ہم بے مثال ہیں

م ش خ  جمعـء 11 نومبر 2022
meemsheenkhay@gmail.com

[email protected]

سیاستدانوں کے حلقے ویران ہیں، اب تو لوگ اپنے منتخب کردہ نمائندوں کے چہرے بھی بھول گئے ہیں، سیاستدان اپنی ذمے داریوں سے بہت دور ہیں، الزام تراشیوں کا سلسلہ اپنے عروج پر، اپوزیشن ہو یا برسر اقتدار حضرات سب اپنے مفادات کو بچانے میں لگے ہوئے ہیں۔

آپ کو حیرت ہوگی ایم این اے اور ایم پی اے ، وزرا یہ سب اپنے حلقوں کا رخ نہیں کر رہے، جب سے الیکشن ہوئے ہیں ، پہلے تو یہ بات پی ٹی آئی کے لیڈروں تک محدود تھی اس کے بعد مولانا فضل الرحمن نے پی ڈی ایم کا اتحاد تشکیل دیا اور وہ عدم اعتماد کے ذریعے پی ٹی آئی کو گھر بھیجنے میں کامیاب ہوگئے۔

عمران خان کے دور حکومت میں، پی ڈی ایم کے معروف سیاستدانوں نے مہنگائی کے حوالے سے جلسے جلوس کیے آج وہ نہ جانے کیوں خاموش ہیں۔ اسی کو سیاست کہتے ہیں۔ آج پی ڈی ایم ، پی ٹی آئی کے جلسوں پر خوب تنقید کر رہی ہے۔

کیا ماضی میں نواز شریف نے ججوں کے لیے لانگ مارچ نہیں کیا تھا ؟ محترمہ بے نظیر بھٹو نے نواز شریف کی پہلی حکومت کے خلاف آواز نہیں اٹھائی تھی؟ پھر عمران خان کی حکومت میں مولانا فضل الرحمن بھی اپنا مارچ لے کر دھرنے کی صورت میں اسلام آباد میں تھے۔ مجموعی طور پر ہمارے سیاست دانوں میں برداشت کا مادہ ختم ہوچکا ہے۔

ہر حکومت یہ چاہتی ہے کہ وہ عوامی مسائل حل کیے بغیر سکون سے مزے کی حکومت کرے، وہ اور ان کے وزرا مراعات کے ساتھ پرسکون زندگی گزاریں ، مگر اب وہ زمانہ گزر گیا ہے۔

قوم پریشان ہے ، گیس کی شکایت ہے، بجلی کی لوڈشیڈنگ کی شکایت ہے، یہ کام اسمبلی میں جانے والے حضرات کا ہے کہ وہ حلقوں کے بنیادی مسائل حل کریں اگر وہ ایسا نہ کرسکیں تو پھر اگلا الیکشن بہت مشکل مرحلہ ہوگا۔ سوشل میڈیا اور یوٹیوب نے سب عیاں کردیا ہے مگر ہمارے ذمے دار اس بات کو سمجھ نہیں رہے۔

اب پی ٹی آئی بھی بڑی طاقت بن کر ابھری ہے اور اب مقابلے کی دوڑ ہے۔ سیاستدان ان کے مسائل حل کریں تبھی اونٹ کسی کروٹ بیٹھے گا۔ نہیں تو اب آنے والے الیکشن میں اونٹ کو بٹھانا بہت مشکل ہوگا۔ حلقوں میں انسانی زندگی گزارنے کے لیے کچھ نہیں ہے، اب نام نہیں بکیں گے، کارکردگی اونچے داموں فروخت ہوگی۔

سیاستدان ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے ہیں، اس روایت کو ختم کرنا ہوگا۔ اب بھی وقت ہے کہ سیاستدان اصلاح کا قدم اٹھائیں اور اپنے حلقوں کا دورہ کریں۔ آنے والے الیکشن میں پی ڈی ایم ایک پلیٹ فارم سے الیکشن لڑے۔ سندھ کی سیاست ایک طرف ہے پنجاب کی سیاست الگ ہے۔

خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی سیاست بھی الگ ہے اور کراچی سے لے کر خیبر تک پی ٹی آئی کا اپنا ایک ووٹ بینک ہے ان باتوں پر سیاسی حضرات توجہ دیں، ورنہ آنے والا الیکشن بہت سخت ہوگا اور پی ڈی ایم ایک پلیٹ سے الیکشن لڑے (جو ناممکن ہے) تو بھی مقابلے کی دوڑ بہت سخت ہوگی۔ اب زمانہ بدل گیا ہے، سوشل میڈیا نے لوگوں کو وینٹی لیٹر سے نکال دیا ہے۔ کیا خوب شاعر ظفر اقبال کہتے ہیں اور خوب کہتے ہیں کہ:

گہرا بادل چھٹ گیا

کافی پردہ ہٹ گیا

مہنگائی کے حوالے سے ماضی میں اپوزیشن نے کیا کچھ نہیں کیا ؟ اب یہ لوگ برسر اقتدار ہیں، مگر مہنگائی پر کوئی توجہ نہیں دی گئی، سڑکیں حالیہ بارش میں تباہ حالی کا شکار ہیں، لاقانونیت کی گواہی تو اخبارات دے رہے ہیں، آخر ان پر کب توجہ دی جائے گی؟ اگر یہ معاملہ اسی طرح چلتا رہا تو آپ قوم کو آنے والے الیکشن میں کس طرح مطمئن کرسکیں گے؟

پورے پاکستان میں صرف دو ادارے ایسے ہیں جو نیک نیتی سے خوبصورت فیصلے کرتے ہیں ہماری عدالتیں اور فوج۔ اس کے علاوہ کسی ادارے میں آپ کو کوئی کام ڈھنگ کا نہیں ملے گا۔

یہ سلسلہ آخر کب تک چلے گا؟ ٹریفک کا نظام تباہی کی طرف ، مہنگائی عروج پر، لاقانونیت اپنی جگہ اس کا سدباب کون کرے گا؟ اس پر توجہ دیں۔ کراچی سے لے کر خیبر تک ڈاکوؤں کی اجارہ داری ہے۔

ہم کس مقام پر کھڑے ہیں، سیاستدان جب اپنی بات منوانے کی بات کرتے ہیں تو جرمنی، اٹلی، کینیڈا کی مثالیں دیتے ہیں کیا انھوں نے کبھی قانون کے حوالے سے اس کی مثال دی ہے؟ ڈاکوؤں کے حوالے سے روز اخبارات اموات کا تذکرہ کرتے ہیں، خدارا! اس نظام کو بدلیں۔

لہٰذا مہنگائی لاقانونیت کا سدباب کیجیے۔ مہذب ملکوں کی مثالیں نہ دیا کریں۔ مہذب ملکوں میں جو قانون ہے آپ آئین کے تحت اس پر عمل کیجیے کہ قوم مایوسی کی دلدل میں اتر چکی ہے۔ سیاسی الزام تراشیوں کا سدباب کریں ، ہمارے سیاستدانوں کو احساس نہیں ہے کہ قوم کتنی مایوس ہوتی جا رہی ہے۔

کسی چیزکا چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔ شاہ رخ خان اور سلمان خان کی مثالیں دی جاتی ہیں، دنیا کے بڑے آرٹسٹ دلیپ کمار (یوسف خان) تھے۔

آپ دلیپ کمار ہی بن جائیں تاکہ کوئی نام تو ہو جس کی مثال دی جاسکے۔ شاہ رخ خان اور سلمان خان تو اداکاری میں طفل مکتب ہیں دلیپ کمار کے سامنے۔ آپ حضرات قومی مسائل کے حل کے لیے دلیپ کمار بننے کی کوشش کریں۔ ہم اپنی مثالیں تو کیا دیں کہ مثالیں دینے کے لیے کچھ ہے ہی نہیں۔ ہم تو بے مثال قوم ہیں۔

امریکا کے صدر جارج بش (سینئر) ، جارج بش جونیئر، بل کلنٹن اور بارک اوباما ان حضرات نے دو ، دو ٹرم امریکا کی صدارت کی اور یہ امریکا کے طاقتور صدور تھے۔

یہ آج کل کیا کر رہے ہیں اور کس حال میں ہیں انھوں نے کتنا پیسہ کمایا اور کتنی جائیدادیں ہیں؟ جارج بش (سینئر) کا 2018 میں انتقال ہوا، ذرائع آمدنی پنشن تھی، جارج بش جونیئر ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں آج کل بطور کنسلٹنٹ کے کام کر رہے ہیں۔

2016 کی عام سی گاڑی میں سفر کر رہے ہیں، لورا بش اس کمپنی میں جاب کرتی ہیں، بل کلنٹن آج کل بڑی فرموں اور کالجز میں لیکچر دیتے ہیں اور ان کی بیوی امریکی کانگریس میں سینیٹر ہیں۔ بارک اوباما آج کل لیکچرار ہیں ان کی بیوی مشعل اوباما ایک کمپنی میں جاب کرتی ہیں اور لوکل ٹرین سے آتی جاتی ہیں اور کرائے کے فلیٹ میں رہتی ہیں۔

یہ کیسے لوگ ہیں جو اتنی طاقتور پوزیشن میں رہنے کے بعد بھی اپنے بچوں کے لیے کچھ نہ بنا سکے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تعلیم اور تربیت اگر فطرت اور اخلاقیات تبدیل نہیں کر رہے تو معاشرہ ابھی تک جنگل میں رہتا ہے جہاں کوئی قانون اور معاشرتی اقدار لاگو نہیں ہوتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔