اسموگ سے بچاؤ کیسے ممکن ؟؟ 2023ء کو ماحولیاتی ایمرجنسی کا سال قرار دیکر ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے!!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 14 نومبر 2022
سموگ ایکشن پلان پر عملدرآمد سے معاملات بہتر ہوئے، آئندہ برسوں میں سموگ مزید کم ہوگی۔ فوٹو : فائل

سموگ ایکشن پلان پر عملدرآمد سے معاملات بہتر ہوئے، آئندہ برسوں میں سموگ مزید کم ہوگی۔ فوٹو : فائل

پاکستان کو درپیش مختلف چیلنجز میں سے ایک بڑا مسئلہ ’’اسموگ‘‘ ہے جس کا سامنا ہر سال ہمیں موسم سرما میں کرنا پڑتا ہے۔ اس موسم میں چونکہ نمی ہوتی ہے، دھند ہوتی ہے لہٰذا جب فضا میں موجود دھواں، زہریلی گیسیں اور گرد وغبار اس نمی کے ساتھ مل جاتے ہیں تو سموگ بن جاتی ہے۔ یہ زہریلی ہوتی ہے اورانسانی صحت کے لیے نقصاندہ بھی۔

اسموگ کے بننے میں موسمیاتی تبدیلیاں ایک وجہ ہیں مگر بڑی وجہ زمین پر انسانوں کی ماحول دشمن سرگرمیاں ہیں جن میں فیکٹریوں سے خارج ہونے والی زہریلی گیسیں، کھیتوں میں لگائی جانے والی آگ، دھواں چھوڑتی گاڑیاں ، اینٹوں کے بھٹوں سے پھیلنے والی آلودگی اور تعمیراتی کاموں میں ماحول کو مد نظر نہ رکھنا شامل ہیں۔

اسموگ کی روک تھام کے لیے حکومت پنجاب کی جانب سے ایمرجنسی لگا دی گئی ہے۔ دھواں پھیلانے والے کارخانوں اور بھٹوں کو حکومت کی جانب سے کسی بھی صورت کام کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی البتہ جن کارخانوں اور فیکٹریوں میں دھواں کنٹرول والے آلات نصب ہیں صرف انہیں کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

اسی طرح جن بھٹوں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کیا جا چکا ہے ان کے لیے بھی کوئی پابندی نہیں ہے۔ سموگ کی ایک بڑی وجہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بے شمار اینٹوں کے بھٹے، آلودگی پھیلانے والے کارخانے اور فصلوں کی باقیات کو جلانے جیسے عوامل ہیں۔

گزشتہ برسوں میں بھی بھارت سے آنے والے دھوئیں کے باعث پاکستان میں سموگ میں اضافہ ہوا اور بے شمار شہری بیماریوں کا شکار ہوئے اور اس سال بھی اس کے واضح امکانات موجود  ہیں۔

رواں برس سموگ کی صورتحال اور حکومتی اقدامات جاننے کیلئے مذکورہ بالا تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں متعلقہ محکموں کے نمائندوں اور ماہرین کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر ساجد رشید
(ڈین فیکلٹی آف جیو سائنسز جامعہ پنجاب)

اکتوبر اور نومبر میں بنیادی طور پر ہوا کی رفتار کم ہوتی ہے، درجہ حرارت کم ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے آلودہ ذرات حرکت نہیں کرتے، ہوا میں معلق رہتے ہیں۔

ان مہینوں میں ہوا کا رخ بھی تبدیل ہوتا ہے۔ ہوائیں بھارت سے پاکستان میں داخل ہوتی ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی اور سموگ میں بھارت کا ایک بڑا حصہ ہے ،وہاں فصلوں کی باقیات جلانے سے آلودگی پیدا ہوتی ہے جو ہوا کہ ذریعے پاکستان خصوصاََ لاہور میں آتی ہے یہی وجہ ہے کہ لاہور دنیا کا آلودہ ترین شہر بن جاتا ہے۔

بھارت کے ساتھ ساتھ ہمارے اپنے بھی مسائل ہیں جن کی وجہ سے آلودگی پیدا ہوتی ہے، یہاں ایمرجنسی نافذ ہونے کے باوجود فصلوں کی باقیات جلائی جاتی ہیں ، ’فوسل فیول‘ گیس، تیل، کورا کرکٹ، پلاسٹ وغیرہ جلانے سے ماحول آلودہ ہوتا ہے، زہریلے مادے ہوا میں رہ جاتے ہیں جو سموگ کی شکل اختیار کرکے مختلف بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔

سموگ صرف انسانوں ہی نہیں بلکہ دیگر جانداروں پربھی اثر انداز ہوتی ہے۔ ہم نے اس حوالے سے دیگر شعبوں کے ساتھ مل کر جانوروں اور پرندوں پر بھی تحقیق کا آغاز کیا ہے تاکہ ان پر سموگ کے اثرات کا جائزہ لیا جا سکے۔

سموگ میں ٹرانسپورٹ کا حصہ 30فیصد سے زائد ہے۔ گاڑیوں کا فٹنس سرٹفکیٹ موجود ہے مگر وہ ماحول کو آلودہ کر رہی ہیں۔ یہ نہیں دیکھا جا رہا کہ تمام گاڑیوں کا دھواں ہماری فضا اور ماحول کیلئے کتنا نقصاندہ ہے۔ دنیا میں الیکٹرک بسیں چل رہی ہیں مگر ہم نے سولر اور الیکٹرک اشیاء پر ٹیکس لگا دیا ہے جو حیران کن ہے۔

ایک طرف ہم دنیا سے کہہ رہے ہیں کہ ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کیلئے ساتھ دے، دوسری طرف ایسے اقدامات کر رہے ہیں۔ میرے نزدیک ہمارے ہاں ہر سیکٹر میں مافیاز ہیں جو ایسے اقدامات سے روک رہے ہیں۔ حکومت کو اپنی رٹ قائم کرنی چاہیے اور جو اقدامات ملک کے لیے بہتر ہیں وہ کرنے چاہیے۔

ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے کیلئے ہمیں ماحول دوست گاڑیوں اور اشیاء کو فروغ دینا ہوگا اور ان پر ٹیکس کم کرنا ہوگا۔ سموگ میں صنعت کا ایک بڑا کردار ہے۔

لاکھوں، کروڑوں روپے کے یونٹ لگائے جاتے ہیں مگر ان میں ماحولیاتی سیفٹی کی ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں کیا جاتا، یہ فیکٹریاں ماحول کو آلودہ کر رہی ہیں۔

ان میں سے اکثر رات کو چلتی ہیں، متعلقہ محکمے ان کے خلاف کارروائی کریں،ا نہیں فوری بند نہ کیا جائے بلکہ ماحول دوست ٹیکنالوجی پر منتقل ہونے کا خاطر خواہ وقت دیا جائے اور ا سکے ساتھ ساتھ انہیں شہر سے باہر صنعتی زونز میں منتقل کیا  جائے۔

شیخوپورہ سے آگے انڈسٹریل زون بن رہا ہے مگر وہاں بڑے صنعتکاروں نے جگہ لے لی ہے، سوال یہ ہے چھوٹے صنعتکار کہاں جائیں گے؟ میرے نزدیک مختلف علاقوں میں صنعتوں کو مخصوص کر دیا جائے، ایک انڈسٹریل زون میں ایک ہی قسم کی انڈسٹری لگائی جائے۔ ہم نے بھٹوں کے حوالے سے محکمہ ماحولیات کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔

ہم نے 25 لاکھ روپے کا آلہ خریدا ہے جو چمنی کے اوپر سے ہی چیک کرکے گیسوں و زہریلے مادوں کی شرح بتا دیتا ہے۔ لاہور میں تقریباََ تمام بھٹے ’زگ زیگ‘ ٹیکنالوجی پر منتقل ہوچکے ہیں جو ماحول دوست ہیں۔ سموگ کے حوالے سے وسیع پیمانے پر آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔

آگاہی سے مراد یہ نہیں کہ سموگ کا مطلب بتایا جائے، اب سب کو سموگ کے بارے میں معلوم ہے،ا ٓگاہی یہ دی جائے کہ وہ کس طرح اپنے ارد گرد موجود محرکات کو ختم کرسکتے ہیں۔ سموگ کے خاتمے کیلئے ہمیں من حیث القوم کام کرنا ہوگا۔ آلودگی کم کرنے اور ماحول کو صاف رکھنے میں سب اپنا اپنا کردار ادا کریں۔

آپس میں گاڑیوں کو ’پول‘ کریں، ماحول دوست رویے اپنائیں، اپنا طرز زندگی تبدیل کریں۔ سموگ کے خاتمے میں سب سے اہم یہ ہے کہ سرکاری محکموں میں موثر کوارڈینیشن کا میکنزم ہونا چاہیے، سب اپنا اپنا الگ کام کر رہے ہیں،ا گر سب مل جائیں تو محنت بھی کم لگے گی اور فائدہ بھی زیادہ ہوگا۔

فصلوں کی باقیات جلانے سے آلودگی پیدا ہوتی ہے، ہم نے اپنی لیب میں ان سے گتہ اور کاغذ بنایا ہے، انڈسٹری کے تعاون سے اس کا یونٹ لگایا جائے گا، ہم لوگوں کو مفت تربیت دیں گے تاکہ وہ مقامی سطح پر یونٹس لگا کر نہ صرف روزگار کمائیں بلکہ ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے میں بھی اپنا کردار ادا کریں۔

2023ء کو سموگ اور ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف ایمرجنسی کا سال قرار دے کر کام کیا جائے، سموگ سمیت ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کیلئے ٹیکنیکل افراد پر مشتمل سپروائزری کونسل بنائی جائے جس میں انڈسٹری، اکیڈیمیا سمیت مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے ٹیکنیکل افراد اور ماہرین شامل ہوں ، اس سے بہتری آئے گی۔

نسیم الرحمن شاہ
( ڈائریکٹر محکمہ ماحولیات )

پہلے دھند 21دسمبر سے 10 جنوری تک ہوا کرتی تھی اور سب کو معلوم تھا کہ اس دوران موسم کیسا ہوگا اور لوگ سفر وغیرہ میں احتیاط کرتے تھے۔

2016میں پہلی مرتبہ دھند کا دورانیہ بڑھا اور اس کا آغاز دسمبر کے پہلے ہفتے سے ہوا۔ 2017ء میں یہ دورانیہ مزید بڑھا اور اس مرتبہ دھند کا آغاز نومبر کے آخری ہفتے سے ہوا۔ 6 نومبر 2017ء کو پہلی مرتبہ دھند سے آنکھوں میں چبھن ہوئی اور ایسا محسوس ہوا کہ ہوا میں کچھ زہریلا پن موجود ہے۔

2018ء میں 2 نومبر کو سموگ ہوئی۔ 6نومبر 2019ء کو سب سمجھے کہ دھند ہے، پھر سمجھے کہ سموگ ہے لیکن اس روز فضا میں نہ سموگ تھی نہ ہی دھند بلکہ ہر طرف دھواں ہی دھوں تھا جو بارڈر کے اس پار فصلوں کی باقیات کو جلانے سے یہاں پہنچا تھا۔

2020ء میں کرونا آگیا، جس میں سموگ کم ہوئی البتہ 2021ء سموگ کے حوالے سے بدترین سال تھا، جس میں 15اکتوبر سے فروری، مارچ تک سموگ اور دھند کا دورانیہ رہا۔اکتوبر اور نومبر، یہ دو ماہ اہم ہوتے ہیں جن میں موسم بھی تبدیل ہورہا ہوتا ہے۔

دھان کی کٹائی ہوتی ہے اور پھر ساتھ ہی گندم کی بوائی کرنی ہوتی ہے، لہٰذا پاکستان اور بھارت دونوں ممالک میں ہی فصلوں کی باقیات جلائی جاتی ہیں، یہ دھواں ہوا میں معلق ہوجاتا ہے، جس سے سموگ پیدا ہوتی ہے۔اس حوالے سے بھارت اور ہماری پالیسی میں فرق ہے۔ ہمارے ہاں 95 فیصد کسان ایسے ہیں جن کے پاس 2 سے 3 ایکڑ زمین ہے۔

اگر انہیں کٹائی کیلئے جدید مشین کا کہا جاتا ہے تو اس کی قیمت یا کرایہ ان کی پہنچ سے باہر ہوتا ہے۔ اب ہم کوشش کر رہے ہیں کہ یونین کونسل کی سطح پر میکنزم بنایا جائے اور انہیں سبسڈائزڈ ریٹ پر یہ سہولت فراہم کی جائے۔

سموگ ایکشن پلان کے ذریعے ہم نے مئی سے ہی اقدامات کا آغاز کر دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سال سموگ زیادہ نہیں ہوئی بلکہ آئندہ دس روز میں سموگ مزید کم ہوگی اور آنے والے برسوں میں اس میں بتدریج کمی آئے گی۔ہم نے شمالی لاہور، شیخوپورہ، گوجرانولہ و دیگر شہروں میں ‘سموگ سکواڈ‘ تشکیل دیے جو با اختیار ہیں۔

اس حوالے سے بزنس چیمبرز و دیگر سٹیک ہولڈرز سے بھی مشاورت کی گئی تھی، یہ سکواڈ فیکٹریوں ، کارخانوں وغیرہ کا جائزہ لیتے ہیں، جہاں دھواں کنٹرول کرنے کا نظام نصب نہیں ہے اسے نہ صرف سیل کرتے ہیں بلکہ بھاری جرمانہ بھی کرتے ہیں۔

حکومت پنجاب نے ماحولیاتی آلودگی کو روکنے کیلئے خصوصی طور پر فیکٹریوں وغیرہ کیلئے 2 ارب روپے کے فنڈز رکھے ہیں، جو فیکٹری مالکان’امیشن کنٹرول سسٹم‘ نسب نہیں کرسکتے وہ 1 کروڑ20 لاکھ تک آسان قرض لے سکتے ہیں۔

اس سسٹم کے بغیر کسی بھی فیکٹری کو کام کی اجازت نہیں ہوگی، ہماری سکواڈ اسے سیل کر دے گی اور یہی سکواڈ فیکٹری مالک کی جانب سے سسٹم لگانے سے اسے بحال کرنے کا اختیار بھی رکھتی ہے۔

26 اگست سے اب تک 583 فیکٹریوں، کارخانوں سمیت مختلف یونٹس کے خلاف ایکشن لیا گیا اور 34 ملین سے زائد کے جرمانے کیے گئے۔95فیصد بھٹے ’زگ زیگ‘ ٹیکنالوجی پر منتقل ہوچکے ہیں، باقی بھی ہورہے ہیں، آلودگی پھیلانے والے بھٹوں، فیکٹریوں، کارخانوں و دیگر یونٹس کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی ہے۔

چودھری محمد اسلم
( ڈائریکٹر محکمہ موسمیات لاہور)

رواں سال دورانیہ زیادہ ہونے کی وجہ سے گزشتہ برسوں کی نسبت ہوا میں نمی کا تناسب زیادہ ہے۔ مون سون 30 ستمبر تک چلا گیا جس سے موسم میں تبدیلیاں ہوئی ہیں۔

اب اگر آلودگی زیادہ ہوئی تو سموگ بھی زیادہ ہوگی۔ رواں ماہ بارشوں کا کوئی بڑا سسٹم موجود نہیں ہے جس کا مطلب ہے کہ بارشیں معمول سے کم ہوں گی اور آلودگی ہوا میں معلق رہے گی جس کے باعث سموگ کے بڑھنے کے واضح امکانات موجود ہیں، ہمیں اس کیلئے تیار رہنا ہوگا۔

سموگ کے خاتمے کیلئے ہوا کی رفتار کم اور موسم کا مستقل ہونا ضروری ہے مگر اب چونکہ موسم تبدیل ہورہا ہے، نمی آرہی ہے، ہواؤں میں تبدیلی آرہی ہے لہٰذا یہ وقت سموگ کیلئے ماحول سازگار ہے۔ ہر سال اکتوبر اور نومبر میں بھارت میں آلودگی زیادہ ہوتی ہے۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ گرمی سے موسم سردی میں بدل رہا ہوتا ہے اور ا س کے ساتھ ساتھ ہوائیں بھی اپنا رخ موڑتی ہیں،ان مہینوں میں ہوا بھارت سے پاکستان آتی ہے۔

وہاں آبادی زیادہ ہے، آلودگی بھی ہے اور فصلوں کی باقیات بھی جلائی جاتی ہیں۔ آلودگی میں نئی دہلی کا شمار پہلے دو،تین آلودہ شہروں میں ہوتا ہے لہٰذا جب ہوائیں بھارت سے اپنے ساتھ آلودگی لے کر پاکستان آتی ہیں تو نہ صرف ماحول آلودہ کرتی ہیں بلکہ سموگ بنا کر اسے زہریلا کر دیتی ہیں۔

بھارتی پنجاب میں آلودگی زیادہ ہے اور ان ہواؤں کی وجہ سے لاہور بھی آلودہ ہوجاتا ہے۔ اس ایک فیکٹر کی وجہ سے سموگ کا زیاہ مسئلہ ہمارے ہاں صرف پنجاب میں ہی ہوتا ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ ساری آلودگی بھارت سے ہی آتی ہے، ہمارے ہاں بھی فصلوں کی باقیات کو جلایا جاتا ہے لہٰذا دونوں ممالک میں فصلوں کی باقیات کو جلانا ماحولیاتی آلودگی اور سموگ کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس حوالے سے سنجیدگی کے ساتھ بڑے پیمانے پر اقدامات کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔