’’صحافت کا حال ایسا ہی ہے جیسے کراچی کی شاہراہیں‘‘

امہ ماریہ  منگل 15 نومبر 2022
اجتماعی سطح پر اردو لکھنے یا پڑھنے والوں کی تخلیقی صلاحیت بتدریج تنزلی کا شکار ہے۔ (تصاویر: بلاگر)

اجتماعی سطح پر اردو لکھنے یا پڑھنے والوں کی تخلیقی صلاحیت بتدریج تنزلی کا شکار ہے۔ (تصاویر: بلاگر)

  کراچی: سینئر صحافی و کالم نگار غازی صلاح الدین قدرے عجلت میں اپنی نشست سے کھڑے ہوئے اور روسٹرم کے قریب پہنچ گئے۔ مائیک ڈاکٹر یاسمین فاروقی کی گرفت میں تھا اور جیسے ہی میزبان نے غازی صاحب کا تعارف پیش کرنا چاہا تو مہمان مقرر گویا ہوئے ’وقت کے دامن میں تعارف کی گنجائش نہیں‘ اور جھٹ سے مائیک سنبھال لیا۔ ان کا پہلا جملہ ہی برجستہ اور موجودہ حالات سے مطابقت پر مبنی کہ ’صحافت کا حال بالکل ایسا ہی جیسے ان دنوں مرکزی اور نیم مرکزی شاہراہوں کا ہے‘۔ 

انجمن ترقی اردو کے زیر اہتمام دو روزہ ’اردو ادب و صحافت کانفرنس‘ کا دوسرا روز تھا اور اس کے پہلے ہی سیشن میں غازی صلاح الدین ور سینئر صحافی مظہر عباس سمیت دیگر کو ’’اردو اور صحافت‘‘ سے متعلق اپنے خیالات کے اظہار کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ انجمن ترقی اردو کی پرشکوہ عمارت میں انتظامی امور مکمل تھے، مقررین کے پیش نظر ہال میں نشستوں کی تعداد بھی بھرپور تھی لیکن 95 فیصد خالی تھیں کیونکہ مقررین سمیت سامعین یونیورسٹی روڈ پر بدترین ٹریفک جام ہونے کے باعث بروقت کانفرنس کا حصہ نہیں بن سکے تھے۔ اگرچہ مظہرعباس کانفرنس میں شرکت کےلیے بتائے گئے وقت پر پہنچ گئے لیکن وہ سامعین اور دیگر مقررین کا انتظار کرتے رہے اور جب ایک گھنٹہ تاخیر سے تقریب کا آغاز ہوا تب تک وہ جاچکے تھے کیونکہ انہیں کراچی پریس کلب میں منعقد ’ریاستی جبر کا پہلا شہید کامریڈ حسن ناصر‘ کی ایک تقریب میں بطور مہمان مقرر شرکت کرنی تھی۔

ریڈ لائن منصوبہ اور این ای ڈی یونیورسٹی 

قبل اس کے کہ کانفرنس میں غازی صاحب کی فی البدیہہ تقریر کے اہم اقتباسات تحریری انداز میں پیش کیے جائیں، ضروری سمجھتا ہوں کہ ان حالات کو بھی سامنے رکھوں جو صوبائی اداروں کی نااہلی اور فرائض کی عدم ادائیگی کی ناقابل تردید مثال ہیں۔ کانفرنس کے پہلے سیشن کا آغاز 4 بجے طے تھا۔ راقم مقررہ وقت پر پہنچنے کےلیے آدھا گھنٹہ پہلے ہی غریب خانہ سے نکلی۔ ٹی 20 ورلڈ کپ کے فائنل میچ کی وجہ سے شاہراہ پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھا۔ جیسے ہی براستہ صفورہ یونیورسٹی روڈ پہنچا گاڑیوں کا اژدھام نمودار ہوا اور تاحد نگاہ گاڑیاں تھیں۔

یونیورسٹی روڈ پر ریڈ لائن منصوبے کی ہیوی مشینیں بے ہنگم شور کے ساتھ کام کررہی تھیں، گرد آلود ماحول نے ہیجان کی کیفیت میں اضافہ کردیا۔ دوسری جانب این ای ڈی یونیورسٹی میں منعقد ٹیسٹ میں شرکت کےلیے سیکڑوں طلبا کے والدین جامعہ کے باہر اپنے بچوں کا انتظار کررہے تھے۔ والدین نے گاڑیاں پارک کیں تو مرکزی شاہراہ پر ٹریفک کا دباؤ مزید بڑھ گیا۔ اس صورتحال میں نمایاں بات یہ تھی کہ گاڑیوں کے بہاؤ کو برقرار رکھنے کےلیے کوئی انتظامی معاملات نظر نہیں آئے۔انگریزی صحافت کا معیار اور اثر بھی ہے لیکن اردو صحافت کا وہ مقام نہیں

 

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مرکزی شاہراہ پر ترقیاتی کاموں کی وجہ سے این ای ڈی یونیورسٹی کے وسیع و عریض پارکنگ ایریا میں والدین کو اپنی گاڑیاں پارک کرنے کی اجازت دی جاتی۔ دوسری جانب محکمہ ٹریفک کے پولیس اہلکاروں کی یونیورسٹی روڈ پرعدم موجودگی سے افسران کی غیرسنجیدگی واضح تھی۔ اتنے بڑے منصوبے کی تکمیل کے دوران کئی مسائل جنم لیتے ہیں جس میں ٹریفک کی بلا تعطل روانی اہم ترین ہے لیکن ٹریفک کے بہاؤ کو برقرار رکھنے کےلیے اہلکار تعینات نہیں تھے۔

مجموعی طور پر کراچی میں انتظامی سطح پر مایوس کن کارکردگی کے نتیجے میں اب بہتری کی امید بھی معدوم ہوتی جارہی ہے۔ وہ فرائض و انصرام جو صوبائی حکومت کے ماتحت اداروں کے ذمے ہیں، متعلقہ اداروں کے سربراہوں کی بے اعتناہی ہر جگہ نمایاں ہے۔ کراچی کی مزکری اور نیم مرکزی شاہراہیں ہوں یا سرکاری اسپتال، عوامی لائبریری ہو یا پولیس اسٹیشن، گویا جس سمت بھی نگاہ ڈالی جائے زبوں حالی کے مناظر ہیں۔

انگریزی سیکھنے کےلیے کسی درسگاہ کا رخ نہیں کیا، غازی صلاح الدین 

غازی صلاح الدین نے روسٹرم پر آکر مائیک سنبھالا اور حاضرین سے گویا ہوئے کہ صحافت کا حال بالکل ایسا ہی ہے جیسے ان دنوں مرکزی اور نیم مرکزی شاہراہوں کا ہے‘‘۔ اس جملے پر گنتی کے چند حاضرین مسکرا دیے اور تالیاں بھی بجا ڈالیں کیونکہ وہ سب یونیورسٹی روڈ پر ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے اذیت جھیل کر بمشکل انجمن ترقی اردو کی عمارت تک پہنچ پائے تھے۔

غازی صلاح الدین نے اپنی بات جاری رکھی اور اردو اور انگریزی صحافت کی اثر پذیری سے متعلق فرمایا ’’اگر آپ اس ملک میں فیصلہ سازی یا لوگوں کو متاثر کرنے یا معاشرے سے کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو وہ اردو صحافت سے نہیں بلکہ انگریزی صحافت کے ذریعے ممکن ہے۔ میں نے انگریزی سیکھی اور اس کےلیے کسی درسگاہ کا رخ نہیں کیا بلکہ مطالعہ کرکے اس کمی کو دور کیا۔ میں نے محسوس کیا کہ انگریزی صحافت کا معیار اور اثر بھی ہے لیکن اردو صحافت کا وہ مقام نہیں۔ یہ ایک المیہ ہے جس کے بارے میں اثر سوچتا ہوں کہ اس کے اسباب کیا ہیں؟ انگریزی کا غلبہ اردو ادب، اردو زبان اور اردو صحافت کےلیے کس قدر متاثر کن ہے؟‘‘

’’انگریزی سر کا تاج بھی اور پاؤں کی زنجیر بھی‘‘

غازی صاحب نے کہا کہ لوگ اردو کی عظیم تخلیقات کو نہیں پوچھتے۔ اس وقت جہاں ہم ہیں صورتحال یہ ہے کہ ملک کے پڑھے لکھے لوگ انگریزی لٹریچر پڑھتے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ اردو تخلیقات کی فروخت ملک میں معمولی جبکہ جو انگریزی ادب کی پاکستانی ادیبوں کی تخلیقات ہیں وہ مغربی ممالک میں غیرمعمولی فروخت پاتی ہے۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس کو سمجھانا اور سمجھنا بہت مشکل ہے۔

غازی صاحب نے بتایا کہ ’’انگریزی زبان دیوار بھی ہے اور دروازہ بھی۔ یہ دروازہ ترقی کو روکتا ہے اور اچھی انگریزی آنے کی صورت میں مواقع بھی فراہم کرتا ہے۔ انگریزی سر کا تاج بھی اور پاؤں کی زنجیر بھی کہ ہم دنیا بھر میں اکڑتے پھرتے ہیں کہ دیکھئے ہماری انگریزی کیسی ہے۔ ہمارے ملک میں بے شمار لوگ انگریزی سیکھنے میں اپنی زندگیاں بتا دیتے ہیں اور باقی کچھ نہیں کرپاتے۔ یہ ایک انتہائی تشویشناک بات ہے۔‘‘

 

’’تخلیقی صلاحیت اپنی زبان میں پیدا ہوتی ہے‘‘

انہوں نے کہا کہ ’’اجتماعی سطح پر اردو لکھنے یا پڑھنے والوں کی تخلیقی صلاحیت بتدریج تنزلی کا شکار ہے کیونکہ انہیں حوصلہ افزائی نہیں مل رہی جس کے نتیجے میں ملک میں Intellectual Deprivation  بڑھتی جارہی ہے۔ جامعہ کراچی میں تقریباً 40 ہزار طالبعلم ہیں اور تدریسی شعبے سے وابستہ تقریباً 700 یا 800 اساتذہ پی ایچ ڈی ہیں، وہ معاشرے کو کیا دے رہے ہیں؟

اس پر ہمیں بہت غور کرنا ہے کہ اگر ملک کا ہر شہری خواندہ ہوجائے یعنی وہ اپنی مادری زبان (سندھی، پنجابی، پشتون، بلوچی وغیرہ) میں لکھنا اور پڑھنا سیکھ لے تو دراصل ایسا ہونے سے اردو کو فروغ حاصل ہوگا کیونکہ اس طرح اجتماعی دانش میں اضافہ ہوگا۔ اصل مسئلہ اس کی تخقلیقی صلاحتیت کیا ہے؟ اور تخلیقی صلاحیت پیدا ہوتی ہی اپنی زبان میں ہے اور اس معاملے میں ہم بہت پیچھے ہیں۔‘‘

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔