنی موت کو خود دعوت دینا ہے، لیکن ہم مزدوروں کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہے، کیوں کہ یہاں روٹی 12روپے کی اور سبزیاں مارکیٹ سے 30سے40روپے منہگی ہیں۔

خطرات اور ہلاکت سے بھری اس فضا میں زندگی کرتے مزدور دراصل لمحہ لمحہ موت اور بیماریاں کشید کر رہے ہیں۔ زندہ رہنے کے لیے لی جانے والی ہر سانس ان کے جسموں میں زہر اتار رہی ہے، لیکن کوئی متعلقہ ادارہ اس صورت حال پر توجہ دینے کو تیار نہیں۔

آلودہ تیل اور ایندھن

جہاز میں قدرتی تیل، سینتھیٹک آئل، ہائیڈرولک آئل، کروڈ آئل، ڈیزل، مٹی کے تیل سمیت مختلف پیٹرولیم مصنوعات بھی موجود ہوتی ہیں۔ کارگو اور آئل کی ترسیل کرے والے جہازوں میں تیل اور ایندھن کی شرح مسافر بردار جہاز کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ جہاز توڑنے کے دوران مشینری، کارگو ٹینکس اور دیگر حصوں میں موجود تیل کا متواتر ایکسپوژر ’’جگر‘‘، ’’گردے‘‘، ’’دل‘‘ اور ’’مرکزی اعصابی نظام‘‘ کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔ سمندر میں بہائے جانے کی صورت میں آبی حیات اور ماحول پر اس کے سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

گلاس وول

گلاس فائبر نامی ریشے سے بنائے گئے اس میٹیریل کو جہاز میں ’’کیویٹی وال انسولیشن‘‘، ’’سیلنگ ٹائلز‘‘،’’کرٹن والز‘‘ اور ’’ڈکٹنگ‘‘ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ مٹیریل جلد، آنکھوں، گلے اور نظام تنفس میں سوزش اور کھانسی پیدا کرتا ہے۔ گیلا ہونے کی صورت میں فوم نما میٹیریل میں جراثیم کی تعداد تیزی بڑھتی ہے اور سمندر میں پھینکے جانے کی صورت میں گلاس وول سمندری حیات کوخطرے سے دوچار کردیتا ہے۔

شپ بریکنگ کی صنعت زبوں حال

بلوچستان کے ساحلی علاقے گڈانی کی وجۂ شہرت ایک تفریح گاہ کے علاوہ وہاں قائم شپ بریکنگ یارڈ بھی ہے۔ ناکارہ بحری جہازوں کو توڑنے والے 130سے زیادہ پلاٹس پر مشتمل یہ شپ بریکنگ یارڈ رقبے کے لحاظ سے دنیا کا تیسرا بڑا اور کارکردگی کے حساب سے دنیا کا پہلا سب سے بڑا شپ بریکنگ یارڈ ہے۔ 1980 کی دہائی میں اس کا شمار تیس ہزار ملازمین کے ساتھ دنیا کے سب سے بڑے شپ یارڈ میں کیا جاتا تھا۔ تاہم حکومت کی عدم توجہی اور ایشیائی خطے میں بنگلادیش اور بھارت کی جانب سے شپ بریکنگ یارڈز کے قیام نے پاکستان کو خطیر زرِمبادلہ فراہم کرنے والی یہ صنعت زبوں حالی کا شکار ہوتی جارہی ہے۔ آج یہ صنعت 80 کے عشرے میں پیدا ہونے والے اسکریپ کے مقابلے میں محض ایک چوتھائی اسکریپ پیدا کر رہی ہے اور اس میں کام کرنے والے مزدوروں کی تعداد بھی دس ہزار سے کم ہوچکی ہے۔

جہاز توڑنے کی اس صنعت سے ہر سال دس لاکھ ٹن سے زاید اسٹیل حاصل ہوتا ہے جسے مقامی خریدار ہی خرید لیتے ہیں، جب کہ پلاسٹک، لکڑی اور دیگر سامان بھی پاکستان میں ہی فروخت ہوجاتا ہے۔ گڈانی شپ یارڈ میں اس وقت سالانہ ہر جسامت کے (بشمول سپر ٹینکرز) 125جہازوں کو سالانہ اسکریپ میں بدلنے کی گنجائش ہے۔ پاکستان کے پس ماندہ صوبے بلوچستان میں قایم یہ صنعت کار کردگی کے لحاظ سے دنیا بھر کے شپ بریکنگ یارڈز میں پہلے نمبر پر ہے جس کا سہرا اس صنعت کی اپنے خون پسینے سے آب یاری کرنے والے غریب مزدوروں کے سر جاتا ہے جو حفاظتی اقدامات اور امن و امان کی مخدوش صورت حال کے باوجود یہاں آنے والے ہزاروں ٹن وزنی جہاز کو دو سے ڈھائی ماہ کے عرصے میں اسکریپ بنادیتے ہیں اور بھارت اور بنگلہ دیش کے مزدور اسی جسامت کے جہاز کو ٹکڑوں میں تبدیل کرنے میں چھے ماہ سے زیادہ کا عرصہ لگا دیتے ہیں۔

مزدوروں کو ادھار پر سامان

بریکنگ یارڈز میں پرانے کپڑے اور جوتے فروخت کرنے والے دکان دار محمد اقبال کا کہنا ہے:’’میں بنارس اور لائٹ ہائوس سے پرانے کپڑے اور جوتے نقد خرید کر لاتا ہوں اور یہاں ادھار پر فروخت کرتا ہوں، کیوں کہ ان مزدوروں کے پاس کھانے کے پیسے نہیں ہوتے اور یہ پرانے کپڑے اور جوتے خریدنا ان کی مجبوری ہے، انہیں یہ چیزیں یارڈ سے فراہم نہیں کی جاتیں۔ اکثر مزدور پیسے کھا کر بھاگ جاتے ہیں لیکن یہاں نقد میں کام نہیں ہوتا۔ سردیوں میں گرم بستر تک مزدوروں کو اپنی جیب سے خریدنے پڑتے ہیں۔

پرانے جہازوں سے نکلنے والے مضر میٹیریل Asbestos

یہ ریشے دار مادہ ہے، جسے زیادہ درجہ حرارت بر داشت کرنے کی وجہ سے بریک لائننگ، انسو لیٹنگ (غیر موصل بنانا) اور آگ سے تحفظ فراہم کرنے والے کپڑوں کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔ سفید، بھورے اور نیلے رنگ کا یہ مادہ پھیپھڑوں، حلق، معدے اور آنتوں کے کینسر سمیت نظام تنفس اور دل کی متعدد بیماریوں کا باعث ہے۔ انہی نقصان دہ اثرات کی وجہ سے دنیا کے بیشتر ممالک میں asbestos کے استعمال پر پابندی ہے۔ اس مادے کی ہلاکت خیزی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر اس کا ایک ریشہ انگلی میں چُبھ جائے تو اُس جگہ مسا بن جاتا ہے، جسے ’asbestos corns‘‘ کہا جاتا ہے۔ asbestos کی ’’میٹیریل سیفٹی ڈیٹا شیٹ‘‘ کے مطابق جلد پر براہ راست لگنے سے خارش، سوزش، آنکھوں پر لگنے کی صورت میں جلن اور سرخی اور اگر معدے میں چلا جائے تو آنتوں میں سوزش پیدا ہوجاتی ہے۔ تاہمasbestos  کا ریشہ مستقل نگلے جانے کی صورت میں بکل کیویٹی (منہ) فیرنگس، او ایسو فیگس (نرخرے) معدے، کولون (بڑی آنت) اور ریکٹم (مقعد) میں کینسر کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

asbestos کی معلوماتی شیٹ پر یہ بات بھی واضح لکھی ہوئی ہے کہ گر جانے والے میٹیریل پر چلنے یا اسے چھونے سے گریز کریں۔ اس مادے کو حفاظتی آلات پہن کر موزوں کنٹینر میں ڈال دیں۔ اسے آبی گزر گاہوں اور سیوریج کی لائنوں میں نہ بہایا جائے۔ دوسری جنگ عظیم تک صرف امریکا میں ہی کشتی سازی کی صنعت سے وابستہ تقریباً ایک لاکھ افرادasbestos کی وجہ سے ہلاک یا بیمار ہوئے تھے، کشتی سازی کا مرکز کہلائے جانے والے ’’ہمپٹن روڈز‘‘ میں ’’میسو تھیلیوما‘‘ (کینسر کی ایک قسم جو پھیپھڑوں، معدے اور دل کی جھلی کو متاثر کرتی ہے) میں شرح اموات قومی اعداد و شمار سے سات گنا زاید تھی، جِس کی اہم وجہ یہ تھی کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران تیار ہونے والے بحری جنگی جہازوں میں پائپوں کی انسولیشن، بوائلر، بھاپ کے انجن اور بھاپ سے چلنے والی ٹربائنز میں بڑے پیمانے پر asbestos کا استعمال کیا گیا تھا۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران صرف امریکا میں کشتی سازی کی صنعت سے43 لاکھ مزدور وابستہ تھے اور ان میں سے ہر ایک ہزار مزدوروں میں سے 14کی اموات ’’میسو تھیلیوما‘‘ سے ہوئیں۔ تاہم امریکی حکومت نے اس مادے کی ہلاکت خیزی سے واقف ہونے کے باوجود عوام کو اندھیرے میں رکھا اور 1970میں امریکی عدالت کی دستاویزات میں یہ ثابت کیا گیا کہ امریکی حکومت اور asbestos کی صنعت سے وابستہ افراد1930میں ہی اس مادے کے نقصان دہ اثرات سے واقف ہوچکے تھے، لیکن اس بات کو عوام سے مخفی رکھا گیا۔ بحری جہاز میں Asbestos ’’بلک ہیڈ‘‘،’’پائپ تھرمل انسولیشن‘‘، ’’بریک لائننگ‘‘، ’’فائر بلینکٹ، آگ بجھانے کے دوسرے آلات‘‘، ’’سائونڈ ڈمپنگ‘‘، ’’برقی تاروں کے مٹیریل‘‘ اور دیگر کئی مقامات پر پایا جاتا ہے۔

پولی کلورینیٹڈ بائی فینائلز

پولی کلورینیٹڈ بائی فینائلز (PCBs)ایک نامیاتی مادہ ہے جسے برقی حرارت کی منتقلی، ہائیڈرولک آلات، رنگ، پلاسٹک اور ربر سے بننے والی مصنوعات میں بہ طور پلاسٹی سائزر (کسی مادے کو کیمیائی طریقے سے لچک اور لوچ پیدا کرنے کے لیے تیار کرنا) استعمال کیا جاتا ہے۔ غیرآتش پذیری، کیمیائی طور پر مستحکم، اونچے نقطۂ ابال اور برقی انسولیٹنگ خصوصیات کی بنا پر پانی کے جہازوں میں (PCBs) کا استعمال بہت زیادہ ہوتا رہا ہے۔ یہ مادہ جہاز کو توڑنے کے دوران ٹھوس اور مائع دونوں شکلوں میں حاصل ہوتا ہے، تاہم حفاظتی آلات کے بغیر کام کرنے کی وجہ سے یہ سانس کی نالی اور جلد میں جذب ہوکر مزدوروں کے جسم کے فیٹی ٹشوز میں جمع ہوتا رہتا ہے۔ اس مادے کے متواتر ایکسپوژر کے نتیجے میں انسانی جسم کے مدافعتی نظام، تولیدی نظام، اعصابی نظام اور غدودوں کے نظام پر بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ہائیڈرکاربنز سے بننے والا یہ مادہ کارسینو جینک (کینسر کا سبب بننے والا) بھی ہے اور پانی میں بہائے جانے کی صورت میں آبی حیات خصوصاً مچھلیوں کے لیے نہایت مضر ہے۔ پولی کلورینیٹڈ بائی فینائلز جہاز کی ’’کیبل انسولیشن‘‘، ’’ٹرانسفارمرز، کیپیسیٹرز‘‘، ’’برقی آلات‘‘، ’آئل بیسڈ رنگ‘‘ ، ’’پائپ ہینگرز‘‘ سمیت دیگر کئی جگہوں پر استعمال ہوتا ہے۔

بلج اور بلاسٹ واٹر

شپ بریکنگ کے بین الاقوامی قوانین کے مطابق جہاز کو ڈس مینٹل کرنے کا سب سے اہم حصہ بلج اور بلاسٹ واٹر کی باقاعدہ صفائی اور اُسے تلف کرنا ہے۔ اگر یہ کام احتیاط کے ساتھ نہ کیا جائے تو اس سے ماحول اور مزدوروں کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ بلج واٹر جہاز کے پیندے میں جمع ہونے والے گندے پانی اور دیگرمائعات پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس پانی میں تیل، گریس، غیرنامیاتی نمکیات (سنکھیا، تانبہ، کرومیم اور سیسہ) شامل ہوتے ہیں۔ بلاسٹ/ویسٹ واٹر اُس پانی کو کہتے ہیں جو جہاز کو متوازن رکھنے کے لیے بنے مخصوص ٹینکوں میں داخل کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر جہاز اس پانی کو سفر کے دوران ہی سمندر میں گراتے رہتے ہیں۔ تاہم کچھ ناکارہ جہازوں میں یہ موجود ہوتا ہے۔ بلاسٹ واٹر کا زیادہ استعمال بڑے ٹینکرز اور کارگو جہازوں میں کیا جاتا ہے۔ نامیاتی مادوں، وائرس اور بیکٹیریا پر مشتمل یہ پانی سمندری حیات، ماحول اور انسانی صحت کے لیے نہایت مضر ہے۔ شپ بریکنگ کے قواعد کے مطابق بلج /بلاسٹ واٹر کے ٹینکوں کو ساحل پر بنے ٹینکوں میں منتقل کرنے کے بعد ٹریٹ کرکے تلف کیا جانا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔