صحت عامہ کے درد انگیز مسائل

ایم آئی خلیل  ہفتہ 29 مارچ 2014

پاکستان ان ملکوں میں شامل ہے جہاں بچوں میں اموات کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ 2013 کے ایک جائزے کے مطابق 5 سال تک کے بچوں میں اموات کی شرح 1000 میں سے 72 بچے 5 سال کی عمر تک پہنچنے تک مختلف بیماریوں کے باعث ہلاک ہوجاتے ہیں۔ جب کہ بنگلہ دیش میں ہزار میں سے 46 بچے موت کا شکارہوجاتے ہیں،نیپال میں 5سال کی عمر تک کے 1000بچوں میں سے 48 موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور بھوٹان میں بچوں کی تعداد 54 فی ہزار بتائی جاتی ہے، چائنا میں 15 فی ہزار اور تھائی لینڈ میں 5سال تک کی عمر کے ہزار میں سے 12بچے موت کی وادی میں کھوجاتے ہیں۔ اس طرح خطے کے دیگر ملکوں کی نسبت پاکستان کی حالت انتہائی مخدوش ہے، تھر میں جاری قحط غذائی قلت، صحت کی عدم سہولیات اور بچوں کی شرح اموات میں تیزی سے اضافے کی ایک اہم وجہ صحت کی سہولیات کی عدم فراہمی، ڈاکٹروں کی عدم دستیابی بھی ہے۔ ملک میں ہر سال ہزاروں ڈاکٹرز اپنی تعلیم مکمل کرلیتے ہیں جن کی اکثریت فیملی ڈاکٹرز کی ہوتی ہیں جن میں سے بیشتر کسی بھی جگہ ملازمت اختیار نہیں کرتیں۔بیشتر میل ڈاکٹرز کی اولین خواہش اور ترجیح یہی ہوتی ہے کہ وہ فوری طور پر بیرون ملک روانہ ہوجائیں، نیز جو ڈاکٹرز سرکاری اسپتالوں میں سروس کے خواہش مند ہوتے ہیں وہ اپنی پوسٹنگ بڑے شہروں میں کرالیتے ہیں،لہٰذا دیہی علاقوں کے صحت مراکز وغیرہ بغیرکوالیفائیڈ ڈاکٹر کے انتہائی خراب ترین حالات میں اپنا کام کر رہے ہوتے ہیں اگر ڈاکٹر کہیں موجود بھی ہے تو دیگر عملہ موجود نہیں ہوتا یا پھر اپنی ڈیوٹیاں صحیح طور پر ادا نہیں کرتے۔اگر کوئی ڈاکٹر دیہی علاقوں میں جانے پر رضامند بھی ہوجائے تو اکثر و بیشتر وقت شہر میں ہی گزارتا ہے۔ تھر کے معاملے میں صحت کے شعبے میں انتہائی بد ترین حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بالآخر صوبائی حکومت کو یہ کہنا پڑا کہ تھر سے تعلق رکھنے والے فارغ التحصیل ڈاکٹرزکچھ عرصے کے لیے تھر کے دیہی علاقوں میں خدمات انجام دیں۔ صحت کے شعبے میں تھر کے علاقے میں عدم توجہی اور گڈ گورننس نہ ہونے کے باعث جہاں چند ماہ میں ہی 200 سے زائد بچے مختلف بیماریوں کا شکار ہوکر لقمہ اجل بن گئے وہاں گڈ گورننس نہ ہونے کے باعث ہزاروں بوریاں گندم غریب قحط زدہ عوام میں تقسیم بھی نہ ہوسکی اور ہزاروں بوریاں خراب ہونے کے باعث بعض علاقوں میں تلف کرنا پڑیں۔ گزشتہ دنوں سندھ کے ایک علاقے سے اس قسم کی اطلاع موصول ہوئی تھی کہ ہزاروں بوریوں میں پڑی گندم گل سڑکر ناقابل استعمال ہوچکی ہے۔

تھر ہو یا چولستان یا پھر ملک کے دور دراز دیہی علاقے ہر جگہ صحت عامہ کے بے شمار مسائل ہیں۔ اگر ملک میں ڈاکٹرز کی تعداد کا جائزہ لیا جائے تو 2013 تک رجسٹرڈ ڈاکٹرز کی تعداد ایک لاکھ 60 ہزار سے بھی زائد ہیں۔ 12 ہزار سے زائد رجسٹرڈ ڈینٹسٹ ڈاکٹرز ہیں، 80 ہزار سے بھی زائد نرسز ہیں، اگرچہ ملکی آبادی کے لحاظ سے یہ تعداد زیادہ نہیں ہے لیکن اگر صحت کا شعبہ اپنی کارکردگی میں اضافہ دکھاتا ہے۔ صحت کے شعبے میں گڈ گورننس کے ذریعے مطلوبہ کارکردگی حاصل کرکے عوام کے صحت عامہ کے مسائل کو بآسانی حل کیا جاسکتا ہے۔ ملک میں ایک ہزار سے بھی زائد اسپتال میں ایک لاکھ 10 ہزار سے زائد بیڈز موجود ہیں،5 ہزار سے زائد سرکاری ڈسپنسریاں موجود ہیں، رورل ہیلتھ سینٹر کی تعداد تین ہزار سے بھی زائد ہے ملک بھر میں ساڑھے تین سو سے زائد ٹی بی کلینک موجود ہیں لیکن اکثر بنیادی صحت کے مراکز یا تو بند ہوتے ہیں یا پھر وہاں ایک کمپوڈر کے ذریعے کام چلایا جاتا ہے، وہی شخص ڈاکٹر کی سیٹ پر بیٹھ کر صحت کے بڑے بڑے مسائل پر مشورے دے رہا ہوتا ہے۔ دوائیں دے رہا ہوتا ہے یا پھر اگر ڈاکٹر موجود ہے لیکن ادویات کی شدید قلت بھی پائی جاتی ہے۔ مریضوں کو اپنے پیسے خرچ کرکے ہی دوائیں خریدنا ہوتی ہیں اور صحت کے مسائل جوں کے توں ہی رہتے ہیں۔

پاکستان میں معاشی ترقی کا بڑا غلغلہ رہتا ہے لیکن یہ معاشی ترقی کی شرح افزائش لوگوں کے معیار زندگی میں اضافے کے بغیر ہے۔ ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ معاشی ترقی اسی وقت مانی جائے گی جب لوگوں کا معیار زندگی بلند ہوگا اور معیار زندگی اسی وقت بلند ہوگا جب لوگوں کو صحت کی سہولیات بھی حاصل ہوںگی۔ جس ملک میں لوگوں کو صحت، تعلیم، بہتر خوراک، صاف پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کی بہتر سہولیات میسر ہوںگی اس ملک کے باشندوں کے معیار زندگی بہتر ہوگا، تھر کا اولین مسئلہ یہی تھا کہ وہاں پر خشک سالی کے باعث کنویں خشک ہوگئے، لوگ اسی جوہڑ اور تالاب سے پانی پینے پر مجبور ہوگئے جہاں سے جانور اپنی پاس بجھاتے رہے پھر ایسی صورت حال پیدا ہوگئی کہ تعفن زدہ پانی پی کر ہزاروں مویشی مرنے لگے اور انسان مختلف بیماریوں کا شکار ہوکر جب اسپتالوں کا رخ کرتے تو وہاں انھیں شدید اذیت کا سامنا کرنا پڑتا۔ دوسری طرف قحط کے باعث خوراک کی قیمتوں میں اتنا زیادہ اضافہ ہوگیا کہ آٹا بھی عوام کی دسترس سے دور ہوگیا۔

حکومت اگر آٹا دور دراز علاقوں تک کم سے کم نرخ میں بھی فراہم کردیتی تو غذائی قلت بھوک سے اتنے افراد ہلاک نہ ہوتے اور نہ ہی اتنے زیادہ بچے موت کا شکار ہوکر رہتے۔ جن ملکوں میں ناکافی صحت کی سہولیات ہوتی ہیں، جس کے باعث لوگوں کو اپنی تمام جمع پونجی یا اس کا بیشتر حصہ صحت کے لیے خرچ کرنا پڑتاہے یا پھر ادھار لے کر صحت کے مسائل حل کرنا پڑتے ہیں، تھر کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ بعض دور دراز علاقوں سے مریض کو ڈاکٹر تک لے جانے کے لیے ٹیکسی کا کرایہ ہی تین سے چار ہزار روپے ادا کرنا پڑتا ہے اور پھر اسپتال آنے کے بعد مسئلہ حل نہیں ہوتا بلکہ ہزاروں روپے کی دوا بھی خریدنا پڑتی ہے۔ جب صحت کے لیے اتنے اخراجات برداشت کرنا پڑتے ہیں تو اس ملک کے لوگوں کی جیب پر بوجھ پڑنے کے باعث دیگر اشیا کے لیے ان کی قوت خرید جواب دے جاتی ہے۔ اگر صاف پانی ہی ملک کے ہر علاقے میں فراہم کردیا جائے، صوبائی حکومتیں صاف پانی کی فراہمی کی مد میں دیے گئے بجٹ کی سخت ترین مانیٹرنگ کرے، نکاسی آب کے منصوبوں پر جو رقم رکھی جائے اس کا بالکل صحیح معنوں میں استعمال ہو تو ایسی صورت میں لوگ کم سے کم بیماریوں کا شکار ہوں گے، کم لوگ اسپتال جائیں گے، بالآخر بچوں میں اموات کی شرح میں بھی کمی آئے گی۔ 18 ویں ترمیم کے بعد پبلک ہیلتھ سیکٹر کی تمام تر ذمے داریاں صوبائی حکومت کے حوالے کردی گئی تھی۔ صوبائی حکومت کو اپنی بھرپور ذمے داریوں کو نبھاتے ہوئے ہر شہر، گاؤں، دیہات، قریہ قریہ، بستی بستی صاف اور میٹھے پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے ساتھ نکاسی آب کے انتظام کو بھی بہت زیادہ بہتر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کے لیے صحت عامہ کے مسائل میں کمی واقع ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔