ولادیمیر پوٹن کی نظریاتی جنگ

سید عاصم محمود  اتوار 13 نومبر 2022
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

’’آنے والے مستقبل کا سوچ کر کسی کو آرام سے نہیں بیٹھنا چاہیے۔‘‘

یہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی تقریر کا اقتباس ہے جو 26 اکتوبر22 ء کو انھوں نے روس کے ایک مشہور تھنک ٹینک، ولدائی ڈسکشن کلب (Valdai Discussion Club)میں کی۔

اس تقریر کو عام مت سمجھیے، یہ تقریباً ساڑھے تین گھنٹے جاری رہی۔اس کے ذریعے روسی صدر نے دنیا کے مستقبل کے سلسلے میں اپنا ویژن پیش کیا جو عیاں کرتا ہے کہ وہ مغرب(West) سے طویل نظریاتی و عسکری جنگ لڑنے کو تیار ہیں جس کے سرخیل امریکا وبرطانیہ سمجھے جاتے ہیں۔اور عین ممکن ہے کہ اس جنگ کی وسعت و مدت بڑھنے سے وہ تیسری جنگ عظیم میں تبدیل ہو جائے۔تب بنی نوع انسان کو نہایت خوفناک حالات سے گذرنا پڑے گا۔

یہ حقیقت ہے کہ ستر سالہ روسی صدر پوٹن انسانی تاریخ میں ایک اہم رہنما کی صورت اپنا نام لکھوا چکے۔وجہ یہی کہ انھوں نے تقریباً تنہا عسکری ومعاشی طور پہ طاقتور مغرب سے ٹکر لے لی جو پچھلے تین چار سو برس سے دنیا پہ حکمرانی کررہا ہے۔وہ اب چین اور دیگر ہمنوا ممالک کی مدد سے یہ یک قطبی(Unipolar) عالمی نظام ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ دنیا میں کثیر قطبی(Multipolar) ’’ورلڈ آرڈر‘‘رائج ہو سکے۔پوٹن کی تقریر کے بنیادی نکات درج ذیل ہیں۔

(1)مغرب اپنی حاکمیت برقرار رکھنے کی خاطر جنگیں تخلیق کرتا ہے

دنیا پہ اپنی حکمرانی برقرار رکھنے کے لیے مغرب نے عالمی قانون کی جگہ اپنے بنائے قوانین کا حکم نامہ انسانیت پر تھوپ دیا ہے۔ان قوانین کے ذریعے مغرب ہر قانون سے بالاتر ہو کر جینا چاہتا ہے۔مگر اس کا وضع کردہ یہ کھیل بڑا خطرناک، خونی اور گھناؤنا ہے۔اس کھیل میں معاصر ممالک کی خودمختاری اور سلامتی مدنظر نہیں رکھی جاتی۔اقوام عالم کو بے عزتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ان کی تہذیب وثقافت اور مقامی شناخت کی تضحیک کی جاتی ہے۔مغرب کو معاصر ملکوں کے مفادات کی کوئی پروا نہیں۔

مغرب کا دعوی ہے کہ اس کا ورلڈ آرڈر اصول وقوانین پہ استوار ہے۔مگر وہی یہ تمام قوانین بناتا ہے…دیگر ممالک مجبور ہیں کہ ان پہ عمل کرتے رہیں۔

اب مغرب کسی قسم کے تعمیری و مثبت نظریات سامنے نہیں لا رہا کیونکہ وہ سر تا پا مادہ پرستی میں لت پت ہو چکا۔اسی لیے وہ بنی نوع انسان کی بھلائی کے کوئی کام نہیں کر رہا۔اس کی سار ی توجہ اس امر پہ مرکوز ہے کہ ہر ممکن طریقے سے دنیا پہ حکمرانی برقرار رہے۔

اسی خواہش کے تحت مغرب نے یوکرین کا مسئلہ کھڑا کیا۔وہ تائیوان کے معاملے میں بھی چنگاریوں کو ہوا دے رہا ہے کہ بھڑک کر جنگ کے شعلے بن جائیں۔مغرب کی جنگی پالیسی کی وجہ سے دنیا میں ایندھن وخوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور مہنگائی نے لوگوں کو جکڑ لیا۔امریکا اور اس کے حواری دنیا بھر میں تنازعات اور اختلافات کھڑے کرتے ہیں تاکہ اپنے مفادات پو رے کر سکیں۔

روس دنیا بھر کو قدرتی وسائل فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔مغرب نے اپنے مفاد کی خاطر اس پہ ناروا پابندیاں لگا کر دنیا میں مہنگائی کی لہر دوڑا دی۔

(2)اصول و قانون تمھارے لیے، ہمارے لیے نہیں

مغرب کی سعی ہے کہ سبھی ممالک اس کی تہذیب وثقافت اور روایات کو من وعن قبول کر لیں۔گو مغرب کھلے عام نہیں کہتا مگر توقع رکھتا ہے کہ دنیا کے بارے میں اس کے نقطہ نظر سبھی بے چوں چرا تسلیم کر لیں ے۔

لیکن جب مغرب کے بنائے اصول وقوانین سے دیگر ممالک خصوصاً چین فوائد حاصل کرنے لگا تو مغرب نے فوراً انھیں تبدیل کر دیا…حالانکہ مغرب کا دعوی تھا کہ یہ اصول وقوانین تو پتھر پہ لکھے اور مقدس ہیں۔مغرب نے معاصر ملکوں کو معاشی وعسکری طور پہ طاقتور بنتے دیکھا تو آزاد تجارت ، معاشی آزادی، انصاف پہ مبنی مسابقت حتی کہ پراپرٹی حقوق(Property Rights)تک بُھلا بیٹھا۔

مغرب کے طرزعمل سے عیاں ہے کہ اس کے کھیل میں جب کوئی دوسرا فائدے پانے لگے تو وہ فوراً قوانین بدل دیتا ہے۔مگر کھیل میں اسے فائدہ ہوتا رہے تو ہرغیر منصفانہ قانون بھی برقرار رہتا ہے۔

(3)’’کینسل کلچر‘‘کا فروغ

مغرب سمجھتا ہے کہ وہ پاک ومنزہ ہے، کوئی غلطی نہیں کر سکتا۔مغربی حکمرانوں کو جو چیز پسندنہ آئے، وہ اسے تباہ کر دیتے ہیں۔میں اس روش کو ’’کینسل کلچر‘‘(Cancel culture)کہتا ہوں جسے مغربی حکمرانوں نے پروان چڑھایا۔

نازی (جرمن)تو کتابیں جلا دیتے تھے، مغرب ان تمام ادیبوں اور دانشوروں پہ پابندیاں لگا دیتا ہے جو کوئی نیا نظریہ سامنے لائیں۔جو آزادانہ سوچ رکھتے ہوں۔وہ تخلیقیت کو پسند نہیں کرتے اور انسانی ذہن پر پہرے بٹھا دیتے ہیں۔

مغرب نے لبرل جمہوریت کا حلیہ اتنا بگاڑ دیا ہے کہ اب وہ پہچانی نہیں جاتی۔یہی وجہ ہے، اب دنیا میں کوئی مختلف نظریہ سامنے لائے ، اختلاف کرے تو اسے پروپیگنڈا اور غداری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔دراصل امریکی حکمران امریکا کا مخالف کوئی نظریہ پنپنے نہیں دیتے۔

مغرب کو مگر سمجھنا چاہیے کہ تاریخ ہر چیز کو اس کے درست مقام پر رکھ دیتی ہے۔ وقت آ چکا کہ مغربی حکمرانوں کی دھوکے بازی اور آمریت افشا کی جائے۔اگلے چند برس میں کوئی ان کے نام تک یاد نہیں رکھے گا۔جبکہ (روسی ادبا)دوستوفسکی، پشکن اور گورکی کی تخلیقات ہر جگہ پڑھی جائیں گی۔

(4)روس دنیا پہ حکمرانی نہیں کرنا چاہتا

روس ایک آزاد وحقیقی تہذیب وتمدن رکھتا ہے اور اس نے کبھی مغرب کو اپنا دشمن نہیں سمجھا۔زمانہ قدیم سے روس مغرب کی عیسائیت اور اسلامی تہذیب سے قریبی روابط رکھتا ہے۔وہ آزادی، وحب الوطنی کا نام لیوا اور زرخیز کلچر کا مالک ہے۔مگر مغرب دو حصوں میں تقسیم ہو چکا۔

ایک تو ’’عوام کا مغرب‘‘ہے جس نے اپنی بیشتر اقدار و روایات برقرار رکھی ہیں۔دوسرا ’’حکمرانوں کا مغرب‘‘ہے۔یہ مغرب جارحانہ، استعماری، استبدادی اور کاسموپولٹین بن چکا ۔روس اس مغرب کے احکام کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔

روس نے مگر ’’حکمرانوں کے مغرب‘‘کے خلاف اعلان جنگ نہیں کیا اور نہ ہی وہ اسے اپنا دشمن سمجھتا ہے۔روس محض اپنا دفاع کر رہا ہے تاکہ زندہ رہنے اور ترقی کرنے کا حق پا سکے۔ساتھ ساتھ ہماری کوشش ہے کہ ہم قطعاً دنیا کے نئے حاکم اور اجارہ دار نہ بننے پائیں۔

عالمی حالات بدل جانے سے اب بین الاقوامی معاملات بھی تبدیل ہونے جا رہے ہیں۔یہ مغرب کے لیے سود مند ہے کہ وہ جلد از جلد برابری کی بنیاد پر دنیا کے سبھی طاقتور ملکوں نے مذاکرات کرے تاکہ ایک نیا ورلڈ آرڈر تشکیل پاسکے۔ہم سبھی کے ساتھ دوستی کی بنیاد پہ تعلقات چاہتے ہیں۔

(5)مغرب کا تسلط ختم ہو رہا ہے

آج بنی نوع انسان بڑے تاریخی اور نازک مقام پہ کھڑا ہے۔آنے والے دس برس دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے زیادہ خطرناک اور ناقابل پیشن گوئی ہوں گے۔مگر میں اسے اہم ترین عشرہ بھی کہوں گا۔آج مغرب تنہا انسانیت کو درپیش مسائل حل نہیں کر سکتا۔پھر بھی وہ پوری سعی کر رہا ہے کہ جائز وناجائز طریقے استعمال کر کے دنیا کا تاجدار بنا رہے ۔اب دنیا کے بیشتر ممالک مغرب کی قیادت وسیادت تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔

مغرب اور معاصر ممالک کے مابین کھینچا تانی اور مقابلے سے پوری انسانیت کی بقا کو سنگین خطرات لاحق ہو چکے۔بنی نوع انسان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہی درپیش ہے کہ اس مسئلے کو مثبت وتعمیری انداز میں حل کرلیا جائے۔

آج ایک عام انسان کو بھی آنے والے مستقبل کی خوفناکی اور سنگینی کا احساس ہو جائے تو وہ آرام وسکون سے نہیں بیٹھ سکتا۔اب انسانیت کو دو باتوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے:

اول یہ کہ وہ مسائل کی دلدل میں اترتی چلا جائے۔نتیجے میں کرہ ارض سے انسانی نسل مٹ جائے گی۔دوم یہ کہ وہ حل تلاش کرنے کی کوشش کرے۔بے شک حل خام ہومگر اسے قابل عمل ہونا چاہیے تاکہ ہماری دنیا محفوط، مستحکم اور رہنے کے لائق ہو سکے۔

(6)کثیر قطبی دنیا کیسی ہو؟

حقیقی اور جمہوری کثیر قطبی دنیا ایسی ہو کہ اس میں ہر معاشرے، کلچر اور تہذیب کو یہ حق ملے کہ وہ اپنی پسند کا راستہ اختیار کرے اور من پسند معاشرتی، معاشی و سیاسی ڈھانچے کو چن لے۔اگر مغرب اور امریکا ان کا انتخاب کر سکتے ہیںتو ہر کسی کو بھی انھیں کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔روس بھی یہی حق رکھتا ہے۔لہذا کوئی ہمیں یہ حکم نہیں دے سکتا کہ فلاں قسم کا معاشرہ تشکیل دو اور فلاں نظام اپنا لو۔ہم اپنی روایات واقدار کے مطابق اپنا معاشرہ تخلیق کر لیں گے۔

مغرب نے جو نظریاتی، معاشی، سیاسی اور معاشرتی ماڈل(نمونہ )تخلیق کیا ،وہ اسے دنیا والوں پہ زبردستی تھوپنا چاہتا ہے۔اور اس ماڈل کو سب سے بڑا خطرہ ان ماڈلوں سے ہے جو زیادہ موثر اور پُرکشش ہیں۔

روس مغرب کے ماڈل کو من وعن تسلیم نہیں کرتا۔ہمارا مطالبہ ہے کہ ایک نیا ورلڈ آرڈر بنایا جائے جو قانون وانصاف پہ مبنی ہو، آزاد، مستند اور منصفانہ ہو۔

آج روس اسی قسم کا ورلڈ آرڈر دنیا میں لانے کی جدوجہد کر رہا ہے۔بنی نوع انسان کے سامنے نئی تاریخ لکھی جا رہی ہے۔ہم ایک ایسا معاشی وسیاسی عالمی نظام چاہتے ہیں جس میں ہر ایک کا نقطہ نظر سنا جائے، ہر قوم، معاشرے، کلچر، نظام، نظریے اور مذہب کو اہمیت دی جائے۔کسی پر واحد سچ کے نام پر کوئی بات نہ تھوپی جائے۔صرف انہی خطوط پر عمل کرتے ہوئے بنی نوع انسان اور کرہ ارض کی بقا ممکن ہے۔

بنیادی طور پہ معاشی نوعیت

روسی صدر کے نظریات و خیالات سے عیاں ہے کہ فی الوقت دنیا میں جو معاشی وسیاسی نظام کارفرما ہے، وہ اس کا خاتمہ تو نہیں البتہ بنیادی تبدیلیاں کرنا چاہتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ امریکا کی زیرقیادت مغربی ممالک ہی مروجہ عالمی معاشی نظام کے مالک ہیں اور چند غیر مغربی ملکوں(چین ، جاپان، جنوبی کوریا ،بھارت )کو چھوڑ کر وہی فوائد بھی زیادہ پاتے ہیں۔ صدر پوٹن کا کہنا ہے کہ روس قدرتی وسائل رکھنے والا دنیاکا سب سے بڑا ملک ہے۔لہذا فوائد بھی اسے ہی زیادہ ملنے چاہیں۔گویا بیشتر جنگوں کی طرح روس اور مغرب کی تازہ جنگ بھی بنیادی طور پہ معاشی نوعیت رکھتی ہے۔دنیا سے امریکی ڈالر کی حکمرانی ختم کرنا بھی اس کا اہم ہدف ہے۔

یہ درست ہے کہ مغرب کے تخلیق کردہ عالمی معاشی وسیاسی نظام سے پاکستان جیسے سیکڑوں چھوٹے ایشیائی و افریقی و جنوبی امریکن ملک زیادہ مستفید نہیں ہوسکے۔آج بھی وہاں عوام غربت، جہالت، بیماری اور دیگر مسائل کا شکار ہیں۔بھارت کا شمار اب دنیا کی چار بڑی معاشی وعسکری طاقتوں میں ہوتا ہے لیکن وہاں بھی کروڑوں انسان غربت کا نشانہ بنے تکلیف دہ زندگیاں گذار رہے ہیں۔لیکن اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ روس کا وضع کردہ معاشی وسیاسی نظام عدل وانصاف پہ مبنی ہو گا؟

روس بھی استعماری قوت

ماضی میں آخر روس بھی مغربی قوتوں کی طرح استعماری قوت رہا ہے۔اس نے وسط ایشیائی ممالک اور یوکرین پہ بزور قبضہ کیا۔لاکھوں مسلمان روسی فوجیوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔اسی طرح یوکرینی قوم کو بھی روسی حکمرانوں نے مختلف طریقوں سے ظلم وستم کا نشانہ بنایا۔پھر صدر پوٹن بھی دودھ کے دھلے نہیں۔انھوں نے حکمران بنتے ہی چیچنیا پر دھاوا بول دیا جہاں مسلمانوں نے تحریک آزادی چلا رکھی تھی۔

پوٹن نے جدید اسلحے اور عددی برتری کی مدد سے نہایت بے رحمی سے اس تحریک کو کچل ڈالا۔حالانکہ پوٹن کے درج بالا نظریات کی رو سے انصاف یہ تھا کہ روس کے جن علاقوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں، جیسے چیچنیا، داغستان اور انگشتیا میں، انھیں آزاد کردیا جاتا۔اسی طرح بوسنیا اور کوسووہ کے معاملے میں پوٹن نے ظالم سربیا کی حمایت کی۔بھارت مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پہ خوفناک مظالم ڈھا رہا ہے مگر پوٹن نے آج تک بھارتی حکمران طبقے کی مذمت نہیں کی۔غرض پوٹن بھی مفادات کا غلام حکمران ہے۔

مغرب کی باج گذار

یہ بہرحال درست بات ہے کہ روس اور مغرب کی موجودہ جنگ کا آغاز امریکا و برطانیہ نے کیا ۔ان کی مسلسل کوشش ہے کہ اپنے عسکری اتحاد، نیٹو کو روس کے در تک پہنچا دیں۔روسی صدر کا دعوی ہے کہ مغرب روس کے پناہ قدرتی وسائل پر قابض ہونا چاہتا ہے۔یہ خدشہ بے جا نہیں کیونکہ مغربی ممالک اپنی نوآبادیوں کے وسائل لوٹ کر ہی ترقی یافتہ و خوشحال بنے ہیں۔ لہذا روسی حکمران طبقہ سمجھتا ہے کہ مغرب اب روس کو اپنی نوآبادی بنانے کے خواب دیکھ رہا ہے۔روسی اسٹیبلشمنٹ کو قطعاً یہ گوارا نہیں کہ مغرب کی باج گذار بن جائے جس سے وہ مذہبی، تہذیبی، سیاسی و معاشی اختلافات رکھتی ہے۔

مغربی حکمرانوں نے روسی حکومت کو یقین دلایا تھا کہ سویت یونین کے حلقہ اثر میں شامل ملک نیٹو میں شامل نہیں ہوں گے۔مگر مغرب نے اپنا وعدہ توڑ ڈالا۔یہی نہیں، 2012ء میں امریکا نے روسی میزائیل روکنے کی خاطر رومانیہ میں میزائیل ڈیفنس سسٹم نصب کر دیا۔اور عندیہ دیا کہ پولینڈ میں بھی ایسا نظام لگایا جائے گا۔(2019ء میں پولینڈ میں بھی میزائیل ڈیفنس سسٹم لگ گیا)

ٹام ہاک امریکی کروز میزائیل

روس کے قریب امریکی میزائیل پہنچنے کی خبروں نے روسی حکومت میں کھلبلی مچا دی۔وجہ یہ کہ روسی سمجھتے ہیں، امریکی میزائیل ڈیفنس سسٹم میں تھوڑی سی تبدیلی کر کے اس سے ٹام ہاک امریکی کروز میزائیل چھوڑے جا سکتے ہیں۔یہ میزائیل پولینڈ یا رومانیہ سے باآسانی ماسکو کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔اس صورت حال میں 2014ء سے یوکرین بھی نیٹو اور یورپی یونین میں شامل ہونے کی کوشش کرنے لگا۔روسیوں نے ہر ممکن طریقے سے یوکرین کو اپنے ساتھ رکھنے کی کوششیں کیں۔ان کو سستی گیس فراہم کر دی۔قیمتی معدنیات بھی سستے داموں دی مگر روسی قوم سے نفرت کرنے والے یوکرینی یورپی یونین میں شامل ہونا چاہتے تھے۔

روسی حکمران طبقے کو یقین تھا کہ اگر یوکرین نیٹو میں شامل ہوا تو ریاستی حکومت یورپی عسکری اتحاد کو اپنی سرزمین پہ میزائیل نصب کرنے کی اجازت دے دی گی۔پھر یوکرین روس کے خلاف مغرب کی خفیہ سازشوں کا مرکز بھی بن سکتا تھا۔انہی خطرات کو محسوس کرتے ہوئے آخر روس نے 24 فروری 22ء کو یوکرین پہ حملہ کر دیا۔اصل مقصد یہ تھا کہ مغرب نواز حکومت ہٹا کر یوکرین میں روس کے حمایتیوں کو اقتدار سونپ دیا جائے۔یہ روسی پلان مگر کامیاب نہیں ہو سکا۔البتہ روس نے اپنی سرحد کے ساتھ لگنے والے بیشتر یوکرینی علاقوں پہ قبضہ کر لیا جہاں روسیوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔

ذرا سوچیے ،کوئی بیرونی طاقت امریکا کے قریبی ممالک مثلاً کینیڈا یا میکسیکو میں اپنے میزائیل نصب کر دے۔ امریکی حکمران طبقہ تو گھبرا جائے گا۔فوراً شور اٹھے گا کہ یہ میزائیل تباہ کر دئیے جائیں کیونکہ انھوں نے امریکا کی سلامتی خطرے میں ڈال دی ہے۔ امریکا کبھی برداشت نہیں کرے گا کہ اس کے قرب وجوار میں معاصر ملک میزائیل نصب کر دے۔ اسی طرح روس کے حکومتی ایوانوں میں بھی ہلچل مچ گئی جب واضح ہو ا کہ یوکرین نیٹو کا رکن بن سکتا ہے۔ امریکی حکمران یوکرین کو نیٹو رکن بنوانے کے لیے بے تاب تھے۔اس صورت حال میں روسی حکمران طبقے کا تشویش و پریشانی میں مبتلا ہونا بجا تھا۔

یہ یورپ کے خلاف جنگ؟

دلچسپ بات یہ کہ بعض دانشور دعوی کرتے ہیں، یہ یورپ کے خلاف امریکا و روس کی خفیہ جنگ ہے۔وجہ یہ کہ یورپی ممالک تیزی سے چین کے معاشی وتجارتی ساتھی بن رہے تھے۔اس دوستی کی وجہ سے امریکا وروس کے معاشی وسیاسی مفادات خطرے میں پڑ گئے۔چناں چہ انھوں نے یورپ کے قلب میں جنگ شروع کرا دی تاکہ چین اور یورپی ممالک کے مابین بڑھتے تعلقات کو بریک لگ جائے۔امریکا چین کی کمپنیوں پہ جو ٹکنالوجیکل پابندیاں لگا رہا ہے، وہ بھی اسی خفیہ جنگ کا حصہ ہیں۔اس قسم کے نظریے عام ہیں اور سچائی ان گنت سازشی نظریوں میں پوشیدہ ہو چکی۔بظاہر اس جنگ سے روس کو معاشی نقصان ہوا ہے کیونکہ وہ مغرب کے عالمی معاشی نظام سے نکالا جا چکا۔دوست ممالک مثلاً چین وبھارت سے تجارت ہی نے روس کو معاشی سنبھالا دیا۔

سپر پاور صرف تین

دور جدید میں ایک ملک معیشت ، عسکریات اور سائنس وٹکنالوجی کی بنیاد پہ کمزور یا طاقتور بنتا ہے۔اس لحاظ سے دنیا کے طاقتورترین ممالک صرف تین ہیں:امریکا ، چین اور روس۔گویا انھیں ہی سپر پاور کہا جا سکتا ہے۔اس کے بعد بھارت، جاپان، جرمنی ،برطانیہ اور فرانس کا نمبر آتا ہے۔مگر یہ پانچوں ممالک اپنی کوئی خامی کے سبب کسی نہ کسی سپر پاور کے طفیلی بننے پر مجبور ہیں۔مثلاً بھارت سائنس وٹکنالوجی کے میدان میں خاصا پیچھے ہے۔پھر کروڑوں غریب بھارتی بھی اس پہ بڑا بوجھ ہیں۔جاپان اور جرمنی کی افواج اتنی زیادہ نہیں کہ وہ عالمی جنگ چھیڑ سکیں۔برطانیہ اور فرانس کا دائرہ اثر بھی بنیادی طور پہ یورپ تک محدود ہو چکا۔

ابھی امریکا کی سرکردگی میں مغرب تین وجوہ کی بنا پہ سب سے بڑی سپرپاور ہے۔ اول امریکی کرنسی ڈالر!دنیا بھر میں بیشتر عالمی لین دین اسی کرنسی میں ہوتا ہے۔ دوم سائنس وٹکنالوجی میں آگے ہونا۔مصنوعی ذہانت، روبوٹ سازی، چپ، انٹرنیٹ آف تھنگس، سافٹ وئیر سازی مستقبل کی ٹکنالوجیاں ہیں اور ان میں امریکا و جاپان و جرمنی سب سے آگے ہیں۔ پھر چین وجنوبی کوریا کا نمبر آتا ہے۔

سوم امریکا اور اس کے اتحادی دنیا میں سب سے بڑی منڈیاں ہیں۔ دنیا کے پندرہ بڑے درآمد کنندگان (بالترتیب امریکا، چین، جرمنی، جاپان، برطانیہ، بھارت، ہالینڈ، ہانگ کانگ، فرانس، جنوبی کوریا، میکسیکو، اٹلی، کینیڈا، بیلجئم، سنگاپور) میں بارہ ممالک مغربی اتحاد کا حصہ ہیں۔ چین، بھارت اور ہانگ کانگ بھی اپنا کثیر مال مغربی ممالک کو بھجواتے ہیں۔

عسکری پہلو کو دھچکا

روس صرف قدرتی وسائل کی بے پناہ دولت رکھنے کے باعث عالمی سٹیج پر اہمیت رکھتا ہے۔اس کی عسکری طاقت بھی متاثر کن ہے مگر حالیہ یوکرین جنگ میں روسی افواج عمدہ کارکردگی نہیں دکھا پائیں۔اس بنا پہ روس کے عسکری پہلو کو کافی دھچکا پہنچا ہے۔

روسی افواج یوکرینی فوجوں کے جوابی حملے روکنے میں مشکلات کا شکار ہیں۔حتی کہ انھیں ایران اور چین سے ہتھیار وگولہ بارود لینا پڑا۔اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ یوکرینی افواج تنہا روس کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھیں۔جب امریکا، جرمنی اور دیگر نیٹو ممالک نے انھیں جدید ترین اسلحہ فراہم کیا، تبھی ہی وہ روسیوں سے دو دو ہاتھ کرنے کے قابل ہو سکیں۔

چین کی مدد

روسی صدر پوٹن یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ مغرب سے جنگ کرتے ہوئے چین ان کا ساتھ دے گا۔چینی صدر شی جن پنگ کا اقتدار طویل ہو نے سے پوٹن کو حوصلہ ملا ہے۔ مگر یہ ضروری نہیں کہ چین کھل کر مغرب سے جنگ شروع کر دے۔وجہ یہ کہ چین پچھلے بیالیس سال کے دوران پُرامن رہ کر اہل دنیا سے تجارت کرتے ہوئے عالمی معاشی طاقت بنا ہے۔

ورنہ پہلے تو چین میں غربت کا دور دورہ تھا۔لہذا چین کے حکمران طبقے نے اگر جارحیت اور جنگجوئی کو اپنا لیا تو اس تبدیلی سے سب سے پہلے مملکت کی عالمی تجارت متاثر ہو گی۔ امریکا اور اس کے حواریوں نے چین کی عالمی تجارت محدود کرنے کے لیے پہلے ہی تجارتی جنگ چھیڑ رکھی ہے۔اگر چین علی الاعلان روس کا ساتھی بن گیا تو اس کی عالمی تجارت مذید محدود ہو جائے گی۔اس تبدیلی سے چینی معیشت کو نقصان پہنچے گا جو کوویڈ وبا کے حملوں کی وجہ سے پہلے ہی دباؤ میں ہے۔

بھارت مخمصے میں

گویا صدر پوٹن نے مغرب کے خلاف جو محاذ بنایا ہے، عین ممکن ہے کہ معاشی وجوہ کی بنا پہ چین کھل کر اس میں روس کا ساتھی نہیں بن سکے۔ پوٹن کو یہ بھی امید ہے کہ بھارت بھی اس لڑائی میں ان کا ساتھ دے گا۔ بھارتی حکمران طبقہ بھی چینی اسٹیبلشمنٹ کی طرح اس معاملے میں شش وپنج، مخمصے اور کیا کرے اور کیا نہ کرے کی انوکھی کیفیت کا شکار ہے۔وجہ یہی کہ بھارت مغربی ممالک سے وسیع پیمانے پر تجارت کرتا ہے۔وہ اپنا پچاس فیصد سے زائد مال امریکا اور اس کے ساتھیوں کو بھجواتا ہے۔اگر وہ روس کا شراکت دار بنا تو مغربی ممالک کی منڈیوں اور حمایت سے محروم ہو جائے گا۔

پاکستان کی پوزیشن

وطن عزیز معاشی طور پہ کمزور مملکت ہے۔تاہم اس کی افواج کا شمار دنیا کی بہترین دس گیارہ افواج میں ہوتا ہے۔پھر پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے۔یہ دونوں عسکری خصوصیات ہی پاکستان کو عالمی سطح پہ اہم مقام عطا کرتی ہیں۔اسی لیے امریکا ومغرب اور چین وروس، دونوں دھڑوں کی سعی ہے کہ پاکستان ان کی چھتری تلے آ جائے۔فی الوقت پاکستان نے دونوں دھڑوں سے خوشگوار تعلقات قائم کر رکھے ہیںجو عمدہ حکمت عملی ہے۔اسے بھی اس معاملے میں چین اور بھارت کی راہ اختیار کرنا چاہیے۔ کسی دھڑے کی کھلم کھلا حمایت کر کے وہ سخت معاشی نقصان اٹھا سکتا ہے۔

سال رواں ماہ فروری میں سابق وزیراعظم، عمران خان نے روس کو دورہ کیا تھا۔ تب یہ بات سامنے آئی تھی کہ وہ پاکستان کو چین وروس کے قریب لے جانا چاہتے ہیں۔اس کے فورا بعد ان کی حکومت ختم کر دی گئی۔انھوں نے الزام لگایا کہ حکومت ختم کرنے کے پیچھے امریکا بھی ملوث ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتا، پاکستان خصوصاً روس کے قریب ہو جائے۔تاہم امریکا نے اس الزام کو بے بنیاد قرار دیا۔

اقوام عالم آگ وخون میں

حالات سے آشکارا ہے کہ صدر پوٹن کو فی الحال تن تنہا ہی مغرب کے خلاف اپنی معاشی وعسکری جنگ لڑنا پڑے گی۔ان کی فتح یا شکست میں چین کا کردار اہم ہو سکتا ہے۔ اگر امریکا چین کے خلاف چھیڑی تجارتی جنگ میں شدت لے آیا تو چینی حکمران مجبور ہو کر روس کے ساتھی بن سکتے ہیں۔تب بھی چین کی بنیادی طور پہ یہ سعی ہو گی کہ بطور عالمی تجارتی کرنسی امریکی ڈالر کا کردار محدود ہو جائے اور چینی کرنسی بھی لین دین میں آزادانہ استعمال ہونے لگے۔ چینی حکمران مغربی ممالک کے خلاف کُھلم کھلا جنگ چھیڑنے سے ہر ممکن طور پہ اجتناب ہی کریں گے۔

دنیا کے حالات سے واضح ہے کہ طاقتور حکمرانوں کا طبقہ اپنے مفادات کی تکمیل یا زر، زمین،اقتدار اور زن کی خاطر وقتاً فوقتاً جنگیں چھیڑ کر اقوام عالم کوآگ وخون میں دھکیل دیتا ہے۔ان کی خواہشیں پوری کرنے کے لیے لاکھوں فوجی اور شہری اپنی قیمتی جانیں قربان کر دیتے ہیں۔سیکڑوں چہل پہل والی بستیاں راکھ کا ڈھیر بن جاتی ہیں۔ ہزارہا ہنستے بستے خاندان اجڑ جاتے ہیں۔افسوس!بنی نوع انسان نے زمانہ قدیم سے چلی آ رہی تباہی وبربادی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔دور جدید کے حکمران طبقے بھی کسی نہ کسی لالچ میں گرفتار ہو کر آپس میں لڑ رہے ہیں۔ان کی لڑائی میں مگر عام آدمی ہی مارے جاتے ہیں۔اتفاقاً کوئی لیڈر مر جائے تو ہیرو یا شہید بن جاتا ہے۔

بنی نوع انسان کو مسلسل کشت وخون اور جنگوں سے محفوظ رکھنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ معیشت وسیاست کا اسلامی نظام اپنا لیا جائے جس میں حکمران طبقہ نہیں عوام مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔اور جس کی بنیاد عدل وانصاف اور عام آدمی کی فلاح وبہبود پر مبنی ہے۔یورپی ممالک اسلامی نظام کے کچھ حصے اپنا چکے مگر وہاں کی حکومتیں ترقی پذیر ملکوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتیں۔

مثال کے طور پہ امیر مغربی ومشرقی ممالک اور ان کے مالیاتی ادارے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں کو سود پر قرض دیتے ہیں۔ وہ غریب ممالک کے حکمران طبقے کو قرضوں پہ عیاشی کرنے کی راہ دکھاتے ہیں۔ لہذا قرضے اور سود ادا کرنے کے بعد حکومتوں کے پاس اتنی رقم نہیں بچتی کہ وہ عوام کی بھلائی کے منصوبے بنا سکیں۔نتیجتہً عوام کی اکثریت غربت، جہالت،بیماری ،بے روزگاری اور دیگر علتوں کا نشانہ بن کر تکلیف دہ زندگی گذارتی ہے ۔ان کی زندگی جانوروں کی گذر جاتی ہے اور وہ معاشرے کے لیے کوئی مفید کام نہیں کر پاتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔