ذیابیطس کی وجوہات؛ بچاؤ کیسے ممکن ہے

شہریار شوکت  پير 14 نومبر 2022
ذیابیطس ایک خطرناک بیماری ہے جس سے سالانہ کئی افراد جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

ذیابیطس ایک خطرناک بیماری ہے جس سے سالانہ کئی افراد جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

14 نومبر کو دنیا بھر میں ذیابیطس کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ ہر سال اس بیماری سے لاکھوں افراد متاثر ہوتے ہیں۔ یہ بیماری اس وقت لاحق ہوتی ہے جب جسم اپنے اندر موجود شکر کو حل کرکے خون میں شامل نہیں کرپاتا۔

ذیابیطس ایک خطرناک بیماری ہے جس سے سالانہ کئی افراد جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ ذیابیطس کی پیچیدگیوں کے باعث متاثرہ شخص کے وزن میں تیزی سے کمی آتی ہے۔ متاثرہ مریض کو دل کے دورے، فالج، نابیناپن اور گردے ناکارہ ہونے جیسے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ سفید چینی کے براہ راست استعمال، کولڈ ڈرنکس کے زیادہ استعمال اور جسمانی سرگرمیاں نہ ہونے سے ذیابیطس کا مرض لاحق ہونے کے امکانات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں سفید چینی کا استعمال انتہائی زیادہ ہے۔ عوام میں یہ بھی ایک غلط تاثر ہے کہ سفید چینی کی جگہ گڑ کا استعمال کیا جائے تو نقصان نہیں ہوتا، جبکہ ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ چینی کسی بھی شکل میں ہو انسان کےلیے اس کا زیادہ استعمال نقصان دہ ہی ہے۔ تمباکو کا استعمال بھی ذیابیطس کے مرض کا باعث بن سکتا ہے۔

انسانی جسم میں انسولین نامی ایک ہارمون موجود ہوتا ہے۔ یہ ہارمون جسم میں گلوکوز کی مقدار کو کنٹرول کرتا ہے۔ اگر یہ ہارمون ٹھیک سے کام نہ کرے یا کام کرنا چھوڑ دے تو جسم میں گلوکوز کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور انسان ذیابیطس نامی خاموش قاتل کا شکار ہوجاتا ہے۔ ذیابیطس کے مریضوں کو زندگی بھر میٹھی چیزوں کے استعمال سے پرہیز کرنا پڑتا ہے اور شوگر کو کنٹرول کرنے والی ادویہ کا استعمال بھی کرنا پڑتا ہے۔ اگر یہ مرض زیادہ پیچیدگی اختیار کرلے تو ذیابیطس کے مریضوں کو انسولین کے انجکشن بھی استعمال کرنا پڑتے ہیں۔ نارمل انسانوں میں انسولین خود بنتی ہے لیکن اس مرض کی پیچیدگیوں کے باعث انسولین جسم میں بننا بند ہوجاتی ہے۔ ذیابیطس جسم کے دوسرے حصوں کے ساتھ ساتھ ہاتھوں، پیروں اور ان کی انگلیوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ ہاتھوں اور پیروں میں گلٹیاں ہوجانے یا کسی زخم کے بگڑ جانے کی صورت میں انہیں کاٹنا بھی پڑ سکتا ہے۔

واضح رہے کہ زیادہ تر افراد ذیابیطس کی دو اقسام کا شکار ہوتے ہیں۔ ذیابیطس کی پہلی قسم میں لبلبہ انسولین بنانا بند کردیتا ہے، جس کی وجہ سے شکر خون کے بہاؤ میں جمع ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ یہ تو معلوم نہیں کیا جاسکا کہ اس کی اصل وجہ کیا ہے لیکن طبی ماہرین کا خیال ہے کہ شاید ایسا جینیاتی اثر کی وجہ سے ہوتا ہے یا کسی وائرل انفیکشن کی وجہ سے بھی ایسا ہوسکتا ہے کہ لبلبے میں انسولین بنانے والے خلیے خراب ہوجاتے ہیں۔ ذیابیطس کے مریضوں کا دس فیصد اسی قسم کا شکار ہوتا ہے، جبکہ ذیابیطس کی دوسری قسم میں لبلبہ یا تو ضرورت کے مطابق انسولین نہیں بناتا یا جو بناتا ہے وہ ٹھیک طریقے سے کام نہیں کرتی۔ ایسا عموماً درمیانی اور بڑی عمر کے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ تاہم یہ مرض کم عمر کے زیادہ وزن والے افراد، سست طرزِ زندگی اپنانے والے اور کسی خاص نسل سے تعلق رکھنے والے افراد خصوصاً جنوبی ایشیائی افراد کو بھی لاحق بھی ہوسکتا ہے۔

ذیابیطس کی چند مخصوص علامات ہیں جن میں زیادہ پیاس لگنا، تھکاوٹ کا محسوس ہونا، جسم سے محلولی فضلات کا ضرورت سے زیادہ خارج ہونا، وزن کا تیزی سے کم ہونا، نظر کا کمزور ہونا اور معمولی زخموں کا بھی نہ بھرنا شامل ہیں۔ کسی بھی فرد میں اگر یہ علامات ظاہر ہوں تو اسے جلد از جلد ذیابیطس کا ٹیسٹ کرانے اور طبی ماہر سے رابطہ کرنا چاہیے۔

تحقیقات کے مطابق پاکستان میں گزشتہ دس سال کے دوران ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد میں تیس لاکھ افراد کا اضافہ ہوا۔ مریضوں کی تعداد میں سب سے زیادہ اضافہ صوبہ خیبرپختونخوا میں ہوا۔ اس وقت ملک میں ذیابیطس کے مرض میں مبتلا مریضوں کی تعداد 90 لاکھ سے بڑھ چکی ہے۔ اس مرض کی مجموعی شرح 4.18 فیصد سے زیادہ ہے۔ وزارت صحت کی دستاویزات کے مطابق سال 2010 میں ملک میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 3.42 فیصد کے اوسط کے ساتھ 59 لاکھ 86 ہزار سے زیادہ تھی۔ سال 2015 میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 3.83 فیصد کے اوسط کے ساتھ 74 لاکھ 82 ہزار سے زیادہ ہوگئی۔ وزارت صحت کی دستاویزات کے مطابق ذیابیطس کے 41.5 فیصد مریض ورزش اور دیگر جسمانی سرگرمیاں نہ ہونے کی وجہ سے اس مرض میں مبتلا ہوچکے ہیں جبکہ 19.1 فیصد افراد مختلف صورتوں میں تمباکو استعمال کرنے کی وجہ سے اس مرض میں مبتلا ہوچکے ہیں۔

وزارت صحت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ مختاط اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 1 کروڑ پانچ لاکھ سے زیادہ ہے اور سالانہ بنیاد پر ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد میں 2 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہورہا ہے۔ ملک میں گزشتہ دو سال کے دوران ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد معلوم کرنے کےلیے سروے نہیں کیا گیا لیکن گزشتہ برسوں کے اعدادوشمار کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت مریضوں کی تعداد ایک کروڑ سے بڑھ گئی ہے۔

پاکستان میں لوگ میٹھے کا استعمال بہت زیادہ کرتے ہیں، گوشت اور غیر متوازن غذا بھی مرض میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ واضح رہے کہ ملک بھر میں اسکول جانے والے بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد اس مرض کا شکار ہورہی ہے جس کی بڑی وجہ کھیل کود میں کمی اور جسمانی سرگرمیوں کا نہ ہونا ہے۔

حکومت پاکستان ملک میں ذیابیطس کے مرض کو کنٹرول کرنے کےلیے آگاہی پروگرامز کا انعقاد کررہی ہے۔ ذیابیطس ایک جینیاتی بیماری ہے یہ بھی ایک حقیقت ہے لیکن صحتمند زندگی گزارنے کےلیے ہر فرد کو احتیاط کرنا ہوگی تاکہ ذیابیطس ہونے کے امکانات کم ہوسکیں۔ ذیابیطس سے بچاؤ کےلیے سب سے ایم یہ ہے کہ سبزیوں اور پھلوں سمیت صحتمند غذا کا استعمال کیا جائے، میٹھی اشیا اور شکر کے استعمال کو کم سے کم کیا جائے جبکہ جسمانی سرگرمیوں کو بھی زندگی کا حصہ بنایا جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔