متاثرین سیلاب کے بڑھتے عذاب

محمد سعید آرائیں  جمعرات 10 نومبر 2022
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

ملک بھر میں شدید بارشوں کے بعد جو سیلاب آئے تھے ان کو تین ماہ ہو رہے ہیں مگر لاکھوں سیلاب متاثرین کو درپیش پریشانیاں کم نہیں ہوئیں بلکہ اب وہ قدرتی عذاب میں تبدیل ہوگئی ہیں۔ موسمی تبدیلی کے بعد متاثرین کے دن تو نہیں بدلے مگر ان کی پریشانیاں مہلک امراض میں تبدیل ہو رہی ہیں۔

سیلاب کا پانی اب بھی بہت سے علاقوں میں موجود ہے اور حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ بعض علاقوں سے پانی کی نکاسی ممکن نہیں ہو رہی جس میں مزید ایک ڈیڑھ ماہ لگ سکتا ہے کیونکہ حکومت کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ سیلابی پانی کی کیسے نکاسی کی جائے کیونکہ بعض علاقوں میں سیم نالوں میں پانی موجود ہے جو دریاؤں میں جائے گا تو سیم نالوں کے خالی ہونے پر پانی وہاں منتقل کیا جاسکے گا اور یہی وجہ ہے کہ نکاسی نہیں ہو پا رہی جس سے پانی غلیظ ہو گیا ہے اور اس میں بدبو پیدا ہوگئی ہے اور مچھروں و مکھیوں کی بہتات سے وبائی امراض پھیل رہے ہیں اور تقریباً ایک سو ہلاکتیں اسی وجہ سے ہو چکی ہیں اور سیکڑوں افراد بیمار ہیں جن میں بچوں کی اکثریت ہے گندا اور مضر صحت پانی پینے سے گیسٹرو بڑھا اور کچھ ہلاکتیں بڑھی ہیں اور گردوں کے امراض بڑھے جن کا علاج بھی سیلابی علاقوں میں ممکن نہیں اور غریب متاثرین کے پاس اتنی رقم نہیں کہ وہ علاج کے لیے بڑے شہروں میں جاسکیں۔

شہروں سے متاثرین کی امداد کے لیے لگائے گئے کیمپ ختم ہوگئے ہیں۔ متاثرین کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں نے خیمہ سٹی بنائے ہیں مگر وہاں بھی متاثرین کو وقت پر کھانا ملتا ہے نہ دیگر سہولتیں اور نہ وہاں بیماروں کے موثر علاج کا سرکاری انتظام ہے۔

مختلف بیماریوں کی گولیاں اور سیرپ دے کر بیماروں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سرکاری خیمہ بستیوں میں سہولتیں اور خوراک نہ ملنے پر بعض علاقوں میں متاثرین نے احتجاج بھی کیا ہے۔

سندھ کے وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ حکومت نے متاثرہ علاقوں میں بحالی کے کام کا آغاز کردیا ہے اور بحالی کے عمل کو شفاف بنانے کے لیے تعلقہ سطح پر کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں۔ اس وقت تک حکومت کے پاس ڈھائی لاکھ متاثرہ گھروں کا ڈیٹا آ چکا ہے۔ متاثرین کے گھروں کی تعمیر کے لیے سندھ پیپلز ہاؤسنگ کمپنی قائم کردی گئی ہے۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ وزیر اعلیٰ نے نکاسی آب کے لیے جو وقت دیا تھا اس میں مزید وقت لگ سکتا ہے اور کوشش ہے کہ ہر مستحق فرد کا گھر بنا کر دیا جائے اور کسی غیر مستحق کو بحالی پروگرام میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ متاثرین کو ان کے گھروں کی تعمیر کے لیے مرحلہ وار پیسے دیے جائیں گے۔

وزیر اعلیٰ سندھ کا کہنا ہے کہ سندھ میں سیلاب سے فصلیں تباہ ہو چکی ہیں اور کھیتوں میں پانی کھڑا ہے اور حکومت کوشش کر رہی ہے کہ گندم کی پیداوار کے لیے زمینوں کو تیار کیا جائے تاکہ آنے والے دنوں میں گندم کی پیداوار متاثر نہ ہو۔

جن علاقوں میں پانی موجود ہے وہاں پمپوں کے ذریعے پانی نکالا جائے گا۔ بلوچستان میں طوفانی بارشوں کے بعد سیلابی ریلوں نے جو تباہی پھیلائی اس کا اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے خود مشاہدہ کیا تھا اور تباہی پر اظہار تشویش کیا تھا۔ بلوچستان میں دو ماہ تک ہونے والی بارشوں سے کتنے ہی دیہی علاقوں کا نام و نشان مٹ چکا ہے اور متاثرہ علاقوں میں شہر بری طرح تباہی کا شکار ہوئے۔

لاکھوں افراد گھروں سے محروم اور محفوظ علاقوں میں جا کر کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہوئے اور راستے نہ ہونے سے ان تک کوئی امداد بھی نہ پہنچائی جاسکی اور پینے کے پانی کی شدید قلت کا شکار ہوئے اور سیلابی پانی پینے پر مجبور ہوئے۔ ب

لوچستان میں متاثرہ علاقوں میں یہ حالت تھی کہ اچانک آنے والے سیلابی ریلوں سے لوگ بہ مشکل جانیں بچا کر محفوظ مقامات تک پہنچے اور ان کی جو ہلاکتیں ہوئیں انھیں دفنانے کے لیے انھیں خشک جگہ تک میسر نہیں تھی۔

وزیر اعظم کے چار دوروں کے باوجود حکومت بلوچستان متاثرین کی داد رسی میں ناکام رہی اور سندھ کے وزیر اعلیٰ سمیت باقی تین صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے کوئی قابل ذکر کارکردگی نہیں دکھائی اور صوبے کی انتظامیہ نے بھی متاثرین کو مایوس کیا جس کی وجہ سے بلوچستان کے متاثرین کی مشکلات ختم تو کیا کم بھی نہ ہو سکیں۔

سردی شروع ہونے کے باعث لوگوں نے گارے مٹی سے اپنی مدد آپ کے تحت  اپنے متاثرہ گھروں کی مرمت شروع کی ہے اور حکومت ہر طرف ناکام نظر آئی اور بیورو کریسی کا کردار مایوس کن رہا اور ہر جگہ لوگ امداد نہ ملنے کی دہائیاں دیتے رہے اور سیلابی پانی سے ہونے والی بڑی تباہی کے بعد لوگ سخت پریشان ہیں اور ان کی بے سر و سامانی اور بیماریاں اموات بڑھا رہی ہیں۔ بلوچستان میں آنے والے سیلابوں کے سدباب کے لیے آج تک کوئی حکمت عملی نہیں بنی۔

سندھ اور بلوچستان کے مقابلے میں پنجاب اور کے پی کے کم متاثر ہوئے اور وہاں کی پی ٹی آئی کی حکومتوں نے انتہائی غیر ذمے داری کا مظاہرہ کیا اور عمران خان نے دونوں صوبوں کو برائے نام وقت دیا اور انھیں اپنی سیاست سے اور دونوں صوبائی حکومتوں کو اپنے چیئرمین کی خوشامد، خوشنودی اور ان کے جلسے کرانے سے فرصت نہیں ملی۔

مجموعی طور پر چاروں صوبوں میں سیلاب متاثرین کو درپیش پریشانیاں کم نہیں ہو رہیں۔ سرکاری پروپیگنڈے پر زور زیادہ اور عملی اقدامات پر کم رہا جس کی سزا دو ماہ بعد بھی متاثرین اب بیماریوں کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔