نا امیدی سے خود بخود ملاقات ہوجاتی ہے

آفتاب احمد خانزادہ  جمعـء 11 نومبر 2022
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

10اگست 1976 کو شمالی آئرلینڈ کے شہر بلفاسٹ کی گلیوں میں ایک عجیب واقعہ رونما ہوا تھا۔ ایک آدمی فرار کی کوشش میں پیچھا کرنے والوں کو دھوکہ دینے کی کوشش میں اپنی گاڑی لے کر ایک گلی میں پہنچ گیا تھا۔ اچانک گولی چلنے کی آواز آتی ہے۔

زخمی ڈرائیور گاڑی کے اسٹیئرنگ پر گر جاتا ہے گاڑی چکرا کر ایک باڑ سے ٹکرا جاتی ہے اور ایک ماں اور تین بچوں پر چڑھ جاتی ہے ماں اگرچہ شدید زخمی ہوئی مگر بچ گئی جب کہ اس کے تینوں بچے موقع پر ہی ہلاک ہوگئے تھے ، یقینا یہ واقعہ اتنا عجیب نہیں تھا جس زمین پر بھی جنگ اپنے پنجے گاڑتی ہے خوف اور تشدد پھوٹ پڑتے ہیں۔

بچوں کی ہلاکت کسی طرح بھی قابل ذکر نہیں ہوتی، مگر 1976 کے اگست میں بلفاسٹ کے اس واقعے نے بالکل ہی مختلف نتیجہ پیش کیا اس علاقے میں جہاں تین بچے ہلاک ہوئے تھے ایک گھریلو خاتون رہتی تھی اس نے کار کے باڑ سے ٹکرانے کی آواز سنی اور جوں ہی وہ موقع کی طرف دوڑ کر پہنچی اس کی آنکھوں میں خوف کا پورا منظر سما گیا۔

اس منظر نے اس کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ مزید یہ ہوا کہ اس پر تشدد اور دہشت انگیز واقعے کے خلاف کچھ کر گذرنے کی پرجوش خواہش پر اس پر طاری ہوگئی۔

’’اوہ خدا ! اب ہمیں کچھ کرنا ہی پڑے گا ‘‘ مشورے کرنے کے یا منصوبے بنانے کے لیے وقت نہیں تھا۔ اس نے اس انداز میں سوچا ہی نہیں بس وجدانی کیفیت میں وہ ہی کچھ کیا، جو اس کے دل نے کہا وہ اس سڑک پر واقع ہر مکان پر گئی جہاں یہ حادثہ ہوا تھا خوف کا لبریز پیالہ الٹ چکا تھا، وقت آگیا تھا کہ ہر عام مرد اور عورت کو ایسے بے رحم تشدد پر احتجاج کے لیے اٹھ کھڑے ہونا چاہیے۔

اب یہ سیاسی رویوں یا مذہبی عقائد کا معاملہ نہیں رہ گیا تھا بس اس کا ایک ہی علاج تھا عوام خود اس کے خلاف آواز اٹھائیں ریڈیو اور ٹیلی ویژن نے ایک گھریلو عورت کی مہم میں کچھ دلچسپی دکھائی اور اسے دہشت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے آئرش عوام کے نام ایک اپیل نشر کرنے کا موقع فراہم کیا۔

اس کی اپیل کا فوراً جواب ملا زیادہ سے زیادہ لوگوں نے ان کی پکار پر لبیک کہا سب سے پہلے تینوں بچوں کی خالہ آگے بڑھی اور ان دو عورتوں نے مل کر جنگ زدہ علاقے کی طرف اپنے صلح کے سادہ مگر دل کو چھو لینے والے پیغام کے ساتھ دلیری سے قدم بڑھائے ، اس مختصر سی ابتداء سے آج ساری دنیا میں وہ کچھ ہوا جس کو شمالی آئرلینڈ کی امن تحریک کے نام سے جانا جاتا ہے۔

1976 کا نوبیل انعام گھریلو خاتون بیٹی ولیمز اور تینوں بچوں کی خالہ مریڈ کو ریگن کو دیا گیا۔ یہ عورتیں اپنی مہم میں کیوں کامیاب ہوئیں اس کی وجہ یہ ہے کہ محاذ جنگ کے دونوں جانب اس کی آرزو نے جڑیں پکڑ لیں تھیں ان دونوں عورتوں نے جو کچھ کہا وہ ہزاروں دلوں کے خیالات کی گونج تھیں۔

اس لیے وہ عام ذہانت کی ترجمان بن گئیں انہوں نے غلط سمت سے شروعات کی اوپر سے نہیں چالاک ذہنوں کے درمیان سے نہیں جو سیاسی بصیرت کے حامل تھے نہیں ، انہوں نے عام آدمی سے رابطہ کیا۔

ایک کھرے اور سادہ پیغام کے ساتھ ۔ انہوں نے کبھی اپنے کام کی مشکلات کی پرواہ نہیں کی بس وہ اپنے کام میں جتی رہیں اس لیے کہ انہوں نے پورا یقین تھا کہ یہ کچھ ہے جس کی اشد ضرورت ہے ایک با ہمت ، بے غرض ، عمل جو ہزاروں کے لیے روحانی فیضان ثابت ہوا جس نے ظلمت میں ایک شمع روشن کی جس نے ان لوگوں کو نئی امید دلائی جو سمجھتے تھے کہ ساری امیدیں ختم ہوچکی ہیں۔

آج اگر ہم پاکستان میں امید کو ڈھونڈنے نکلیں تو ہر جگہ ہمارا استقبال مایوسی پہلے سے کر رہی ہوگی۔ ہم امید کو ملک میں کہیں بھی تلاش نہیں کر پائیں گے۔ ہاں نا امیدی ، مایوسی اور بے بسی سے ہماری ملاقات نہ چاہتے ہوئے بھی بار بار خود بخود ہوتی چلی جائے گی۔

آج پاکستان میں سب بے بس ہیں ، سب خوفزدہ ہیں بے بسی اور خوف کا آپس میں کیا تعلق ہے۔ آئیں ! اس نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس سے بھی پہلے بے بسی کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

جب آپ کسی ایسی صورتحال سے دو چار ہوجاتے ہیں جس سے باہر نکلنے کی کوئی راہ آپ کو دکھائی اور سجھائی نہیں دے رہی ہو اور آپ کا دل اور ذہن شل ہوکر آپ کا ساتھ دینے سے صاف انکار کر دیں۔ جب آپ کے دل اور ذہن میں ہولوں کا غبار گردش کرنے لگے جب آپ کے اعصاب ، حوصلہ ، جذبہ ، ہمت آپ کے دشمن بن جائیں۔

تو آپ بے بس ہوجاتے ہیں اور جب آپ بے بس ہوجاتے ہیں تو پھر اسی لمحے آپ کی تاک میں بیٹھے خوف آپ کو دبوچ لیتے ہیں روزگار کا خوف ، بے عزتی کا خوف ، بے اختیاری کا خوف ، مہنگائی کا خوف ، پانی ، بجلی ، صحت کا خوف ، بیماریوں کے خو ف پھر آپ کے اندر ننگا ناچنا شروع کردیتے ہیں اور پھر آپ ناامیدی کی چادر اوڑھ لیتے ہیں ، آج ہم سب کو اپنی نا امیدی کے علاوہ اور کسی بات کا ہوش نہیں۔ آج ہم سب اپنی اپنی نظروں میں بے توقیر ہیں سب سے زیادہ وحشت ناک صورتحال یہ ہے کہ ہم سب اس کو اپنی آخری منزل سمجھے بیٹھے ہیں۔

یہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں کہ نا امیدی کبھی آخری منزل نہیں ہوتی جب امید مرتی ہے تو نا امیدی پیدا ہوتی ہے ، جب نا امیدی مرتی ہے تو ایک بار پھر امید پیدا ہوتی ہے ، اگر یہ بات غلط ہوتی تو بیٹی ولیمز اور مریڈکو ریگن کبھی بھی اس وحشت ، دہشت اور نا امیدی کے حالات میں اپنے گھروں سے نہیں نکلتیں اورکبھی بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوتیں۔

کیا ہم ان دونوں گھریلو خواتین سے بھی گئے گذرے ہوگئے ہیں ، جو نا امیدی ، مایوسی کے خلاف اور اپنی بے بسی کے خلاف اپنے گھروں سے نکلنے کے لیے تیار نہیں ہیں ان کے خلاف بولنے، اٹھنے اور دوسروں کو آواز دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

یاد رکھیں یہ زندگی آپ کو صرف ایک بار جینے کے لیے ملی ہے اگر آپ ان ہی حالات میں زندہ رہنے پر راضی ہیں تو پھر الگ بات ہے اگر نہیں تو پھر شمالی آئرلینڈ کی ان دونوں گھریلو خواتین کی طرح بس آپ کو عام لوگوں کو آواز دینے کی ضرورت ہے پھر آپ دیکھیں گے کہ کس طرح عام لوگ آپ کا ساتھ رہنے کے لیے تیار ہوتے ہیں کیونکہ ناامیدی کبھی آخری منزل نہیں ہوتی۔ یاد رکھیں عام لوگ آپ کی آواز کے منتظر ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔