عظیم بالشویک انقلاب

جمیل مرغز  جمعـء 11 نومبر 2022
jamilmarghuz1@gmail.com

[email protected]

امریکی اسٹرٹیجک کمانڈ کے سربراہ ایڈمرل چارلس رچرڈز نے سالانہ نیول سب میرین لیگ سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’امریکہ‘ روس اور چین کے خلاف ایٹمی برتری کھوتا جا رہا ہے۔‘‘ یعنی امریکہ خود تسلیم کر رہا ہے کہ دنیا اب ملٹی پولر ہے۔

اس کے علاوہ امریکہ کے لیے ایک اور خراب خبر۔ برازیل میں کامریڈ لولا ڈی سلوا کی کامیابی سے دنیا بھر کے انقلابیوں کے دلوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے ‘یہ کامیابی اس امر کا ثبوت ہے کہ سرمایہ داری اور سامراجیت کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ جاری ہے۔

آج عظیم بالشویک انقلاب کو 105سال ہوگئے ہیں اور اس کا برپا کیا نظام بھی فی الحال روس کی حد تک پسپا ہوگیا ہے‘ لیکن دنیا کے غریب اور محنت کش آج بھی مختلف ملکوں میں اس نظام کی واپسی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں‘ حالانکہ اس راستے میں تکالیف بہت ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس نظام کے بغیر غریب اور محنت کش طبقوں کی حالت نہیں بدلی جا سکتی۔ اسی لیے ترقی پسندوں کے بارے میں شاعر نے کہا ہے کہ

؎یہ شوق سفر ایسا ‘ایک عہد سے یاروں نے

منزل بھی نہیں پائی ‘رستہ بھی نہیں بدلا

105 سال قبل دنیا کی معلوم تاریخ میں پہلی بارایک عظیم انقلاب محروم طبقوں کے اقتدار کی شکل میں برپا ہوا‘ اس سے قبل پیرس کمیون کا ستر روزہ تجربہ ایک عارضی عمل ثابت ہوا تھا ۔جان ریڈ اپنے شہرہ آفاق کتاب ’’دس دن جنہوں نے دنیا کو ہلا دیا‘‘میں لکھتا ہے کہ ’’کوئی بالشوازم کے بارے میں کچھ بھی سوچے ‘یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انقلاب روس انسانیت کی تاریخ کے عظیم ترین واقعات میں سے ایک ہے اور بالشویکوںکا اقتدار عالمگیر اہمیت کا حامل ہے‘‘۔

زار روس کے خلاف انقلابی تحریک کا آغاز 25اکتوبر 1917 (نئے کیلنڈر کے مطابق 7نومبر 1917 )کی شام کو ہوا اور 25اور 26اکتوبر کی درمیانی رات کولینن کی سرکردگی میں روسی سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی (بالشویک) نے اقتدار پر قبضہ کرلیا ۔

لینن نے دسمبر 1917میں لکھا کہ ’’ہمیں ہر قیمت پر اس پرانے‘فضول‘وحشی اور قابل نفرت نظام کو پاش پاش کرنا ہوگاکہ’’ صرف نام نہاد اعلی طبقات ‘امراء اور امراء کی تعلیم و تربیت پانے والے ہی ریاست کا نظام چلا سکتے ہیں‘‘۔انقلاب کی کامیابی کے بعد ’’سوویتوں کی کل روس کانگریس ‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے لینن نے کہا کہ ’’تاریخ کے کچرے کو صاف کرنے کے بعد اب ہم اس خالی جگہ پر سوشلسٹ سماج کی ہوا دار اور عالیشان عمارت تعمیر کریں گے ‘‘ ۔

انقلاب کے بعد وسیع و عریض جاگیروں ‘بھاری صنعت‘اجارہ داریوں اور معیشت کے کلیدی شعبوں کو نومولود ’’مزدور ریاست ‘‘نے ضبط کر لیا ‘مالیاتی سرمائے کی آمریت کو توڑا گیا ‘تمام بیرونی تجارت پر ریاست نے اپنی اجارہ داری قائم کی ‘وزیروں اور عہدیداروں کی مراعات کاخاتمہ کردیا گیا‘ انقلاب کے رہنماء بھی انتہائی سادہ زندگی گزارتے تھے۔

وکٹر سرج اپنی ’’ایک انقلابی کی ڈائری‘‘میں لکھتا ہے کہ ’’لینن شاہی محل کریملن میں نوکروں کے لیے تعمیر کردہ چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے‘ جب وہ حجام کے پاس جاتے ‘تو اپنی باری کا انتظار کرتے ‘‘۔بورژوا طبقہ اس طبقے کو کہتے ہیں جو تمام وسائل پیداوار پر قابض ہو‘پرولتاریہ وہ طبقہ ہے جو اپنی محنت کے سوا مزید کوئی اثاثہ نہیں رکھتا ‘سوویت انقلاب پرولتاریہ کی بورژوا طبقے پر فتح کا واقعہ ہے۔

سوویت منصوبہ بند معیشت نے انسانی تاریخ کی تیز ترین ترقی کی ‘چند دہائیوں میں سوویت یونین ایک پسماندہ زرعی ملک سے ترقی یافتہ صنعتی ملک بن گیا ‘1913کے قبل از جنگ پیداوار کے عروج کے بعد کے 50سالوں میںدو عالمی جنگوں‘بیرونی جارحیت‘خانہ جنگی اور دوسری بربادیوں کے باوجودکل صنعتی پیداوار میں امریکہ اور برطانیہ جیسے سرمایہ دار ممالک کے مقابلے میں کئی گنا اضافہ ہوا۔

اتنی مختصر مدت میں اتنی تیز رفتارمعاشی ترقی صرف سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کی وجہ سے ممکن ہوئی ‘ریاست تعلیم اور صحت کی مفت سہولت دے رہی تھی ‘لوممبا فرینڈشپ یونیورسٹی اور دوسری تعلیمی اداروں میں تیسری دنیا کے ہزاروں طالب علم بھی مفت تعلیم حاصل کر رہے تھے۔

‘بے گھر لوگوں کو گھر اور بیروزگاروں کو روزگار کی ضمانت بھی ریاست کی ذمے داریوں میں تھی ‘بے روزگاری ایک جرم تصور ہوتی تھی۔

1960تک معیشت دنیا کی دوسری معیشت بن چکی تھی ‘کپڑوں اور جوتوں سے لے کر ہوائی جہاز اور خلائی راکٹ بننے لگے ‘سوویت یونین کے بنے ہوئے فریج‘ائر کنڈیشنڈ اور اسلحے نے پاکستان میں بھی ملٹی نیشنل کمپنیوں کومارکیٹ میں پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ سوویت یونین کے انہدام کے کئی وجوہات ہیں لیکن اس کے باوجود بالشویک انقلاب آج بھی نسل ا نسانی کی نجات کے لیے مشعل راہ ہے۔

شاید سامراجی اور سرمایہ دار دنیا اس امر پر خوش ہو کہ 1991میں سوویت یونین کا انہدام ہو گیا اور اس کو وہ اپنی جیت سمجھیں لیکن سوشلزم کا نظریہ بھوت بن کر اب بھی سرمایہ داری اور سامراجیت کا پیچھا کر رہا ہے‘ سوشلزم کے اثرات دنیا میں بہت گہرے ہیں‘اس نظام نے سرمایہ داری نظام کی ظالمانہ استحصالی نظام کی خرابیوں کو اجاگر کیا ۔

پہلی بار اس نظام کی بدولت مزدور‘ کسان اور محنت کش طبقوں کو دنیا کا نظام چلانے میں اپنی اہمیت کا احساس ہوا‘ان کو تاریخ میں پہلی بار اپنی محنت کا پھل ملا ۔نہ صرف سوویت یونین بلکہ دنیا بھر میں غربت اور سامراجیت کے خلاف ہونے والی جنگ آزادیوں کی پشت پر سوشلسٹ کیمپ کی مدد ہوتی تھی‘ دنیا سے نوآبادیاتی سامراجی نظام کے خاتمے کی بنیادی وجہ بھی سوشلسٹ کیمپ اور خاص کر سوویت یونین کی آزادی کی تحریکوں کی حمایت اور مدد تھی۔

اس نظام کی وجہ سے ایشیاء ‘افریقہ اور لاطینی امریکہ کے عوام کی بہت بڑی اکثریت نے سامراجی غلامی کا تھوک اپنے کندھوں سے اتار پھینکا اور آزادی حاصل کی ‘سرمایہ دار ملکوں نے انقلاب کے خوف سے اپنے ممالک کے محنت کشوں کو سماجی بہبود کے اداروں کے ذریعے مراعات دیں‘یوم مئی کے مزدوروں نے جن مطالبات کے لیے عظیم قربانیاں دی تھیں ان سے کئی گنا زیادہ ان کو سوویت انقلاب کی بدولت حاصل ہوا۔

سوشلسٹ ریاستوں نے اپنے عوام کو روزگار‘تعلیم اور صحت کی سہولیات کے ساتھ ساتھ رہنے کے لیے گھر کی سہولیات بھی فراہم کیں‘آج بھی بعض ممالک میں یہ نظام قائم ہے اور اسی نظام کی بدولت کیوبا‘بولیویا‘وینزویلا اور شمالی کوریا جیسے ممالک امریکی سامراج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے قابل ہوئے ۔

سوویت یونین سامراجی سازشوں کی وجہ سے ختم ہوگیا لیکن یہ حقیقت آج بھی واضح ہے کہ سرمایہ داری نظام اور طبقاتی نظام کے خلاف سوشلسٹ نظام کی شروع کی گئی جنگ آج بھی مختلف شکلوں میں جاری ہے۔سامراجی حملوں کے خلاف پوری دنیا میں مظاہرے ‘وینزویلا ‘بولیویا ‘یونان اور سپین میں کمیونسٹوں کی فتوحات‘اس امر کا اشارہ ہے کہ غریب اور امیر کے درمیان جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ‘اب بھی ریاستوں کا فرض ہے کہ طبقاتی فرق کو کم کرنے اور محروم طبقات کو زیادہ سہولتیں دیں۔

امریکی سامراج اور خاص کر اس کے مذہبی انتہا پسندنیو کانز(neo-conservative) حصے اور عالمی سطح پر ان کے غیر محسوس اتحادیوں یعنی مذہبی انتہا پسند تنظیموں کی مسلسل یہ کو شش ہے کہ 1995میں لکھی گئی امریکی تاریخ دان سیموئیل پی ہنٹگٹن کی کتاب ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ (Clash of Civilisation) کے مندرجات کو صحیح ثابت کیا جائے۔

اس کتاب میں مصنف نے لکھا ہے کہ سوشلسٹ کیمپ کے خاتمے کے بعدسرمایہ دار اور غریب کے درمیان جنگ ختم ہوگئی ہے، اب دنیا ایک نئی جنگ کے دور میں داخل ہورہی ہے ‘یہ’’ جنگ اب تہذیبوں کے درمیان ہوگی‘ ‘اب مغربی تہذیب جو ایک ترقی یافتہ اور سیکولر تہذیب ہے کا مقابلہ پسماندہ تہذیبوں کے ساتھ ہوگا ‘پسماندہ تہذیبوں میں سب سے طاقتور تہذیب مسلمانوں کی ہے‘ اس لیے اب مقابلہ مغربی تہذیب اور مسلم تہذیب کے درمیان ہوگا‘اس کے بعد امریکی سیاست میں نیو کانز نے ریپبلیکن پارٹی کی حمایت میں سرگرمیاں تیز کیں اور بش سینئر اور بش جو نیئر کی زمانہ صدارت میں ان کا عروج رہا ‘ان لوگوں کی پالیسیوں کا محور ہی اسلام دشمنی تھا‘ٹرمپ بھی اسی پالیسی پر کاربند رہا ۔

القاعدہ ‘داعش ‘ طالبان اور ان کے اتحادی دوسرے انتہا پسند تنظیموں کو سوشلزم کے خلاف استعمال کرنے کے بعد اب اسلام کو انتہا پسند اور مغربی تہذیب کا دشمن ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے ‘سوشلسٹ کیمپ کے خلاف ان تنظیموں نے امریکہ کا پورا ساتھ دیا اور اب بھی یہ تنظیمیں امریکہ کا مکمل ساتھ دے رہی ہیں۔

ان سب حربوں اور پروپیگنڈوںکے باوجود امریکی سامراج اب تک یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ واقعی عالمی سطح پر تہذیبوں کا تصادم شروع ہوچکا ہے ‘ہر زاویے سے دیکھا جائے تو دنیا میں آج بھی طبقاتی جنگ جاری ہے ‘عالمی سطح پر سرمایہ دار اور ترقیاتی یافتہ ممالک آج بھی غریب ممالک کے استحصال کے ذریعے اپنی دولت بڑھا رہے ہیں‘اسی طرح استحصالی طبقات اپنے ممالک میں غریبوں کا استحصال کر رہے ہیں۔

انسانی سماج کا جس پہلو سے بھی جائزہ لیا جائے ‘ لاکھوں سال کی تاریخ یہ بات ثابت کر رہی ہے کہ اصل میں جنگ وسائل پر قابض طبقوں اور وسائل سے محروم طبقات کے درمیان ہے ‘آج بھی عالمی سامراجی پالیسیوں کے ذریعے امیر ممالک امیر تراور غریب ممالک غریب تر اوراسی طرح مالدار طبقے مالدار تر اور غریب طبقے غریب تر ہو رہے ہیں۔

اب تو پوپ نے بھی سرمایہ داری نظام کو رد کردیا ہے ‘اس نظام سرمایہ پرستی کو ختم کیے بغیر نہ کرپشن ختم ہوگی اور نہ غربت اور جرائم‘سپریم کورٹ اور نیب بھی کچھ نہیں کرسکتے۔میرا یقین ہے کہ ظلم کا نظام جلد ختم ہوگا کیونکہ انسانوں کے مسائل کا حل اس نظام کے پاس نہیں ہے۔

؎مجھے یقین ہے کہ ہم ہیں چراغ آخر شب

ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔