سارا معاملہ ’’فرینڈلی‘‘ ہو گیا

نصرت جاوید  جمعـء 28 مارچ 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

اپنی ذات سے بالاتر ہو کر دور تک نگاہ رکھتے ہوئے کھلے دل کے ساتھ ہمارے سیاستدانوں کو بروقت صحیح فیصلے کرنے کی عادت نہیں۔ لمحوں کی خطائیں جب کچھ وقت گزرنے کے بعد اپنے نتائج دکھانا شروع ہو جاتی ہیں تو اس وقت بھی ہمارا کوئی رہنما اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے کی جرأت نہیں دکھاتا۔ 2009کے دوران مجھے نواز شریف صاحب کے ساتھ ہونے والی کچھ ملاقاتیں پوری طرح یاد ہیں۔ باقاعدہ انٹرویو دینے کے بعد وہ ’’آف دی ریکارڈ‘‘ لمحات میں صرف اس بات پر تاسف کا اظہار کرنے تک محدود رہتے کہ جنرل مشرف کو آصف زرداری نے گارڈ آف آنر دے کر ایوانِ صدر سے کیوں بھجوا دیا؟ اس پر بغاوت کا مقدمہ کیوں نہ چلایا گیا؟ یہ دو سوالات تھے جن کو وہ مسلسل دہراتے رہتے۔ آصف زرداری سے کہیں زیادہ افسوس انھیں اس بات پر محسوس ہوتا رہا کہ 2008 کے انتخابات ہو جانے کے چند روز بعد اسفندیار ولی ان سے ملنے آئے تھے۔ خان عبدالولی خان کی نواز شریف دل سے عزت کرتے تھے اور بقول ان کے اسفندیار نے اپنی خاندانی روایات نبھاتے ہوئے محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف اپوزیشن کے دنوں میں ان کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ انھیں بہت دُکھ ہوا جب ’’اسفندیار جیسا‘‘ جمہوریت پسند نواز شریف کو اس بات پر قائل کرنے لگا کہ پرویز مشرف کے اقدامات کو ویسی ہی Indemnity فراہم کر دی جائے جو 2002 کے انتخابات کے بعد منتخب ہونے والی اسمبلی نے 12 اکتوبر 1999کے دن اور اس کے بعد لیے جانے والے اقدامات کے بارے میں جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمن کی جمعیت کے ووٹوں سمیت مہیا کی تھی۔

اسفندیار ولی نے نواز شریف کی سنائی کہانی کی کبھی تردید نہیں کی۔ مگر وہ اس ملاقات کی تفصیل بھی کسی کو نہیں سناتے جو ان کے اور نواز شریف کے درمیان جنرل مشرف کے موضوع پر ہوئی تھی۔ اے این پی کے رہنما دوستوں کے درمیان بیٹھے البتہ اس بات کا ہمیشہ اعتراف کرتے ہیں کہ وہ افتخار چوہدری کے بطور چیف جسٹس بحالی کے بالکل حامی نہ تھے۔ ان کی مخالفت کی وجوہات مگر قطعی طور پر غیر جذباتی اور بالکل سیاسی تھیں۔ اسفندیار ولی خان کو خدشہ تھا کہ اپنے عہدے پر بحال ہو جانے کے بعد افتخار چوہدری خود کو ’’مسیحا‘‘ سمجھنا شروع ہو جائیں گے اور ووٹوں کے ذریعے منتخب ہوئے اداروں کو مستحکم نہ ہونے دیں گے۔ 2009کے بعد تقریباََ دو سال تک میں دل ہی دل میں اسفندیار ولی کی افتخار چوہدری کے بارے میں سوچ پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتا رہا۔ بہت دیر بعد دریافت کر پایا کہ اپنی سوچ میں وہ اتنے غلط بھی نہ تھے۔ افتخار چوہدری صاحب کے حوالے ہی سے میں آج تک سمجھ نہیں پایا کہ آصف علی زرداری ان کی بحالی کے اتنے مخالف کیوں تھے۔ غلط یا صحیح وجوہات کی بنیاد پر اگر ان کو بحال نہ کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا تھا تو پھر اس وقت کیوں مان گئے جب نواز شریف ان کی بحالی کے لیے ایک جلوس لے کر گوجرانوالہ تک پہنچ چکے تھے۔ جو سوالات میرے ذہن میں اکثر آتے ہیں انھیں ’’ماضی کی باتیں‘‘ کہتے ہوئے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ گاڑی چلاتے ہوئے آپ بخیر و عافیت اپنی منزل تک پہنچ ہی نہیں سکتے اگر بیک مرر پر نگاہ ڈالتے ہوئے پیچھے آنے والی ٹریفک کا مسلسل جائزہ نہ لیا جائے۔

جنرل مشرف کا قصہ ہی لے لیں۔ اقتدار میں اب پیپلز پارٹی نہیں نواز شریف صاحب بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کی حکومت اتحادی ووٹوں کی محتاج بھی نہیں۔ سہولت کا یہ عالم ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے نامزد کردہ کچھ لوگ کابینہ کا حصہ بنائے گئے ہیں۔ انھیں مگر ابھی تک کوئی محکمے تفویض نہیں ہوئے۔ طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن کے اصل حریف مولانا سمیع الحق بھی ان دنوں ’’پاپائے مذاکرات‘‘ بنے ہوئے ہیں۔ فضل ا لرحمن وقتاََ فوقتاََ طعنے مہنے والے بیانات تو دیتے رہتے ہیں مگر نواز حکومت کا بدستور حصہ بھی بنے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی تو عرصہ ہوا اپوزیشن والی سیاست کرنا بھول چکی ہے۔ انتہائی فرماں برداری سے اسی تنخواہ پر گزارہ کر رہی ہے۔ نواز حکومت کو اصل خطرہ ’’مک مکا کی سیاست‘‘ کو ختم کرنے کے نام پر ابھرنے والے عمران خان سے تھا۔ نواز حکومت کے ابتدائی ایام میں ’’تبدیلی کے نشان‘‘ نے اپنا کچھ جلوہ بھی دکھایا اور پھر پنکچروں والی کہانی کی بدولت مارچ/اپریل کے مہینوں میں دمادم مست قلندر وغیرہ کے اشارے بھی دیے۔ مگر پھر یہ ہوا کہ نواز شریف طالبان سے مذاکرات پر اپنی ہی جماعت کے کافی لوگوں کی مخالفت کے باوجود آمادہ ہو گئے۔ چوہدری نثار علی خان نے نواز شریف کو ایک جیپ میں بٹھایا اور اسے خود چلاتے ہوئے بنی گالہ پہنچ گئے۔ وہاں نواز شریف صاحب نے عمران خان کے جوتوں کی تعریف کی۔ عمران خان نے اپنے گھر کے نواح میں ’’قبضہ گروپ‘‘ کی کارستانیوں کا گِلہ کیا۔ سارا معاملہ ’’فرینڈلی‘‘ ہو گیا۔ نواز حکومت مطمئن ہو گئی۔

اپنے ان دنوں کے اطمینان اور بظاہر استحکام کے باوجود یہی نواز حکومت جنرل مشرف کے تناظر میں مضحکہ خیز حد تک بے بس نظر آتی ہے۔ درست ہے کہ ان کا معاملہ عدالت میں ہے۔ مگر وہ اسپتال کیسے پہنچ گئے اور میرے اس کالم کے لکھنے تک وہاں کیوں ٹکے بیٹھے ہیں اس کا جواب کسی کے پاس بھی نہیں۔ ایسے حالات میں جب تین اعلیٰ عہدوں پر فائز سرکاری افسران کے ساتھ حکومتی کمیٹی براہِ راست مذاکرات کے لیے تھل میر علی روڈ کے اوپر ایک ’’نامعلوم مقام‘‘ پر پہنچتی ہے تو پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ یہ کمیٹی کتنی ’’بااختیار‘‘ ہے۔ سوال اٹھانے والوں کے اطمینان کے لیے وزیر داخلہ صاحب سے فون پر رابطہ کرنا پڑتا ہے۔ وہ یقین دلاتے ہیں کہ ان کی طرف سے بھیجے گئے لوگ کوئی بھی فیصلہ کرنے کا مکمل اختیار رکھتے ہیں تو بات آگے بڑھتی ہے۔ مگر سات گھنٹے بات چیت کے بعد اسی ’’بااختیار‘‘ کمیٹی کو طویل مشاورت کے لیے اسلام آباد لوٹنا پڑتا ہے۔ کہیں نہ کہیں کوئی شے گڑبڑ ہے جس کی وجہ سے خلقِ خدا سمجھ نہیں پا رہی کہ اصل قوت و اقتدار اس ملک میں کہاں اور کس کے پاس ہے۔

قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بیٹھے ہمارے سیاستدانوں کو مگر اس ضمن میں لوگوں میں پائے جانے والے شکوک و شبہات کا اندازہ ہی نہیں۔ ڈیڑھ ارب ڈالر کیوں ملے والے سوال سے فرصت ملے تو غصے سے تلملاتے ہوئے پوچھنا شروع ہو جاتے ہیں کہ ابھی تک امریکی حکومت کے کسی ذمے دار نے حکومتِ پاکستان کو کیوں نہیں بتایا کہ پاکستان کی خود مختار پارلیمان کے ایک انتہائی انقلابی رکن شیخ رشید احمد کو امریکی فضائی حدود سے گزر کر کینیڈا جانے والے جہاز میں سوار کیوں نہیں ہونے دیا گیا۔ لاہور کی گلیوں میں اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ محلے میں عزت کروانے کے خواہش مندوں کو پہلے اپنے ہی گھر میں ان کی ذات کے لیے پائی جانے والی عزت کا بھرپور احساس دلوانا چاہیے۔ کسی طرح قوم کو یہ بتا دیں کہ جنرل مشرف عدالت آتے ہوئے راولپنڈی کی جانب کیوں مڑ گئے اور وہاں بغیر کسی ٹھوس وجہ کے اتنے دن کیوں براجمان رہے تو شاید وزیر داخلہ کو حکومت سے مذاکرات کرنے والوں کو اپنی کمیٹی کے با اختیار ہونے کا یقین بھی نہ دلانا پڑے اور اس کے نتیجے میں بالآخر امریکی حکومت بھی شیخ صاحب سے معذرت کا اظہار کر بیٹھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔