لیاری بربادی کے اثرات

انیس باقر  جمعـء 28 مارچ 2014
anisbaqar@hotmail.com

[email protected]

کراچی کی قدیم آبادی لیاری ایک صدی سے زیادہ عرصے پر محیط ہے اس کے گردو نواح میں صرافہ بازار، جونا مارکیٹ، میریٹ روڈ، جوڑیا بازار، کھارادر، میٹھادر اور پھر بہار کالونی و لی مارکیٹ یہ سب وہ علاقہ ہے جو کراچی کی کاروباری روح ہے، لیاری میں وہ علاقہ بھی ہے جہاں سے چلنے والی بسیں ایران کے آبی گزرگاہ تک جاتی ہیں میریٹ روڈ، بولٹن مارکیٹ اور کپڑا مارکیٹ یہ وہ جگہیں ہیں جو پاکستان کی زبردست ہول سیل مارکیٹیں ہیں آج سے تقریباً 20 سال قبل یہ علاقہ زیادہ متاثر ہونے لگا چونکہ کراچی کی ایک کروڑ سے زیادہ کی آبادی کو یہ علاقہ اناج سے لے کر کپڑا اور تولیہ تک سپلائی کرتا ہے اس کے علاوہ میمن مسجد کے گرد و نواح میں احرام، جانمازوں کی وہ مارکیٹ ہے جہاں سے شاہ عالم مارکیٹ لاہور بھی فیض یاب ہوتی ہے، محل وقوع کے لحاظ سے لیاری بندرگاہ سے قریب ہے یہاں کے لوگوں کا زیادہ تر کام کاج سمندر سے متعلق ہے مچھلیوں کا کاروبار، لانچوں کا استعمال، بحری جہازوں سے مال اتارنے کا کام بلوچ اور مکرانی حضرات جفاکشی اور محنتی لوگ ہیں اس کے علاوہ یہاں پڑھا لکھا سیاسی بیداری سے وابستہ ایک بڑا طبقہ یہاں رہائش پذیر ہے۔

لہٰذا اس علاقے کو دانستہ طور پر نشہ آور ادویات، حشیش کی سپلائی کے گروہوں کو سرگرم کیا گیا، اب لیاری گینگ وار کا مسئلہ اچانک شروع نہیں ہوا ۔اگر لیاری اور اس سے ملحقہ علاقوں کا اندازہ لگایا جائے تو یہ آبادی کم ازکم 20 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے ۔ظالموں کا نہ کوئی رنگ ہوتا ہے اور نہ نسل انھوں نے بلوچوں کو بھی نہ چھوڑا ہر شخص پر زیست تنگ کردی مکانوں دکانوں پر قبضہ آئے دن معمول کوئی دن بھی ایسا نہ رہا کہ لیاری میں لاشیں نہ اٹھائی جائیں فٹبال کھیلنے والے سے لے کر سائیکلوں کی ریس لگانے والے نوجوان جو لیاری سے حب تک سائیکلوں پر جاتے تھے وہ بھی نشانہ اجل بنتے گئے لہٰذا لیاری اور اس کے گرد و نواح یعنی کھارادر، بولٹن مارکیٹ،  میٹھادر، لی مارکیٹ، چاکیواڑہ سے لوگوں کا انخلا شروع ہوگیا اس انخلا سے لیاری میں رہائش پذیر صحافی برادری بھی محفوظ نہ رہی ۔لیاری کے لوگوں نے اپنے پرانے آبائی مکان کو اونے پونے فروخت کیا یا تالا لگاکر چھوڑ دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جہاں یہ لوگ آئے فی کمرہ کم ازکم دہلی کالونی، پنجاب کالونی کا کرایہ اسٹیٹ والوں نے 6 ہزار روپے فی کمرہ مقرر کردیا۔

فیز 7، ڈیفنس فی کمرہ 8 تا 10 ہزار روپے کم و بیش گذری گویا پہلے کے مقابلے میں کرایے میں اضافہ 60 فیصد اگر ڈیفنس کے وسط میں مکان لیا جائے تو 12 ہزار روپے فی کمرہ سے لے کر 15 ہزار روپے فی کمرہ کردیا لہٰذا جو لوگ یہاں پہلے سے کرایہ دار ہیں ان کے مالکان نے سابقہ کرایہ داروں کو نوٹس دے دیے ہیں اب دیکھیے ملک اور خصوصاً کراچی شہر میں رہنے والوں کی کسمپرسی کہ وہ کیسے زندہ رہیں یہ بات 100 گز کے فلیٹوں کی ہے اگر ان کا ذاتی مکان نہیں تو کس طرح زندگی گزاریں ایک طبقہ ہے کہ وہ پراپرٹی کے بل پر پراپرٹی بنائے جا رہا ہے جب کہ ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جو بدحالی کی راہ پر گامزن ہے درحقیقت ملک میں اصول اور قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے، گویا قانون نام کی کوئی چیز ملک میں موجود نہیں ہے۔

عام آدمی بے مکان ہی رہے گا اور نہ کوئی ایسی اسکیم ہے کہ غریب کی تنخواہ بڑھائی جاسکتی ہو تاکہ کم ازکم غریب زندہ رہ سکے ان کے لیے مکان حاصل کرنے کا طریقہ کار بنایا جائے یہ قومی اور صوبائی اسمبلیاں جو غریب کا پہاڑا رات دن پڑھتی ہیں کیا کبھی ان کو اس بات کا خیال ہے کہ لوگ بدامنی کی وجہ سے جو مکان خالی کرچکے ہیں وہ کہاں جائیں اور رقم لائیں دوسری جانب ان کی نقل مکانی نے ایک معاشی بحران میں عوام مبتلا ہوگئے خصوصاً کینٹ ایریا کے لوگوں کو کیونکہ نسبتاً اس علاقے میں قانون کی کچھ نہ کچھ حکمرانی ہے اس لیے ناظم آباد اور نارتھ کراچی میں اس قسم کا بحران نہیں کہ لوگ نقل مکانی کریں حالانکہ وہاں اسٹریٹ کرائم موجود ہیں اس لیے وہاں پراپرٹی کی قیمت میں اس قدر تیزی نہیں ہے اب آپ غور کریں کہ نہ ہر شخص بینک منیجر ہے اور نہ فیکٹری منیجر جو اس قدر کرایہ دے سکے عام طور پر 15 یا 20 ہزار روپے آمدنی ہے تو پھر ایسے لوگ آخر کہاں جائیں کہ وہ اپنی زندگی کے باقی ماندہ دن پورے کرسکیں کراچی جو پورے ملک میں غریب پرور شہر تھا آج اس کا یہ حال ہے کہ نہ جان محفوظ ہے اور نہ عام آدمی کو کرایہ کا مکان اس پر سے بجلی کا جھٹکا۔

معاشی عدم استحکام نے ملک میں ایک طرف طالبان کو جنم دیا دوسری طرف بلوچستان میں آزادی کی تحریکوں کا پیدا ہونا معاشی ناانصافی ہی اس کی اصل جڑ ہے ملک میں ہر قسم کی ناانصافی، اور کسی قسم کے قانون کا حرکت میں نہ آنا آنے والے وقت میں مزید عدم استحکام کا پتہ دیتے ہیں اس وقت صورت حال یہ ہے کہ کرایہ دار کو جو مسائل درپیش ہیں ان کا فوری حل درکار ہے فی الوقت جو صورت حال ہے پراپرٹی کی قیمتوں کا عروج یعنی اگر کسی مکان کی قیمت 50 لاکھ ہے تو اس کا کرایہ اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ اس کا نصف فیصد ہر ماہ ہونا تھا جو رسم چلی آرہی ہے یعنی 25 ہزار لیکن مکان کی قیمت میں ہی دگنا اضافہ کردیا گیا ہے اس لیے 50 لاکھ روپے جس مکان کا کرایہ رکھا گیا ہے درحقیقت اس کی قیمت صرف سال بھر پہلے 25 لاکھ تھی اس طرح عام انسان کیا کرے ڈاکہ ڈالے، کراچی میں ابھی تک اس شہر کا سروے اس لحاظ سے نہیں کرایا گیا کہ اس ایک کروڑ سے زائد آبادی والے شہر جس کو بعض حلقے ڈیڑھ کروڑ والا شہر کہتے ہیں کتنے لوگوں کا اپنا گھر ہے اور کتنے لوگ کرایہ دار ہیں اسی بنیاد پر ٹاؤن پلاننگ کی جائے اور خصوصاً چھوٹے مکانات یعنی 120 مربع گز میں رہنے والوں میں کتنے لوگ کرایہ دار ہیں ان کے کوائف جمع کیے جائیں اور ایک گھر میں کتنے لوگ رہتے ہیں اسی شہر میں ایک ایک آدمی کے پاس آٹھ آٹھ بلڈنگیں ہیں نہ ان کا کوئی انکم ٹیکس کا گوشوارہ ہے اور نہ مکان کا تخمینہ لگانے کا کوئی ادارہ۔

ہر طرف بدنظمی، رشوت ستانی ہے ایک غیر مربوط اور غیر منظم حکومتی نظام نے قبضہ مافیا کو جنم دے دیا ہے اسی لیاری میں آپریشن جاری ہے برس ہا برس ہوگئے مگر امن قائم نہ ہوسکا کہ جس قدر بدنظم لوگوں کو مارا جا رہا ہے نئے پیدا ہو رہے ہیں اگر کراچی میں امن قائم کرنا ہے تو ایک طرف آہنی ہاتھ درکار ہے تو دوسری طرف موم والا دل یعنی لیاری میں نہایت سنجیدہ آپریشن گینگ وار کے سرکردہ گروہ کے لوگوں کو عام معافی کا اعلان ان کی نوکری چاکری کا انتظام اور سیاسی سرپرستی کا خاتمہ نام نہاد انتخابات اور جمہوری چھتری کو ناپید کرنا ہوگا بھارت کی مشہور زمانہ ڈکیت پھولن دیوی کے مقابلے میں یہ لوگ کیا بیچتے ہیں جس نے ہتھیار بھی پھینکے اور صاف ستھری زندگی گزارنے کا عہد کیا تو اس کو معافی ملی ورنہ اگر ایک بابا لاڈلا اور ایک عزیر بلوچ کو ختم کیا جائے گا تو دوسرے گروہ کے گینگ وار لیڈر پیدا ہوں گے۔ دراصل ہماری معاشی پالیسی ہی جرائم کو پیدا کر رہی ہے اب کراچی کے سفید پوش لوگوں کا احوال یہ ہے کہ ان کے گھروں میں جا کے روٹی کا ناشتہ اور رات کو کھانا ایسی صورت میں ملک کا مستقبل کیا ہوگا اگر حالات یوں ہی بڑھے تو کراچی میں افلاس کی اموات دیکھنے میں آئیں گی اور نئے لوٹ مار کے گروہ پیدا ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔