COP 27 - ایک جائزہ

شکیل فاروقی  جمعـء 11 نومبر 2022
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

وطنِ عزیز پاکستان میں حالیہ سیلاب نے جو قیامت خیز تباہی اور بربادی مچائی ہے، اُس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ سیلاب کے نتیجہ میں نہ صرف بڑے پیمانہ پر مال مویشی اور املاک کا بڑا بھاری نقصان ہوا ہے جس کی تلافی کوئی آسان کام نہیں لیکن انسانی جانوں کا جو نقصان ہوا ہے اُس کی تلافی مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔

اِس سے انکار نہیں کہ متعلقہ اداروں کی قبل از وقت اور تسلی بخش تیاری سے اِس نقصان کو کسی حد تک کم کیا جاسکتا تھا لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا۔ جہاں تک محکمہ موسمیات کا تعلق ہے، اُس نے اِس طوفان کی آمد کی بہت پہلے پیشگوئی کر دی تھی۔ بدقسمتی سے پاکستان اُن ممالک میں شامل ہے جو شدید موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے اور اُس کا مستقبل شدید خطرہ میں ہے۔

یہ حقیقت پوری طرح آشکار ہوچکی ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی برق رفتار ترقی کا خمیازہ پاکستان جیسے متاثرہ ممالک کو بھگتنا پڑ رہا ہے، لہذا اس صورتحال کی تمام تر ذمے داری اُن ممالک پر عائد ہوتی ہے جو کرہِ ارض کے ماحول کو نہ صرف آلودہ بلکہ تباہ و برباد کر رہے ہیں۔ اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ کرے کوئی اور بھرے کوئی اور۔ باالفاظِ دیگر :

ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

بھیڑیئے اور میمنہ کی یہ کہانی جتنی جلدی ختم ہوجائے اتنا بہتر ہے۔ اِس سنگین مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سر جوڑ کر بیٹھے تھے اور اِس سلسلہ میں ایک کانفرنس کا ’ یوکے ‘ کے شہر گلاسگو میں 13 اکتوبر تا 13 نومبر 2021 میں سی او پی کا انعقاد ہوا تھا۔

کانفرنس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ نصف صدی تک درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری کی کم سطح تک لایا جائے۔ اس کا دوسرا مقصد یہ تھا کہ قدرتی نباتات اور انسانی زندگیوں کو ماحول کی آلودگی اور موسمیاتی شدت سے بچایا جاسکے اور اِس کے لیے مطلوبہ مالیاتی بندوبست کیا جاسکے ، جس کے لیے تمام متعلقہ ممالک کو مل کر کام کرنا تھا۔

اِس مسئلہ کا حل تلاش کرنے کے لیے ایک اور کانفرنس سی او پی12 پیرس میں 30 نومبر تا 12 دسمبر 2015 میں منعقد ہوئی تھی۔ اس کانفرنس میں معاہدہ پیرس طے پایا جس کا مقصد دنیا بھر میں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے آنے والی تبدیلیوں کا کوئی حل تلاش کرنا تھا۔

حالیہ سی او پی کا انعقاد رواں مہینہ کی 6 تاریخ سے 18 تاریخ تک شرم الشیخ، مصر میں جاری ہے جس کی میزبانی مصر کے صدر کررہے ہیں۔ یہ کانفرنس اقوامِ متحدہ کے زیرِ سایہ منعقد ہورہی ہے جس میں اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل خصوصی دلچسپی لے رہے ہیں جس سے اِس کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔

آپ کو یاد ہوگا کہ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے پاکستان کے حالیہ تباہ کُن سیلاب کا بذاتِ خود جائزہ لینے کے لیے اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر پاکستان کا دورہ کیا تھا جس کا مقصد عالمی برادری کو اِس سنگین مسئلہ کی طرف توجہ دلانا اور سیلاب زدگان کی زیادہ سے زیادہ مدد پر آمادہ کرنا تھا اور یہ باورکرانا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک جو اِس کی تباہی اور بربادی کے ذمے دار ہیں۔

پاکستان کی بھر پور مدد کریں جو کہ اُن کا احسان نہیں بلکہ اخلاقی فرض ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِس کانفرنس میں پاکستان کو خصوصی اہمیت دی جارہی ہے اور توقع ہے کہ ترقی پذیر ممالک اِس سلسلے میں اپنا بھرپورکردار ادا کریں گے جو کہ ایک خوش آیند بات ہے۔

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو وہ بھی اس کانفرنس میں بھرپور تیاری کے ساتھ حصہ لے رہا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان کی وزیرِ موسمیات شیری رحمن اور وزیرِ اعظم شہباز شریف بھی انتہائی گرمجوشی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور عالمی برادری کو اس جانب متوجہ کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو اور وزیرِ خزانہ کی گہری دلچسپی نے اس کانفرنس کی اہمیت کو دو بالا کردیا ہے۔

اگرچہ یہ کانفرنس کوئی عطیاتی فورم نہیں ہے لیکن اس سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کی جارہی ہیں کیونکہ موسمیاتی تبدیلیوں کی انتہائی شدت نے نہ صرف ترقی پذیر ممالک کو متاثرکیا ہے بلکہ اِس کے اثرات نے ترقی یافتہ ممالک کو بھی اپنی زد میں لے لیا ہے ، جس سے یورپی ممالک کے علاوہ یو کے، یو ایس اے اور انڈو پیسیفک کے خطہ کو بھی متاثر کیا ہے۔

افریقہ اور جنوبی ایشیا کے بعض خطوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کُن اثرات کی لہر سے مذکورہ ممالک بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ پاکستان کو اس کانفرنس کے انعقاد سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہیے۔

یہ بات اطمینان بخش ہے کہ حالیہ کانفرنس کے ایجنڈے میں موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں آنے والے ممالک کی مالیاتی معاونت اور تکنیکی امداد کی فراہمی بھی شامل ہے۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ حالیہ کانفرنس میں متاثر ہونے والے ممالک بشمول پاکستان میں ہونے والی تباہی و بربادی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

یہ بات بھی اطمینان بخش ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والی تباہی و بربادی کے ذمے دار ممالک میں یہ شعور بیدار ہورہا ہے کہ اِس سنگین مسئلہ میں متاثرہ ممالک کی مدد کرنا اُن کا اخلاقی فرض ہے۔

یہ بات بھی کچھ کم خوش آیند نہیں کہ امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک نے بھی جو کہ اس مسئلہ میں ابھی تک کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتا تھا ، اب اپنی اخلاقی ذمے داری کو کسی نہ کسی حد تک محسوس کرلیا ہے جس کا اظہار یو ایس کے موسمی تبدیلی کے امور کے سفیر جون کیری کے عندیہ سے ہوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔