دھرنا کلچر اور جڑواں شہروں کے باسیوں کی مشکلات

ضیا الرحمٰن ضیا  ہفتہ 12 نومبر 2022
دھرنا دینے والی سیاسی جماعتوں کے قائدین کو عوام کی تکالیف سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ (فوٹو: فائل)

دھرنا دینے والی سیاسی جماعتوں کے قائدین کو عوام کی تکالیف سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ (فوٹو: فائل)

’’آج آپ کے پاس بہت فروٹ پڑا ہے، کیا آپ دیر سے آئے ہیں جو ابھی تک فروخت نہیں ہوا؟‘‘ میں نے ایک پھل فروش سے پوچھا جو اسلام آباد ایکسپریس وے پر ایک پٹرول پمپ کے سامنے ریڑھی پر پھل فروخت کرتا ہے۔ میں اکثر گزرتے ہوئے اس سے ضرورت کے مطابق پھل خرید لیتا ہوں۔ اس کے پاس روزانہ شام تک تھوڑا بہت فروٹ رہ جاتا ہے لیکن اُس دن معمول سے زیادہ فروٹ ریڑھی پر دیکھ کر میں نے وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا۔

’’بھائی آج فیض آباد میں دھرنا ہے جس کی وجہ سے لوگ آ نہیں رہے ہیں اور جو آتے ہیں وہ اتنی جلدی میں ہوتے ہیں کہ یہاں رکتے ہی نہیں۔ ورنہ اس وقت تک میرے تمام پھل فروخت ہوچکے ہوتے ہیں۔ گزشتہ چند روز سے ایسا ہی چل رہا ہے، پھل پوری طرح فروخت نہیں ہوپاتے اور بہت سا پھل خراب ہو جاتا ہے۔‘‘

یہ ایک پھل فروش کے ساتھ میرا پچھلے دنوں کا مکالمہ ہے لیکن اسی کی طرح لاکھوں افراد اسلام آباد اور راولپنڈی میں ایسے ہیں جو دھرنوں کی وجہ سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ آئے روز سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے جڑواں شہروں کے رہائشی بہت تکلیف اور پریشانی کا سامنا کرتے ہیں، اہم شاہراہوں پر رکاوٹوں کی وجہ سے ان کےلیے شہر کے اندر سفر کرنا بھی محال ہوجاتا ہے۔ دھرنا کلچر تو بڑھتا ہی جارہا ہے اور آئے روز دھرنے شہر اقتدار کو سہنے پڑتے ہیں، اس لیے ہر دوسرے دن دفاتر بھی بند نہیں کیے جاسکتے۔ جب دفاتر بند نہیں ہوتے لیکن سڑکیں بند ہوتی ہیں تو عوام کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اہم شاہراہیں بند ہونے کی وجہ سے شہریوں کو چھوٹی گلیوں میں سے راستے تلاش کرکے جانا پڑتا ہے لیکن چھوٹی گلیوں میں بھی اتنی گنجائش نہیں ہوتی کہ بڑی شاہراہوں کی ٹریفک ان میں سما سکے لہٰذا وہاں بھی ٹریفک جام ہوجاتی ہے اور لوگ گھنٹوں ٹریفک میں پھنسے رہتے ہیں۔ ملازمت پیشہ افراد تو اگر چھٹی کر بھی لیں تو انہیں زیادہ فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ راستے بند ہونے کا عذر پیش کرکے چھوٹ سکتے ہیں لیکن کاروباری افراد تو کاروبار کھولیں گے تو کمائیں گے۔ اگر وہ دکانیں یا نجی دفاتر نہیں کھولیں گے تو انہیں نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جڑواں شہروں کے کاروباری افراد کےلیے دھرنا کلچر نہایت تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے۔

دھرنے زیادہ تر وہ سیاسی جماعتیں دیتی ہیں جن کے قائدین کو عوام کی تکالیف سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ وہ تو فقط اعلان کردیتے ہیں کہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے داخلی و خارجی راستے بند کردیے جائیں گے۔ ان کے کارکن راستے بند کردیتے ہیں، وہ لوگ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ اس سے فقط عوام کو تکلیف ہوگی۔ حکمرانوں کو تو اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ وہ تو اپنے اپنے محلوں میں آرام کررہے ہوتے ہیں، مشکلات کا سامنا تو عوام کو کرنا پڑتا ہے۔

دھرنے دینے والے لیڈروں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں فقط حکمران نہیں رہتے، یہاں عوام بھی رہتے ہیں جن میں امیر و غریب ہر طبقے کے لوگ شامل ہیں۔ یہاں بڑے بڑے کاروباری افراد بھی ہیں اور غریب ریڑھی بان بھی۔ یہاں ملازمت پیشہ افراد کی بھرمار ہے، کوئی سرکاری ملازم ہے تو کوئی پرائیویٹ اداروں میں ملازمت کررہا ہے۔ اسلام آباد کی آبادی بیس لاکھ سے زائد ہے، اسی طرح پچیس لاکھ کے لگ بھگ راولپنڈی کی آبادی ہے۔ تقریباً پچاس لاکھ افراد کی آبادی ان دھرنوں سے بری طرح متاثر ہوتی ہے، کیونکہ دھرنے دینے والے اکثر ان شاہراہوں کو بند کرتے ہیں جو دونوں شہروں کو ملاتی ہیں اور وہ اہم ترین شاہراہیں ہیں جہاں سے روزانہ لاکھوں افراد کا گزر ہوتا ہے۔ اگر اسلام آباد یا راولپنڈی میں عوام رہائش پذیر نہ ہوتے اور فقط حکمران ہی یہاں آباد ہوتے تب تو ان دھرنوں کی منطق کچھ سمجھ میں آتی، لیکن یہاں تو پچاس لاکھ کے قریب عام شہری مقیم ہیں جو آئے روز دیے جانے والے دھرنوں سے سخت پریشان ہیں۔

جڑواں شہروں میں اسکول بھی ہیں، اسپتال بھی ہیں، دفاتر و کاروباری مراکز بھی ہیں۔ آئے روز اسکول بند ہونے سے طلبا کی تعلیم کا حرج ہوتا ہے۔ سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے مریض اسپتالوں تک نہیں پہنچ پاتے کیونکہ دھرنا دینے والے اتنے بے حس ہیں کہ وہ ایمبولینس کو بھی راستہ نہیں دیتے۔ یوں مریضوں کو نہایت کرب سے گزرنا پڑتا ہے۔ کاروبار بند ہونے کی وجہ سے ملکی معیشت کا تو نقصان ہوتا ہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کئی افراد کے گھر چولہا جلنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔

شہر اقتدار کا باسی ہونے کی وجہ سے میں جڑواں شہروں کے عوام کی مشکلات کو اچھی طرح سمجھتا ہوں بلکہ بھگتتا بھی ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ جب اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان ہوتا ہے تو یہاں کے عوام کس قدر پریشانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور فوراً پلان بنانے لگتے ہیں کہ ہم نے کیا کرنا ہے؟ کس وقت کہاں جانا ہے؟ سب لوگ جلدی جلدی گھر پہنچنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں مگر ان کی تدبیریں بے حس سیاست دانوں کے سامنے ناکام ہوجاتی ہیں اور ہمیشہ کی طرح پھر کہیں نہ کہیں پھنس ہی جاتے ہیں۔

لہٰذا سیاستدانوں سے گزارش ہے کہ وہ اس دھرنا کلچر کو ختم کریں اور راولپنڈی/ اسلام آباد کے عوام کو بھی سکھ سے جینے کا حق دیں۔ آج کل عمران خان کی دھرنا سیاست بھی عروج پر ہے اور انھوں نے گزشتہ دنوں اعلان بھی کیا کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے علاوہ تمام شہروں سے احتجاج ختم کردیا جائے۔ کیا خان صاحب ان جڑواں شہروں کے عوام کو انسان نہیں سمجھتے؟ انہیں اس بات کا ادراک کیوں نہیں ہے کہ جس طرح دیگر شہروں کے رہائشی ان آئے روز کے احتجاج اور دھرنوں سے پریشان ہوتے ہیں اسی طرح اسلام آباد اور راولپنڈی کے عوام بھی ہوتے ہیں۔ اس لیے اس دھرنا کلچر کو ختم کریں۔ اگر احتجاج ریکارڈ کرانا بھی ہو تو کسی مخصوص جگہ پر جمع ہوکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں اور گھروں کو جائیں۔ دھرنے دینے اور سڑکیں بند کرنے سے کبھی حکومتیں نہیں گرا کرتیں صرف شہری تکلیف میں مبتلا ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس کلچر کو ختم کرکے اسلام آباد اور راولپنڈی کے عوام کو چین سے جینے کا حق دیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔