1992میں ایسا نہیں ہوا تھا

کرکٹ میں اس انداز میں کھیلنے والے بیٹرز کی خامیاں حریف ٹیمیں جلدی پکڑ لیتی ہیں


Saleem Khaliq November 14, 2022
کرکٹ میں اس انداز میں کھیلنے والے بیٹرز کی خامیاں حریف ٹیمیں جلدی پکڑ لیتی ہیں (فوٹو: ٹوئٹر)

شاید سیمی فائنل میں رسائی نہ پانے پر اتنا افسوس نہیں ہوتا جتنا ٹائٹل کے اتنے قریب پہنچ کر محرومی سے ہوا ہے، بھارت اور زمبابوے کیخلاف شکستوں پر شائقین ٹیم سے امیدیں کھو بیٹھے تھے۔

سب کو پہلے راؤنڈ کے بعد واپسی کا یقین ہونے لگا تھا مگر اچانک قسمت کی مہربانی سے غیر متوقع طور پر آخری چار ٹیموں میں شامل ہونے کا موقع مل گیا،پھر نیوزی لینڈ کیخلاف شاندار کارکردگی سے فائنل میں بھی جگہ بنا لی، اب سب ٹرافی گھر آتے دیکھ رہے تھے۔

بعض نے تو ٹیم کوکھلی بس پر لاہور میں چکر لگانے کا پلان بھی بنا لیا تھا لیکن عین وقت پر قسمت ساتھ چھوڑ گئی، بابر اعظم اور محمد رضوان ہماری جوڑی نمبر ون ہیں، دونوں نے ٹیم کو کئی میچز جتوائے مگر بدقسمتی سے ورلڈکپ میں ایسا نہیں ہوا،دونوں کی کارکردگی میں تسلسل کا فقدان نظر آیا۔

سوائے نیوزی لینڈ کیخلاف میچ کے بابر اور رضوان نے زیادہ تر مایوس ہی کیا،سب جانتے ہیں کہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں پاور پلے کی کتنی اہمیت ہے،خود بابر نے میچ سے قبل اس کا تذکرہ کیا تھا مگر انگلینڈ کے خلاف فائنل میں صرف 39 رنز ہی بن سکے۔

پاور پلے میں18 ڈاٹ بالز تو جرم ہے،ہماری عادت ہے کہ بہت جلدی کھلاڑیوں کو آسمان پر چڑھا دیتے ہیں، محمد حارث کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا مگر فائنل میں وہ توقعات پر پورا نہ اتر سکے، شان مسعود کے اعدادوشمار تو بہتر لگتے ہیں مگر ان کی کارکردگی ایسی نہیں رہی کہ حریف پر مکمل حاوی ہو جائیں،7 میچز میں وہ ایک ففٹی بنا سکے اور بعض اوقات بیٹنگ سلو بھی لگی۔

افتخار احمد اورمحمد نواز سے بڑی امیدیں تھیں مگر بدقسمتی سے دونوں ناکام رہے، شاداب خان کے بڑی اننگز کی جانب بڑھتے قدم بھی اچانک رک گئے، اختتامی اوورز میں ٹیمیں تیز کھیل کر اسکور آگے بڑھاتی ہیں ہم سے چھکے تو دور چوکے بھی نہ لگے۔

ایک باؤنڈری ایج پر لگی، بیٹرز نے یہ نہ سوچا کہ یہ بڑی باؤنڈریز والا ایم سی جی ہے اور اونچے شاٹ کھیل کر وکٹیں گنواتے رہے، گیپس تلاش کر کے چوکوں کی جانب توجہ نہ دی،137رنز بننے کے باوجود مجھ سمیت دیگر پاکستانیوں کو امید تھی کہ ہماری بولنگ کم اسکور کا بھی دفاع کر لے گی مگراس کے لیے ضروری تھا کہ فیلڈرز بھی ساتھ دیتے، بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا، رن آؤٹ کے کئی مواقع گنوائے گئے۔

شکست کے بعد بابر اعظم اور شائقین کرکٹ یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر شاہین شاہ آفریدی انجرڈ نہ ہوتے تو پاکستان ورلڈکپ جیت جاتا،شاید ایسا ہی ہوتا لیکن سوال یہ سامنے آتا ہے کہ پیسر فٹ کب تھے؟ انھیں جلد بازی میں جب میدان میں اتارا گیا تو اعتراضات بھی سامنے آئے ، اس پر یہ موقف اپنایا گیا کہ شاہین اب ٹھیک ہیں اور ردھم میں آنے میں کچھ وقت لگے گا۔

پھر جب انھوں نے بہتر پرفارم کرنا شروع کیا تو فٹنس پر سوال اٹھانے والے ہی تنقید کی زد میں آگئے، سب جانتے ہیں کہ گھٹنے کی خطرناک انجری سے مکمل صحتیابی میں وقت لگتا ہے، شاہین کے کیرئیر پر ورلڈکپ کوترجیح دی گئی، وہ ایک فائٹر کرکٹر اور ٹیم کے لیے ہر وقت کچھ کر دکھانے کیلیے بے چین رہتے ہیں۔

فائنل میں بھی انجری کے باوجود نتائج کی پروا نہ کرتے ہوئے بولنگ کرنے آ گئے اور ایک گیند بعد واپس جانا پڑا،ٹیم مینجمنٹ کیا کر رہی تھی؟ کیوں شاہین کے حوالے سے خطرہ مول لیا گیا، وہ لنگڑاتے ہوئے فیلڈ سے باہر گئے تھے، کون سا جادوئی ٹریٹمنٹ کر کے چند منٹ میں دوبارہ میدان میں اتارا گیا؟ شارٹ ٹرم فوائد کا سوچنے سے بڑا نقصان بھی ہو سکتا ہے۔

اب گانے چلائے جا رہے ہیں کہ ''تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے'' پیار تو ضرور ہے لیکن ہارے کیوں اس کی وجوہات جاننا بھی ضروری ہے،ثقلین مشتاق اور محمد یوسف سے زیادہ متحرک تو مینٹور میتھیو ہیڈن نظر آئے، ٹیم کیلیے کسی غیرملکی ہیڈ کوچ کا ہی تقرر کرنا چاہیے، بابر اعظم کی کپتانی میں بھی خامیاں نظر آئیں۔

اہم مواقع پر انھوں نے بروقت فیصلوں سے گریز کیا اورجو پہلے سے طے کیا تھا اسی پر عمل کرتے رہے، ظاہری طور پر کپتانی کے دباؤ سے ان کی بیٹنگ متاثر ہونا شروع ہو گئی ہے،اب شاداب خان کو گروم کرنا شروع کر دینا چاہیے،ہمارے لیے کپتان بابر اعظم سے بیٹر بابر اعظم زیادہ اہم ہے۔

چیف سلیکٹر محمد وسیم کو بھی اب گھر بھیجنا مناسب ہوگا، جب ٹیم 2 میچز ہاری تو وہ انڈر گراؤنڈ ہو گئے، پھر سیمی فائنل میں رسائی کے بعد باہر آئے لیکن انھیں کس بات کا کریڈٹ دیا جائے، خوشدل شاہ، آصف علی، حیدر علی جیسے کھلاڑیوں کو منتخب کرنے کا؟ یا مکمل فٹ نہ ہونے کے باوجود فخر زمان کو سلیکٹ کرنے پر تعریفیں کریں، سب جانتے ہیں محمد حارث کو رمیز راجہ نے سرفراز احمد کو ٹیم سے دور رکھنے کیلیے منتخب کرایا اور خوش قسمتی سے انھوں نے 4 میچز میں 97 رنز بھی بنا دیے۔

بے خوفی ان کی سب سے بڑی خوبی نظر آئی لیکن کرکٹ میں اس انداز میں کھیلنے والے بیٹرز کی خامیاں حریف ٹیمیں جلدی پکڑ لیتی ہیں، یہی حارث کے ساتھ فائنل میں ہوا، آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے لہذا پی سی بی نے ہوا کا رخ موڑنے کی کوشش شروع کر دی،فائٹ ضرور کی لیکن ٹیم ہار گئی اس سے انکار نہیں مگر اب بہتری کیلیے اقدامات کرنے ہوں گے۔

ہم نیدرلینڈز کی مہربانی سے سیمی فائنل میں پہنچے ورنہ 90 فیصد تو پہلے ہی باہر ہو چکے تھے، مسائل جوں کے توں موجود ہیں، لڑ کر ہارے ہیں کا بیانہ اپنا کر خامیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش درست نہ ہو گی، حقیقت پسندانہ تجزیہ کریں، چیف سلیکٹراور کوچنگ پینل سمیت جہاں تبدیلی ضروری ہو وہ کرنی چاہیے۔

بابر سے خود پوچھیں کہ کیا وہ کپتانی جاری رکھنا چاہتے ہیں، اگر ٹی ٹوئنٹی کی حد تک ہی شاداب کو ذمہ داری سونپ دی جائے تو بہتر رہے گا، خیر دیکھتے ہیں بورڈ کیا کرتا ہے، ورنہ ''تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے'' سن کر ہی دل بہلاتے رہیں،1992میں یہی ہوا تھا ہم یہ سن کر خوش ہوتے رہے مگر فائنل کی ناکامی سے احساس ہوا کہ 1992 میں ایسا نہیں ہوا تھا۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

مقبول خبریں