دولت کا بہترین مصرف

ڈاکٹر سیمویل ایم بسٹ  ہفتہ 29 مارچ 2014
امریکہ کی مادیت پسندی کو روحانیت کی ضرورت ہے. فوٹو : فائل

امریکہ کی مادیت پسندی کو روحانیت کی ضرورت ہے. فوٹو : فائل

ڈاکٹر سیموئل ایم۔ بسٹ کا بچپن چھوٹے سے گاؤں میں گزرا۔ محنت و مشقت کر کے اسکول کی تعلیم حاصل کی، پھر کالج سے فارمیسی کی ڈگری لے کر کیوٹی کیورا کارپوریشن میں ملازم ہوئے اور بہت جلد کمپنی کے صدر بن گئے۔ کاروباری دنیا میں انھیں جو کامیابی حاصل ہوئی انھوں نے اسے دوسروں کی مدد کرنے کا ذریعہ بنایا۔ زیر نظر تحریر میں انہوں نے اس حوالے سے اپنے خیالات کا ذکر کیا ہے۔

کئی سال گزرے مجھے ایک شخص ملا جس کے بے مثل فلسفے نے مجھ پر ایسا خوش گوار اثر ڈالا کہ زندگی کی ساری بے چینی اور پریشانی‘ خوشی اور سکون میں تبدیل ہو گئی اور مجھے اتنی کامیابی نصیب ہوئی جس کی کبھی توقع نہ کی جاسکتی تھی۔ یہ شخص جارج رابرٹ وائیٹ تھا جو بچپن ہی میں یتیم ہو گیا، جس کا لڑکپن بڑی غریبی میں گزرا لیکن جس کے خداداد عقیدوں نے فقط تیس سال کی عمر میں اسے دنیوی و روحانی دولتوں سے مالا مال کر دیا۔

میں نے اپنے لئے کامیابی کا جو راستہ چنا تھا‘ اس سے تقریباً تمام امریکی تجار آشنا ہیں‘ یعنی دن رات کی محنت و مشقت‘ کارآمد لوگوں سے میل جول‘ نفع بخش سودے پر روپیہ لگانا‘ لیکن ساتھ ہی ہر وقت کا فکر‘ گھبراہٹ اور طرح طرح کے اندیشے۔ میری ترقی کی رفتار تسلی بخش تھی۔ اپنے والد کے کھیتوں اور دیہاتی ماحول سے نکل کر میں شہر تک پہنچ چکا تھا۔ میں کروڑوں ڈالر کے سرمائے والی دواؤں کی ایک کمپنی کا ناظم بن چکا تھا لیکن وہ مسرت جو مجھے اس مادی کامیابی سے حاصل ہونی چاہئے تھی کہاں تھی؟ کبھی کبھی فرصت کے لمحات میں غور کرتا تو بڑی مایوسی ہوتی۔ اپنے والد کے جھونپڑے میں ٹمٹما تے دیے کے پاس بیٹھ کر میں نے کیا کیا منصوبے باندھے تھے۔ ان دنوں مجھ پر بے کلی مسلط تھی‘ حیات و موت کے معموں سے خوف زدہ تھا‘ میں سکون قلب کا جویا تھا اور آسودگی کا طلب۔ لیکن اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی وہ ذہنی انتشار جوں کا توں موجود تھا۔ خاصے سوچ بچار کے بعد مجھے اس کی وجہ معلوم ہوئی… مادی مفاد کی دھن میں میں نے روحانی اقدار کو نظر انداز کر دیا تھا۔

جارج رابرٹ وائیٹ کی پر شفقت نصیحت نے میرے لئے سکون و مسرت کے دروازے کھول دیے۔ انہوں نے مجھے سمجھایا کہ اگر ہم خوش رہنا چاہتے ہیں‘ ہر لحاظ سے کامیاب بن کر مکمل اور بھرپور زندگی گزارنا چاہتے ہیں‘ تو ہمیں چاہئے کہ دوسروں کی مدد کریں‘ دوسروں کا ہاتھ بٹائیں۔ جوانی میں مسٹر وائیٹ ایک صابن کے کارخانے کے مالک تھے اور کمپینی کے منافع کا بیشتر حصہ خیرات کر دیا کرتے۔ انہیںتجارت میں اتنی ترقی ہوئی کہ وہی چھوٹا سا کارخانہ ایک دن کیوٹی کیورا کارپوریشن بن گیا جہاں کروڑوں کا کاروبار ہوتا ہے اور جو اپنے صابن‘ مرھم اور شیمپو کے لئے دنیا بھر میں مشہور ہے۔

مسٹر وائیٹ کے یہ الفاظ مجھے ہمیشہ یاد رہتے ہیں… ’’ذاتی کامیابی اور کاروباری ترقی‘ جن کی بنیاد محض مادیت پر ھو‘ درحقیقت کھوکھلے خول ہیں۔ یہ ایسے پردے ہیں جن کے پیچھے بے شمار غمگینیاں اور مایوسیاں پوشیدہ ہیں۔‘‘

لیکن ان کا یہ فقرہ‘ ان کے تمام عقیدوں کا نچوڑ تھا… ’’اپنا رزق پانی میں ڈال دو۔ وہ کئی گنا ہو کر واپس آئے گا…‘‘

مسٹر وائیٹ کے انتقال کے بعد بطور ان کے جانشین کے میں نے ہمیشہ اس سنہرے مقولے پر عمل کیا ہے۔ ہر ان تین ڈالروں میں سے‘ جو ہماری کمپنی کماتی ہے، دو ڈالر دوسروں کی بہبود پر صرف کئے جاتے ہیں تاکہ قوم کو فائدہ پہنچے اور ملک ترقی کرے۔ جہاں ہماری کمپنی اپنی مصنوعات کو بہتر بنانے کی کوشش کرتی ہے وہاں ہر سال کروڑوں روپیہ جراحی اور طب کی ترقی کے لئے مختلف اداروں کو پیش کرتی ہے۔ کیمیائی تحقیق اورفنون لطیفہ کے لئے بھی مالی امداد بہم پہنچائی جاتی ہے۔ مسٹر وائیٹ کی نصیحت نے میری اپنی زندگی پر بھی بڑا گہرا اثر چھوڑا ہے اور مجھے انسان کی خدمت کے قابل بنا دیا۔ ان کے اصولوں پر عمل کرنے سے مجھے طرح طرح کی نعمتیں ملیں‘ سکون ملا‘ مسرت ملی اور ایسی تسکین جس سے میں ناآشنا تھا۔ میرا عقیدہ ہے کہ امریکہ کی مادیت پسندی کو روحانیت کی ضرورت ہے‘ ایسی روحانیت جیس میں دوسروں کی مدد اور خدمت کا جذبہ کارفرما ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔