سچ

راؤ منظر حیات  پير 14 نومبر 2022
raomanzarhayat@gmail.com

[email protected]

کیا لکھا جائے۔ہر طرف موضوع بکھرے پڑے ہیں۔ پر غور سے دیکھا جائے تو ان میں کچھ بھی خاص نہیں ہے۔ وجہ یہ بھی کہ ہم نے ہر خاص چیز کو عام بلکہ عامی سا بنا دیا ہے۔ گمان تھا کہ لکھنے سے معاشرے میں شائد کوئی بہتری ہو جائے۔ تو صاحب۔ یہ وہم تو دور ہو چکا ہے۔

ہر جانب جھوٹ کا اتنا ڈنکہ بج رہا ہے کہ سچ مونہہ چھپائے پھرتا ہے۔ یہیں سے سکے کے متضاد رخ والا سوال بھی سامنے آتا ہے۔ کیا لوگ واقعی حقیقت جاننا چاہتے ہیں۔ یقین ہو چلا ہے کہ لوگوں کی سوچ کا عملی سچ سے کوئی تعلق نہیں۔ لوگ سچ سن کر صرف پتھر مار سکتے ہیں۔

بدقسمت لکھاری کو مار سکتے ہیں۔ مگر حقیقت کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔ تاریخ سے ہی شروع ہو جایئے۔ ہم نے برصغیر کی تاریخ میں مخیرالعقول گلکاریاں کی ہیں۔ اپنے خطے کی تاریخ کو بھی مسخ کر ڈالا ہے۔ ہمیں تو ہماری تاریخ ہی غلط پڑھائی جارہی ہے۔

یقینا کسی کو بھی یہ جملہ پسند نہیں آئے گا۔ غیر ملکی سیاحوں اور سرکاری وفود کو بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ جناب ہماری تاریخ تو ہزاروں برس پرانی ہے۔ یہ دیکھیے۔ ٹیکسلا یونیورسٹی جو دنیا کی اولین درسگاہوں میں سے تھی۔ پوری دنیا سے یہاں طالب علم فلسفہ‘ طب‘ حکمت اور اس زمانے کے جدید علوم حاصل کرنے آتے تھے۔ مگر یہ آدھا سچ ہے۔

ہم اس عظیم ادارہ کی بابت یہ نہیں بتاتے کہ یہاں برصغیر کا قابل ترین استاد‘ چانکیا بھی درس دیتا تھا۔ وہی چانکیا ۔ جس نے ریاستی معاملات پر شہرہ آفاق کتاب ’’آرتھاشاسترا‘‘ لکھی تھی۔ وہی استاد‘ جس نے اپنے شاگرد‘ چندر گپت کو برصغیر کا شہنشاہ بنوا ڈالا تھا۔

اگر آپ ہماری تاریخ کی درسی کتابیں دیکھیں تو ان میں چانکیہ نام کا کوئی شخص نظر نہیں آتا۔اگر کہیں ذکر آتا بھی تو بڑے منفی انداز میں اب بتایا جاتا ہے کہ ہم نے درسی کتب کا آغاز ہی محمد بن قاسم کے دیبل پر حملے سے کیا ہے۔

مگر محمد بن قاسم سے پہلے بھی برصغیر کی ایک شاندار تاریخ تھی جس کا ذکر کرنا ہم مناسب نہیں سمجھتے۔ یا شاید مقامی تاریخ کو بھی ہم ایرانی‘ تورانی اور عرب سے درآمد ی کے گئے نظریات کی عینک سے دیکھتے ہیں۔

اس امر کا بھی اقرار نہیں کرتے کہ تاریخ کا بلکہ کسی بھی علم کا کوئی عقیدہ نہیں ہوتا۔ ہمیں اسکول اور کالجوں میں یہ بھی نہیں بتایا جاتا کہ کنشکا جیسا عظیم شہنشاہ بھی اس خطے میں گزرا ہے۔ جس کی حکومت وسط ایشیا تک پھیلی ہوئی تھی۔

یعنی برصغیر تو ایک طرف۔ یہ جو آج ہم سینٹرل ایشیا سے مرعوب ہو کر اپنا تاریخی سلسلہ وہاں سے جوڑتے ہیں ۔

وہ تمام علاقے کنشکا جیسے بادشاہ کی ٹھوکروں میں تھے۔ لکھنے کا مقصد صرف حقیقت کی کھوج لگانا ہے۔ جزوی سچ تک پہنچا ہوں۔ کیونکہ مکمل سچ کا وجود اس دنیا میں موجود نہیں ہے۔

سوچ کر سمجھائیے ۔ سکندر اعظم نے برصغیر کے خاصے علاقے کو فتح کیا۔ وہ تو مغرب سے آیا تھا۔ مقامی خطے سے تو اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہاں‘ مقامی راجہ پورس نے اس کی یلغار کا بڑی بہادری سے مقابلہ کیا‘یہ دونوں حکمران مسلمان نہیں تھے۔

مگر میں نے آج تک کبھی یہ نہیں سنا ‘ کہ کسی نے اپنے بیٹے کا نام ‘ اس جری سپہ سالار یعنی پورس پر رکھا ہو۔ سکندر بہر حال آپ کو نام کی حد تک ہر محلہ اور گلی میں مل جائیں گے۔ سکندر تو ہمارے لئے غاصب تھا۔ ہمارے علاقوں کو برباد کر کے چلا گیا۔ پھر ہم اس سے اتنے کیوں متاثر ہیں۔ یعنی اپنے مقامی بہادر حکمران سے آخر ہمیں کیا خار ہے۔ اس کی کیا وجوہات ہیں۔

ان پر بھی کوئی سنجیدہ بحث نہیں ہوتی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہم لوگ اپنی شناخت کے معاملے میں حد درجہ احساس کمتری کا شکار ہیں۔ علم ہی نہیں کہ ہم دراصل ہیں کون۔ ہمارا مقامی کلچر کیا ہے۔ ہم اپنی مقامی روایات‘ ثقافت ‘ تہذیب کو اپنانا بھی نہیں چاہتے۔ بلکہ اس سے روگردانی کرتے ہیں اور خوشی سے کرتے ہیں۔

جان کی امان پاؤں تو عرض کروں۔ کہ وہ مسلم فاتحین جنھیں ہم ہیرو بنا کر پیش کرتے ہیں۔ کبھی تاریخ کی کتابوں سے استفادہ فرما لیجیے کہ وہ مقامی مسلمانوں اور غیر مسلم آبادی کے ساتھ کتنا ظالمانہ سلوک کرتے تھے۔

یعنی ان کی نظر میں ہم تمام برصغیر کے باسی تھے‘ کسی بھی مذہبی تفریق کے بغیر۔ ذمے داری سے عرض کر رہا ہوں کہ دہلی اور دیگر علاقوں کو لوٹنے کے بعد شمال مغرب سے آئے ہوئے ایک سورما‘ کئی لاکھ بچوں‘ لڑکیوں ‘ مردوں کو زنجیریں پہنا کر پیدل اپنی سلطنت میں کردار نہ ہوا۔ راستے کی صعوبتوں سے اکثریت مر گئی۔ جو بچ گئے انھیں غلام بنا کر فروخت کر دیا جاتا تھا۔ لڑکیوں کی قسمت میں موروثی کنیز بننا ہوتا تھا۔ مگراس طرح کے کردار ہمارے آئیڈیل ہیں۔

ہم ایسے لوگ ہیں کہ اپنی تاریخ تک چھپاتے ہیں۔ ذاتی محفلوں میں سب کچھ تسلیم کرتے ہیں مگر کسی بھی عوامی سطح پر سچ کو تسلیم نہیں کرتے۔ پر صاحبان ‘ جب ریاستی سطح پر جھوٹ بولا جائے۔ لوگوں کو علم اور حقیقت سے دور رکھا جائے‘ تو پھر معاملہ چوپٹ ہو جاتا ہے۔

اس لئے کہ یہ دنیا حقیقت کی دنیا ہے۔ علم اور تحقیق کی آماجگاہ ہے۔ آپ زیادہ وقت کے لئے اس میں جھوٹ کا سکہ نہیں چلا سکتے۔ اس کا نتیجہ وہی نکلتا ہے جو آج ہم قومی سطح پر بھگت رہے ہیں۔ویسے معلوم نہیں کہ ہم کوئی قوم ہیں بھی کہ نہیں۔ یا ڈنڈے اور تعصب کے زور پر ہمیں زبردستی ایک قوم بنا دیا گیا ہے۔

ویسے کیا یہ سوال نہیں پوچھنا چاہیے کہ ایک ہزار برس سے زیادہ برصغیر میں شمال اور مغرب سے آئے ہوئے مسلمانوں کی حکومت رہی۔ ان میں سے کسی ایک نے بھی علم کی ترویج پر زور کیوں نہیں دیا۔

کیا یہ سوال ذہن میں نہیں اٹھتا کہ جناب انھوں نے سائنس کی طرف کیوں اتنی عدم توجہ رکھی۔ کوئی ایک یونیورسٹی قائم نہیں کی جہاں جدید علوم پڑھائے جائیں۔ مغرب میں تشریف لے جائیں۔ وہاں تین اور چار سو سال پرانی درسگاہیں تسلسل سے طلباء کو جدید ترین علوم سے آراستہ کر رہی ہیں اور آج بھی موجود ہیں مگر ہمارے خطے میں تو وسائل مغرب سے بہت زیادہ تھے۔

تو پھر بالآخر کیا وجہ تھی کہ ہمارے کسی ظل الٰہی نے علم حاصل کرنے پر کوئی توجہ کیوں نہیں دی۔ پر جناب‘ معاف فرمائیے کہ پھر کیا یہ نہیں پوچھنا چاہیے کہ جناب پھر وہ اتنی کثیر دولت سے کرتے کیا تھے۔ جواب حد درجہ شرمناک ہے۔

حضرات ‘ہزاروں خواتین پر مشتمل شاہی حرم قائم کرتے تھے۔ انھوںنے پورا نظام برپا کر رکھا تھا۔ دنیا کے ہر کونے سے حسین و جمیل خواتین کو دہلی لاکر بادشاہ کے سامنے پیش کیا جاتا تھا۔ حرم سرا میں اخلاق اور قواعدکی کوئی قید نہیں تھی۔

جہالت کا یہ عالم تھا کہ سمندری بیڑے پر بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی تھی۔ حالانکہ پچھلی پانچ صدیوں میں جس قوم نے بھی ترقی کی ہے اس نے سمندر کو مسخر کیا ہے۔ اسپین‘ ڈچ‘ گورا بادشاہ یعنی انگلستان‘ ان تمام اقوام کی ترقی کے سفر میں سمندر اور آبی سفر کی حد درجہ اہمیت تھی۔ آپ کبھی انگریزوں کی فتوحات کو غور سے پڑھیے۔ انگریز بذات خود اپنی فوج کی کارکردگی پر حیران ہو جاتے تھے۔

ان کے مقابلے میں ‘ کم از کم عمومی طور پر دوگنے‘ تگنے مقامی افراد ہوتے تھے۔ پروہ باآسانی ہار جاتے تھے۔ شائد آپ حیران ہوں۔ کہ ایسٹ انڈیا کمپنی‘ برصغیر کا وہ پہلا ادارہ تھا۔ جو اپنے سپاہیوں کو باقاعدگی سے تنخواہ دیتا تھا۔کمال دیکھیے ۔ کہ ہمارے بادشاہ ‘ جن کے پاس دولت کے انبار تھے۔ اس قدر غیر سنجیدہ لوگ تھے کہ اپنی افواج کو باقاعدگی سے تنخواہ دینے کے روادار نہیں تھے۔ انگریز یہ کمزوری بھانپ گیا تھا۔

اس نے ‘ مقامی رواج کے بالکل الٹ ‘ مہینہ کی ہر پہلی تاریخ کو تواتر سے تنخواہ کا سلسلہ شروع کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے مقامی لوگ‘ نوابین اور راجہ مہاراجوں کے حصار سے نکل کر برطانوی فوج میں شامل ہو گئے۔ اور انھیں کی مدد سے گورے نے ہمیں آرام سے شکست دے دی۔

بلکہ انھوں نے ہمارے ذہن ہی قید کر ڈالے ۔سوچ ہی محکوم بنا دی۔ پر عجیب المیہ ہے کہ اپنے مقامی بادشاہوں کی کمزوریاں چھپانے کے لئے ہمیشہ ’’بیرونی سازش‘‘ کا سہارا لے کر اپنے آپ اور عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔مگر جناب ! یہ مکمل جھوٹ ہے۔

ہمارے اکابرین نے اپنے آپ کو شباب و شراب میں غرق رکھا۔ اور دنیا کی کسی جدت کو برصغیر میں پروان نہیں چڑھایا۔ ہماری حکمران اشرافیہ نے عوام کے لئے سائنس اور تحقیق کی دنیا کے دروازے بند کر ڈالے۔ ایک حیرت انگیز حقیقت اور بھی ہے۔

ہزاروں برس سے لے کر آج تک ہم نے نئی فکر کی ہرطور پر بیخ کنی کی۔ دلیل پر سوال پوچھنے کی اجازت ہی کبھی عطا نہیں کی۔

صرف اندھی تقلید کو زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنا ڈالا۔ اور اب یہ حال ہے کہ کوئی بھی ذہین انسان‘ ہمارے معاشرے میں سنجیدہ سوال نہیں پوچھ سکتا۔ اس کی سزا کم از کم موت ہو سکتی ہے۔ تاریخ سے اجتناب ‘ علم سے نفرت‘ جدت سے دور رہنا‘ تحقیق سے خوف زدہ رہنا ‘ اب ہمارا قومی رویہ ہے۔ ان حالات میں اس خطے میں کیا خاک ترقی ہو گی!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔