سیاسی مفاہمت کا کوئی امکان نہیں

مزمل سہروردی  بدھ 16 نومبر 2022
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

آج کل تحریک انصاف کے حلقوں میں سیاسی مفاہمت کی خبریں چل رہی ہیں۔تحریک انصاف کے اندر ایسا تاثر موجود ہے کہ سیاسی مفاہمت ہو گئی ہے۔

قبل از وقت انتخابات کی شرط پر کچھ کچھ لو اور کچھ دو کے فارمولے کے تحت کوئی مفاہمت ہوگئی ہے۔ دو ماہ قبل انتخابات پر معاہدے کی بات ہو گئی ہے۔ دیگر شرائط پر بھی پیش رفت کی خبریں ہیں۔ ویسے تو چند دن قبل ملک میں مارشل لاء کی بھی خبریں تھیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے موجودہ سیاسی منظر نامے میں عمران خان اور حکومت کے درمیان مفاہمت کا کوئی امکان نہیں ہے،لہٰذا ایسی سب خبریں غلط ہیں۔ فریقین ایک دوسرے کو ایک انچ جگہ دینے کے لیے تیار نہیں، ایسے میں مفاہمت کیسے ممکن ہے۔

اب فیصلہ فتح یا شکست سے ہی ہوگا ، کوئی درمیانی راستہ نہیں ہے نہ تو عمران خان اس پوزیشن میں ہیں کہ حکومت کو کوئی لچک دکھا سکیں اور نہ ہی حکمران اتحاد اس پوزیشن میں ہے کہ عمران خان کو کوئی محفوظ راستہ دیا جا سکے۔

عمران خان معاملات کو اس نہج پر لے گئے ہیں کہ اب مذاکرات سے معاملے کاحل نکالنے کی کوئی امید نہیں ہے۔ ویسے تو کہا جاتا ہے کہ مفاہمت میں فریقین کی زندگی ہوتی ہے لیکن جب مفاہمت سیاسی موت بن جائے تو پھر مفاہمت اپنی موت آپ مر جاتی ہے۔آج مفاہمت زندگی کے بجائے سیاسی موت بن گئی ہے اور کوئی سیاسی جماعت اپنی سیاست کا خاتمہ نہیں کرسکتی۔

عمران خان کی کوشش تھی کہ وہ حالات کو اس نہج پر لے جائیں جہاں تیسرا فریق ان کی مرضی کی مفاہمت کرانے پر مجبور ہو جائے۔ اسی کوشش میں انھوں نے معاملات کو سطح پر پہنچا دیا جہاں کسی کے لیے بھی مفاہمت کرانا ممکن نہیں رہا ہے۔

اس لیے عمران خان کی یہ کوشش کہ اسٹبلشمنٹ کوئی درمیانی راستہ نکلوائے گی ناکام ہوگئی ہے۔ یہی ان کا اصل کارڈ تھا اور یہ کارڈ ناکام ہو گیا ہے۔ جب اسٹبلشمنٹ نے تمام تر پریشر کے باوجود کوئی بھی کردار ادا کرنے سے انکار کر دیا تو یہی حکمران اتحاد کی جیت بن گئی ۔

عمران خان نے سڑکیں گرم کرکے اپنے اہداف حاصل کرنے کی جتنی بھی کوشش کی ہے وہ اب ناکام ہوتی نظر آرہی ہیں۔ وہ اپنے مارچ کو اسلام آباد لے جائیں یا نہ لے کر جائیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ عمران خان کے مارچ کا اسلام آباد پہنچنا بے معنی ہو گیا ہے۔ وہ لاکھوں لے کر پہنچ بھی جائیں تب بھی کچھ نہیں ہوگا اور اگر نہ لے کر جائیں تب بھی کچھ نہیں ہوگا۔ کوئی ان کی منت سماجت نہیں کر رہا ہے کہ وہ اسلام آباد نہ آئیں ۔

ایک طرف عمران خان اسلام آباد جانے کی کوئی تاریخ نہیں دے پا رہے تو دوسری طرف بھی کوئی جلدی نہیں لگ رہی ہے۔ عمران خان نے پنڈی میں مارچ کی بھی بہت دھمکی دی ہے لیکن ان کی یہ دھمکی بھی کام نہیں آئی۔

پنڈی مارچ سے بھی پنڈی والوں کو فرق نہیں پڑا۔وہ مارچ پنڈی میں کریں یا اسلام آباد میں لیکن مفاہمت کا کوئی امکان نہیں۔ تحریک انصاف اسلام آباد ما رچ کو پہلے بھی کسی مفاہمت کے انتظار میں لیٹ کر رہی تھی، اب بھی کسی مفاہمت کے انتظار میں ہی لیٹ کر رہی ہے تاکہ کوئی بیچ بچاؤ کر ادے، اب یہی کوشش ہے لیکن ایسا نہیں ہو رہا۔ جب سے عمران خان زخمی ہوئے ہیں تب سے مارچ میں جوش وخروش بھی ختم ہوگیا ہے۔ عمران خان کی بی ٹیم مکمل طور پر ناکام نظر آئی ہے۔ لوگوں شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کو سننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

عمران خان کے وڈیو خطاب کا جادو بھی نہیں چل رہا۔ عوام کی کم تعداد نے حکمران اتحاد کے حوصلے بلند کر دیے ہیں۔ جیسے جیسے لوگوں کی تعداد کم ہو رہی ہے ویسے ویسے مفاہمت کے امکانات بھی کم ہو رہے ہیں۔

عمران خان کے پاس ایک ہی آپشن ہے کہ وہ لوگوں کی اتنی بڑی تعداد لے کر اسلام آباد پہنچ جائیں کہ سب ادارے شکست کھا جائیں، وہ پارلیمان پر قبضہ کرلیں، ایوان وزیر اعظم پر قبضہ کر لیں اور سرکاری نشریاتی اداروں پر کنٹرول حاصل کرکے اپنی حکومت کا خود ہی اعلان کر دیں۔ عمران خان بار بار سری لنکا کی مثال دیتے ہیں، لگتا ہے کہ پاکستان کو سری لنکا بنانا ہی ان کا ٹارگٹ ہے۔

شاید وہ چاہتے ہیں جیسے سری لنکا دیوالیہ ہوا، پاکستان بھی دیوالیہ ہو، سری لنکا بپھرے ہوئے عوام نے لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر آکر حکمرانوں کو اٹھا کر باہر پھینک دیا تھا، ایسے ہی وہ بھی عوامی طاقت سے موجودہ حکمرانوں کو اٹھا کر پھینکنا چاہتے تھے اور بھی ایسا ہی کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ مطلوبہ عوامی طاقت باہر نہیں نکال سکے ہیں۔ وہ کوشش کے باوجود پاکستان کو سری لنکا نہیں بنا سکے ہیں، اس لیے ان سے مفاہمت بھی نہیں ہو رہی۔

ایسے میں سوال ہے کہ اس مارچ کے آخری مرحلے میںکیا ہوگا؟جب عمران خان پورے ملک سے لوگ پنڈی میں جمع کریں گے اور اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے تو کیا ہوگا ۔ کیا تب بھی مفاہمت نہیں ہوگی۔ ویسے تو قوی امکان ہے کہ عمران خان پہلے ہی اس مارچ کو ختم کر دیں گے۔

اب لگ رہا ہے کہ وہ اس مارچ سے جان چھڑانا چاہتے ہیں لیکن یہ مارچ ان کی جان نہیں چھوڑ رہا۔ تا ہم وہ جتنے بھی لوگ لے آئیں، مفاہمت کا پھر بھی کوئی امکان نہیں۔ فیصلہ فتح یا شکست سے ہی ہوگا۔

عمران خان اگر حکمرانوں کو اٹھا کر باہر بھی پھینک دیں تب بھی مفاہمت کو کوئی امکان نہیں۔ اسی طرح اگر عمران خان کو شکست فاش ہو جائے تب بھی مفاہمت کا کوئی امکان نہیں۔ بلاشبہ سیاست میں ایسا نہیں ہوتا لیکن پاکستان میں اب سیاست نہیں رہی ہے۔ کوئی بھی دوسرے کو زندگی دینے کے لیے تیار نہیں۔ سب کو ایک دوسرے کا سر ہی چاہیے۔

ماضی میں جو مفاہمت کراتے تھے وہ بھی مفاہمت سے توبہ کر گئے ہیں۔ اس لیے عمران خان بے شک اپنے لوگوں کو حوصلہ دینے کے لیے مفاہمت کی بازگشت سناتے رہیں۔

ایسی خبریں بھی چلائی جائیں کہ کوئی اہم ملاقات ہو گئی ہے، بات قریب ہے۔ لیکن بات بہت دور چلی گئی ہے۔ اب عمران خان کو آخری زور لگانا ہوگا، درمیان کا کوئی راستہ نہیں، ان کا اسلام آباد میں انتظار ہو رہا ہے، وہ آئیں یا نہ آئیں ان کی مرضی۔ نہ تو کوئی ان کو روک رہا ہے اور نہ ہی کوئی ان سے مذاکرات کرنے کو تیار ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔