گریجویٹ ڈکیت

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  جمعـء 28 مارچ 2014
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

اس نے صرف ایک انڈا ہی چوری کر کے اپنی والدہ کو دیا تھا مگر والدہ نے یہ پوچھنے کے بجائے کہ انڈا کہاں سے آیا، انڈا تل کر بیٹے کو کھلا دیا۔ پھر جب اسے پھانسی دی جانے لگی تو اس نے اپنی والدہ کے کان میں کچھ کہنے کی خواہش ظاہر کی اور والدہ کے قریب آنے پر دانتوں سے کان کاٹ لیا اور کہا اگر یہ پہلے دن ہی مجھے انڈا چوری کرنے پر سرزنش کر دیتی تو آج مجھے پھانسی کے پھندے پر یوں لٹکنا نہ پڑتا۔

یہ شخص برصغیر پاک و ہند کا معروف ڈاکو تھا جو ’’سلطانہ ڈاکو‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ نانی اکثر ہمیں اپنے علاقے کے اس ڈاکو کی کہانی سناتی تھیں اور ہم رات کو شوق سے اس ڈاکو کے واقعات سنتے تھے کہ کس طرح یہ سلطانہ ڈاکو دن اور وقت بتا کر مقررہ مقام پر ڈاکا ڈالتا اور پولیس والوں کے ہاتھ بھی نہ آتا اور پھر لوٹ کا مال و دولت غریبوں میں تقسیم کرتا۔

سلطانہ ڈاکو کا کہنا بالکل بجا تھا کہ اگر اس کی والدہ پہلے ہی دن اسے چوری کرنے سے روک دیتی تو وہ ڈاکو ہرگز نہ بنتا۔ بچپن، لڑکپن اور جوانی کے ایام میں کسی بھی فرد کا واسطہ بے شمار لوگوں سے پڑتا ہے، گھر میں والدین، بہن بھائیوں سے، باہر محلے داروں سے، اسکول میں استاد اور ہم جماعتوں سے اور خریداری کرتے ہوئے مختلف قسم کے دکانداروں سے بھی رابطہ ہوتا ہے، اگر کسی فرد کو اچھی اور سیدھی راہ بتانے والے ملیں تو یقیناً وہ معاشرے کے لیے بھی ایک فعال اور اچھا شہری ثابت ہوتا ہے لیکن کسی فرد کو گھر کے افراد اچھے نہ ملیں، محلے دار اچھے نہ ملیں، دوست اچھے نہ ملیں یا استاد بھی اچھے نہ ملیں تو پھر وہ فرد معاشرے کے لیے کارآمد نہیں ناسور بھی بن جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں کے اخبارات میں ایک خبر کا چرچا رہا۔ خبر کے مطابق گلشن اقبال اور گلستان جوہر کراچی میں دہشت کی علامت سمجھا جانے والا ڈکیت گرفتار کر لیا گیا۔ اس ڈکیت نے بتایا کہ وہ گریجویٹ ہے مگر خاندانی مسائل اور معاشی حالات کی وجہ سے ڈکیت بنا۔

ایک وقت تھا کہ جب کسی بچے کو گھر سے اچھی تربیت نہ بھی ملے تو محلے کے بزرگ اسے غلط کاموں پر ٹوکتے اور اساتذہ صرف تعلیم نہیں دیتے بلکہ بہترین انداز میں تربیت بھی کرتے تھے، گویا ہر مقام پر کوئی نہ کوئی تربیت کرنے والا یا کردار کو درست سمت میں رکھنے کے لیے تلقین کرنے والا ضرور ہوتا تھا۔ ریڈیو پر بھی تلقین شاہ جیسے پروگراموں میں عوامی تربیت کی جاتی تھی۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہماری معاشرتی اقدار بدلتی گئیں اور یوں گھر سے باہر کسی بچے یا نوجوان کو غلط کام پر محلے کے بزرگوں کی جانب سے بھی روکنا ٹوکنا بند ہوتا چلا گیا اور تعلیمی اداروں میں بھی صرف تعلیم یعنی معلومات کی فراہمی تک ذمے داری محدود ہو گئی اور اساتذہ نے بھی طلبا کی تربیت سے ہاتھ اٹھا لیا، شاید بدلتی ہوئی معاشرتی قدروں کے مطابق انھیں بھی اس عزت کی ضرورت محسوس ہونے لگی جو صرف پیسے سے حاصل ہوتی ہے، چنانچہ اساتذہ نے بھی طلبا کو وقت دینے کے بجائے کوچنگ سینٹرز کو ترجیحی بنیادوں پر وقت دینا شروع کر دیا۔

مادہ پرستی کے معاشرتی اقدار میں شامل ہونے کے بعد ایک سبزی بیچنے والا بھی پانی ملا کر گلی سڑی سبزی ڈنڈی مار کر تولنے اور پیسے بنانے کے چکر میں لگ گیا اور وائٹ کالر جرائم بھی سفید پوشوں کا خاصہ بننے لگا۔ ایسے اخلاقیات سے عاری کرداروں کی بھرمار میں پلنے بڑھنے والے بچے اور نوجوان جب گھر میں عدم توجہ کا شکار ہو کر باہر نکلتے ہیں تو انھیں نہ خریداری کرتے وقت کوئی ایماندار دکاندار نظر آتا ہے، نہ کوئی محلے دار اخلاقی درس دیتا نظر آتا ہے، نہ ہی استاد تعلیمی ادارے میں اس کو کچھ سمجھاتے دکھائی دیتا ہے بلکہ جب وہ اپنے کسی حق کے حصول کے لیے جدوجہد کرتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ جناب یہاں خیرات دے کر فوٹو بنوانے والے تو بہت ہیں مگر ایک چھوٹا سا حق بھی دینے والے ناپید ہیں۔ یہاں مائیک پر کیمروں کے سامنے انصاف، میرٹ اور محب الوطنی کے دعوے تو سب کرتے ہیں مگر ایک گریجویٹ کو چپڑاسی کی نوکری بھی میرٹ پر دینے کو تیار نہیں۔

جب حق اور انصاف وقت پر نہ ملے اور خیرات بھی کسی بڑی سفارش اور فوٹو سیشن کے انتظار پر ملے اور مادہ پرستی و ہوس سے گھر کا ماحول بھی خاندانی مسائل اور گھٹن سے بھرا ہو تو معاشرے میں ان پڑھ ہی نہیں گریجویٹ ڈکیت بھی پیدا ہوں گے اور تھر و صحرائے چولستان جیسے المیے بھی پیدا ہوں گے، جہاں درجنوں بچے بھوک سے بھی مر جائیں تو کسی عوامی نمایندے کو ندامت نہ ہو۔ جب حق دبانے اور خیرات دکھا دکھا کر دینے کا کلچر عام ہو جائے تو پھر تھر جیسے سانحات بھی ہوں گے، بچوں کی ہلاکتیں بھی ہوں گی اور یہ کہنے کی جرأت بھی ہو گی کہ ہلاکتیں بھوک سے نہیں دست و اسہال کے باعث ہوئی ہیں۔ گویا بچوں کا دست و اسہال سے مرنا کوئی مسئلہ ہی نہیں۔

درحقیقت آج ہم قحط الرجال کے دور سے گزر رہے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم پھر سے ان اقدار کی طرف لوٹیں کہ جب ایک سائیکل سوار استاد کی عزت کسی وزیر امیر سے کہیں زیادہ ہوتی تھی، اور جب ایک فرد کی تربیت صرف گھر سے نہیں محلے اور تعلیمی اداروں میں موجود اساتذہ سے بھی ہوتی تھی۔ آئیے! ہم بھی بحیثیت گھر کے فرد، محلے دار اور ایک استاد کی حیثیت سے اپنے بچوں اور نوجوانوں کی تربیت کے لیے چند لمحے نکالیں اور اس معاشرے کے مفادات کی اس بھٹی کو بند کر دیں کہ جس سے گریجویٹ ڈکیت بن کر نکلتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔