جسے پیا چاہے؟

رئیس فاطمہ  جمعـء 11 نومبر 2022
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

کئی ماہ سے کہا جا رہا تھا کہ اکتوبر اور نومبر میں بڑی تبدیلی آنے والی ہے۔ عجیب بات ہے کہ جب پی ٹی آئی کی حکومت تھی تو مہنگائی نے آسمان کو چھو لیا۔ لوگ برا بھلا کہنے لگے، عمران خان کی گرفت نہ تو اپنے وزیروں پر تھی اور نہ ہی اداروں پر۔ البتہ ان کے گرد جو لوگ جمع تھے وہی سارے فیصلے کرواتے تھے۔

وزیروں اور کارکنوں کا یہ کام تھا کہ ٹی وی شوز میں آ کر عمران خان کی حکومت کا دفاع کریں، لیکن لوگ ان کی کسی بات کو ماننے کو تیار نہیں تھے۔ عجیب و غریب واقعات ہو رہے ہیں۔

جن پر فرد جرم عائد ہوئی تھی، انھیں اقتدار کی کرسی پر بٹھا دیا اور جس نے حکم عدولی کی اس کو فارغ کردیا، لیکن اس دفعہ چال الٹی پڑ گئی، جسے راندہ درگاہ کیا تھا اس کا مقبولیت کا گراف بڑھتا رہا اور وہی مقبولیت اسے ملی جو الیکشن سے پہلے تھی۔ دن بہ دن حکومتی وزرا کے بیانات اس کے خلاف آ رہے ہیں۔ روز پریس کانفرنسیں ہو رہی ہیں لیکن پانسہ ہے کہ الٹا ہی پڑ رہا ہے۔ لوگ اس کے خلاف بات بھی سننے کو تیار نہیں۔

پتا نہیں ملک کا کیا بنے گا، وزیر اعظم دوروں پر دورے کر رہے ہیں لیکن عوام کی رائے ان کے حق میں اچھی نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا نے عوام کو شعور دیا ہے، لوگ اب کھل کر بول رہے ہیں ، اگر پرانے وقتوں میں سوشل میڈیا ہوتا تو لیاقت علی خان کے قاتل کو ضرور عوام کی عدالت میں گھسیٹا جاتا۔ اس وقت سے لے کر بے نظیر کے قتل تک سب کچھ عیاں ہے۔

اب تو ایک عام رکشے والا بھی جانتا ہے کہ بے نظیر کا قتل کیوں ہوا اور کس نے کروایا۔ خفیہ ہاتھ لیاقت علی خاں کے قتل تک بہت ہی زیادہ مضبوط تھے۔ یہاں ایک بات کی وضاحت کردوں کہ لیاقت علی ’’خاں‘‘ تھے ’’خان‘‘ نہیں تھے۔ خان پٹھان ہوتے ہیں جبکہ ’’خاں‘‘ راجپوت ہوتے ہیں۔ ہندو راجپوت اپنے نام کے ساتھ سنگھ لگاتے ہیں اور مسلمان راجپوت ’’خاں‘‘ لگاتے ہیں۔

سوشل میڈیا پہ ساری معلومات پڑی ہیں کہ سید اکبر ببرک افغان تھا، اس کے بیٹے نہایت عیش و آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں، گزشتہ دنوں سو سال سے زائد عمر میں سید اکبر کی بیوی ململ بی بی کا انتقال ہوا ہے۔

اپنے اردگرد نظر ڈالیے تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا، (ن) لیگ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیان دیتی ہے اور کبھی جی حضوری کرتی نظر آتی ہے۔

پیپلز پارٹی تیل دیکھتی ہے اور تیل کی دھار۔ وہ جانتے ہیں کہ حاکم کی اگاڑی سے بھی ڈرنا چاہیے اور پچھاڑی سے بھی۔ بھٹو صاحب نے للکارا تھا، گھٹنے نہیں ٹیکے تھے ، لیکن وہ بھول گئے تھے کہ قبر تو ایک ہی تھی اور کس کو دفن ہونا تھا۔ پیپلز پارٹی اب تک بھٹو صاحب کی لاش پر سیاست کر رہی ہے۔ اب نہ فاطمہ بھٹو کی کوئی خبر آتی ہے نہ ذوالفقار علی جونیئر کی۔ صنم بھٹو نے جوگ لے لیا ہے۔

ایک پرانی انڈین فلم تھی، نام تھا ’’سادھنا‘‘۔ ساحر لدھیانوی نے اس کے گیت لکھے تھے جو بہت مقبول ہوئے تھے۔ وجنتی مالا نے اس پر غضب کا رقص کیا تھا، بول تھے:

کہو جی تم کیا کیا خریدو گے

یہاں تو ہر چیز بکتی ہے

لالہ جی تم کیا کیا، میاں جی تم کیا کیا خریدو گے

کہو جی تم کیا کیا خریدو گے

بس یہی حال ہمارے ملک کی سیاست کا ہے۔ یہاں بھی ہر چیز بکتی ہے۔ یہاں بھی لوگ بکتے ہیں، صحافی بکتے بھی ہیں اور ارشد شریف کی طرح مرتے بھی ہیں، قتل بھی ہوتے ہیں اور دو کمروں کے گھر سے ہزار گز کے بنگلے میں بھی پہنچ جاتے ہیں۔ استاد بھی بکتے ہیں، نالائق طالب علم کو A+ گریڈ دے دیتے ہیں اور قابل کو B گریڈ۔ پی ایچ ڈی کرنا اب کوئی مشکل نہیں، اگر جیب گرم ہے تو دو سال کے اندر اندر ڈگری مل جاتی ہے۔

وہ زمانے گئے جب ماسٹرز میں فرسٹ کلاس لینا اور پی ایچ ڈی کرنا کاردارد تھا۔ ڈاکٹروں کو دیکھیے عجیب حال ہے۔ صرف نسخہ لکھنے کے پانچ ہزار لینا معمول کی بات ہے۔ اب کسی ڈاکٹر کے کلینک میں دوائیں نہیں دی جاتیں۔ بس نسخہ لکھا اور پکڑا دیا، میڈیکل اسٹور بھی بتا دیا جوکہ خود انھی کا ہوتا ہے یا حصہ داری ہوتی ہے۔ ڈاکٹروں کو دوائیں بنانے والی کمپنیاں پرکشش مراعات دیتی ہیں جن میں بیرون ملک کی سیاحت سے لے کر قیمتی گاڑیاں اور بہت کچھ۔

ہو سکتا ہے اب کچھ بدلاؤ آ جائے، ورنہ تو۔۔۔۔ ’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ والا نعرہ بھی واپس لے لیا گیا ہے، کیونکہ سب اہل اقتدار جان گئے ہیں کہ سر پر اقتدار کا تاج کون رکھتا ہے۔

ہما کس کے سر پہ سایہ فگن ہوتا ہے۔ میں تو اب ووٹ دینے بھی نہیں جاتی، کیونکہ کئی سالوں تک پریزائڈنگ افسر کی حیثیت سے الیکشن کروانے کی وجہ سے سب کچھ عیاں ہے ، لیکن ان دنوں کی کہانی لکھنا ممکن نہیں۔ اس ملک میں جمہوریت کا پودا کبھی پنپ نہیں سکتا، کیونکہ جمہوریت کا بیج ڈالنے ہی نہیں دیا گیا۔

خفیہ ہاتھوں نے وہ مٹی ہی نکال کر پھینک دی جس میں جمہوریت کا بیج ڈالا جاتا۔ سیاست دانوں نے ان غیرمنتخب قوتوں کا خوب ساتھ دیا۔ انھوں نے اقتدار کا تاج پہننے کے لیے وہ زمین ہی کھرچ دی اور سب کچھ خاک میں ملا دیا۔ کون سی جماعت ہے جو آزاد ذہن اور آزاد سوچ رکھتی ہو۔

نواز شریف کس  کے لے پالک تھے ،بے نظیر کس سے ایڈوائس لیتی تھیں، عمران خان کس کے کاندھوں پر چڑھ کر آئے؟ اب جو انھوں نے قد کاٹھ نکالا تو سبھی کے ہوش اڑ گئے، اور عجیب بات یہ ہوئی کہ پی ٹی آئی اپنے دور اقتدار میں تقریباً اپنی ساکھ اور مقبولیت کھو چکی تھی۔ خاص کر مہنگائی کے حوالے سے۔ لیکن جوں ہی انھیں سزا دی گئی ان کی مقبولیت کا گراف اوپر چلا گیا۔

خاص کر جب ان پر قاتلانہ حملہ ہوا تو گراف بالکل چوٹی پر چلا گیا۔ اب سب حیران اور پریشان ہیں کہ کیا کریں؟ یہ ملک ایک چراگاہ بن چکا ہے جس کا جہاں سے جی چاہے منہ مارا اور زمین ادھیڑ کر رکھ دی۔ آخر کب تک ایسا ہوتا رہے گا؟ روز کے مداری کے تماشے اب بند ہونے چاہئیں۔ لوگ اکتا گئے ہیں اور بے زار بھی ہوگئے ہیں۔ اسی لیے الیکشن میں ٹرن آؤٹ اتنا نہیں ہوتا بس وہی آتے ہیں جو الیکشن کی حقیقت نہیں جانتے۔

عمران خان کی ٹانگ میں گولی لگی اور انھوں نے دھرنا اور لانگ مارچ ملتوی کردیا۔ لیکن ہوا یہ کہ 7 نومبر کے اخبار میں وزیر آباد سے دوبارہ لانگ مارچ کے آغاز کی سرخی لگی تھی اور ساتھ ہی اسلام آباد میں ’’دھرنا نامنظور‘‘ کے لاتعداد بینر لگے ہوئے تھے۔

فیض آباد کی طرف جاتے ہوئے راستوں پر، پلوں پر بڑے بڑے بینر راتوں رات کس نے لگا دیے؟ یہ فرشتے اتوار کی رات کو ہی کیوں آئے اور کہاں سے آئے؟ تو جناب یہ وہی فرشتے تھے، جنھوں نے کئی سال پیش تر علامہ طاہر القادری کے حق میں ملک کے مختلف شہروں میں بینر لگ گئے تھے۔ ہم نے ایک دن دیکھا کہ شہر کی شاہراہوں اور پلوں پر بے تحاشا بینر لگے ہیں، جاننے والے جان گئے تھے البتہ جو نہ سمجھے وہ بہت ہی معصوم ہیں۔

خیر جہاں تک اسلام آباد میں دھرنوں کا سوال ہے تو ہم بھی اس کے حق میں نہیں کہ وہاں کے لوگوں کی زندگیاں اجیرن ہو جاتی ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کو دھرنوں کے لیے راستہ کس نے دکھایا ، جس کا منہ اٹھا وہ دھرنے میں شامل ہوگیا ، لیکن اس سے پہلے دھرنوں کے خلاف بینر کیوں نہیں لگے۔

قاضی حسین احمد، پیپلز پارٹی، (ن) لیگ، وکلا برادری، تحریک طالبان کے علاوہ اور بھی بہت سے گروہ اور جماعتیں احتجاج کے لیے اسلام آباد ہی کو منتخب کرتی ہیں ، لیکن کوئی پابندی نہیں لگی، سونے والے اب سو سو کر جاگے جب عمران خان نے ان کی نیندیں اڑا دیں۔ اسی لیے کسی شاعر کی خدمات حاصل کی گئیں، کسی ایسے تک بندی کرنے والے شاعر کی جو ٹرکوں کے پیچھے اشعار لکھتے ہیں، کیا اس طریقے سے خان کا لانگ مارچ رک جائے گا؟ کیا ان دھرنوں اور لانگ مارچ سے تبدیلی آئے گی یا آسکتی ہے؟

ہمارا کہنا یہ ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہے۔ یہاں وہ مثل یاد آ رہی ہے ’’جسے پیا چاہے، وہی سہاگن‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔