دوسروں کو نصیحت خود میاں فصیحت

مزمل سہروردی  جمعرات 17 نومبر 2022
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

اردو کی ایک کہاوت ہے دوسروں کو نصیحت خود میاں فصیحت۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں، وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا۔ توشہ خانہ کیس میں بھی یہی ہورہا ہے۔

کل تک دوسروں کے خلاف الزام تراشی کرنے والے آج خود پھنسے نظر آرہے ہیں۔ دوسروں کو جیل بھیجنے کی پلاننگ کرنے والوں کو خود جیل قریب نظر آرہی ہے۔ کل دوسروں پر مقدمے بنانے والے آج خود مقدموں کے جال میں پھنستے نظر آرہے ہیں۔ دوسروں کی پگڑیاں اچھالنے والوں کی آج اپنی پگڑیاں سر بازار نیلام ہو ہی ہیں۔ کل تک دوسروں کو مائنس کرنے کا کھیل کھیلنے والے آج خود مائنس ہوتے نظر آرہے ہیں۔

دوسروں پر بے ایمانی کی تہمتیں لگانے والے آج خود ایسی تہمتوں کی زد میں ہے۔ دوسروں کو چور کہنے والوںکو آج خود اس الزام کا نشانہ بن رہے ہیں۔ دوسروں کو بھاگنے کا طعنہ دینے والے آج خود بھاگنے کی کوشش میں نظر آرہے ہیں۔ کل تک میڈیا پر سپر اسٹارہیرو بن کر راج کرنے والے آج میڈیا کے ولن بنتے نظر آرہے ہیں۔

کل تک کو نڈر اور بہادر کہلوانے والے آج اپنے گھر کی کھڑکیوں میں بلٹ پروف شیشے لگوانے پر مجبور ہیں۔ ایک ہی واقعہ نے بہادری کا بیانیہ بدل دیا ہے۔ دوسروں کی بیماریوں کا مذاق اڑانے والے آج سوشل میڈیا پر اپنے زخم دکھانے پر مجبور ہیں۔ دوسروں کی گولیوں کو’’ ردعمل‘‘ کہنے والے آج اپنی گولیوں کی ایف آئی آر درج نہیں کرا پا رہے۔ کل تک مذہب کو استعمال کرنے والے، آج اپنے خلاف مذہب کے استعمال پر چیخ و پکار کر رہے ہیں۔

کل تک اپنے مخالفین کی بہو، بیٹیوں، بہنوں اور بیویوں پر مقدمے بنانے والے آج اپنی گھریلو خواتین کے لیے استثنا مانگ رہے ہیں۔ کل تک پائی پائی کا حساب مانگنے والوں کے لیے آج خود حساب دینا مشکل نظر آرہا۔ دوسروں پر منی لانڈرنگ کے الزام لگانے والے آج خود منی لانڈرنگ میں پھنسے نظر آرہے ہیں۔ کل کے سعد آج کے چور۔ آج کے چور کل کے سعد، اسے قدرت کاکمال ہی کہا جا سکتا ہے۔

کیا آج تحریک انصاف سے یہ سوال ہو سکتا ہے کہ شہزاد اکبر ملک سے فرار کیوں ہیں؟ کیا سوال کیا جا سکتا ہے کہ فرح گوگی ملک سے باہر کیوں ہے؟ کل دوسروں کو مفروری کا طعنہ دینے والوں کے اپنے لوگ آج ملک سے فرار کیوں ہیں؟ دوسروں کا احتساب کرنے کے دعویدار شہزاد اکبر آج اپنے احتساب سے فرار کیوں ہیں؟

دوسروں کو سبق دینے والے کا اگر دامن صاف ہے تو بھاگنے کی ضرورت کیا ہے۔ کل تک ملک سے فرار کو اقرار جرم قرار دینے والے آج خود ایسا کیوں کررہے ہیں۔کل تک دوسروں کو تفتیش میں شامل ہونے کا درس دینے والے آج خود تفتیش سے کیوں بھاگ رہے ہیں۔ کل تک دوسروں کو عدالتوں پر اعتما دکا درس دینے والوں کو آج خود عدالتوں پر اعتماد کیوں نہیں ہے اسی لیے کہتے ہیں بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے۔

میرا تحفہ میری مرضی، شاید یہ اصطلاح میرا جسم میری مرضی کے وزن پر بنائی گئی ہے۔ میرا جسم میری مرضی پر بھی تو حق اور مخالفت میں بحث ہوسکتی ہے اور ہوئی بھی ہے لیکن سرکاری تحفے پریہ نہیں کہا جاسکتا کہ میرا ’’تحفہ میری مرضی۔‘‘ جو تحائف سرکاری طور پر ملتے ہیں، ان پر سرکاری قواعد و ضوابط لاگو ہوتے ہیں، ان کی پہلی ملکیت ریاست کی ہے۔ اس لیے میرا تحفہ میری مرضی درست بات نہیں۔ تحفہ ریاست پاکستان کی ملکیت ہے۔

آپ اسے لے سکتے ہیں لیکن لینے کے بھی قواعد ہیں اور کچھ اخلاقی تقاضے بھی ہوتے ہیں، اس لیے جن دوستوں نے میرا تحفہ میری مرضی کی اصطلاح نکالی ہے، وہ قانون کو چکر دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ قانون میں میرا تحفہ میری مرضی کی کوئی گنجائش نہیں۔ تحفے کی درست مالیت کا تعین ہونا سب سے اہم ہے۔ اگر کم مالیت لگا کر سرکاری توشہ خانے سے کوئی تحفہ لیا گیا ہے تو یہ جرم ہوگا۔ اس جرم کو میرا تحفہ میری مرضی کی اصطلاح کو استمعال کرکے کور نہیں کیا جاسکتا ہے۔

آپ نے تحفہ بازار میں کیوں بیچا، یہ تو ایک الگ سوال ہے۔ کم قیمت پر بیچا دوسرا الگ سوال ہے۔ یہ کوئی لوٹ کا مال تو نہیں تھا جو اس طرح چپ چاپ فروخت کیا جارہا تھا اور پھر اس کی کیش پیمنٹ کیوں وصول کی گئی۔ آپ کوئی جرم نہیں کر رہے تھے لہذا بذریعہ پیمنٹ وصول کرتے، اتنی بڑی رقم کیش میں وصول کرنے کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ اگر آپ نے غلط یا غیرقانونی کام نہیں کیا تھا تو بینکنگ چینل کیوں نہیں استعمال کیا گیا، پھر پیسے پاکستان کیسے آئے۔

فرح گوگی تحفہ لیکر کیسے ملک ملک گھوم رہی تھی؟ کیا توشہ خانہ سے تحائف بغیر پیسوں کے نکال لیے گئے اور بعد میں کم قیمت جمع کرائی گئی۔ نقد وصولی اور فروخت کی کوئی رسید نہ لی گئی نہ دی گئی ۔کیوں؟ سوال تو بنتا ہے۔

آپ کا دامن صاف ہے آپ بتا دیں کہ آپ نے تحائف کس کو کتنے میں فروخت کیے۔ کیسے پیسے وصول کیے۔ پاکستان کیسے لائے۔ لیکن اگر آج آپ منی ٹریل دینے سے انکار کریں گے تو آپ سے بھی وہی سوال ہوگا کہ جو نواز شریف کے بارے میں تحریک انصاف والے کہتے تھے کہ چور نہیں ہو تو منی ٹریل دو۔ حالانکہ میں سمجھتا ہوں کہ شریف خاندان اور عمران خان کے کیس میں بہت فرق ہے۔ ان سے ان کے ذاتی کاروبار کے بارے میں سوال کیا جا رہا تھا۔ ان سے ان کے ذاتی پیسوں کے حوالے سے سوال کیا جا رہا ہے۔

بالخصوص شہباز شریف پر تو خالص کاروباری نوعیت کا کیس بنایا گیا۔ ان کے ذاتی کاروبار کے پیسوں پر سوال کیے جا رہے تھے۔ لیکن عمران خان سے تو سرکاری توشہ خانہ کے تحائف کے بارے میں سوال ہو رہا ہے۔ یہ سرکاری مال کا سوال ہے۔ یہ کوئی ذاتی مال کا سوال نہیں ہے۔ آپ نے تو دوسروں کو ان کے ذاتی مال پر جوابدہ بنایا ہے۔ اب خود سرکاری تحائف کا جواب دینے سے کیسے انکار کر سکتے ہیں، اگر دامن صاف ہے تو بتائیں کس کو کتنے میں بیچے اور کیسے پیسے وصول کیے؟

کہاجاتا ہے کہ جو معیار دوسروں کے لیے مقرر کیا جائے وہی اپنے لیے کرو۔ ریاست مدینہ کا نام لینے والے آج جواب دینے سے بھاگ کیوں رہے ہیں۔ حضرت عمرؓ سے سوال کی مثالیں دینے والے آج خود پر سوال پر برہم کیوں ہیں۔ این آر او نہیں دوںگا کی رٹ لگانے والے آج خود این آر او کی تلاش میں کیوں ہیں۔

جب کہتے تھے کہ مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ پھر یہ تحائف کیوں چاہیے تھے۔ جب کہتے تھے مجھے سب کچھ مل چکا ہے، اب مجھے دولت کی کوئی خواہش نہیں ہے تو پھر یہ گھڑی فروخت کرنے والا معاملہ کیا ہے، اس کا جواب تو دینا ہی پڑے گا ، میں نہیں بتائوں گا، کہنے سے کام نہیں چلے گا۔

عمران خان کو چاہیے کہ سچ عوام کے سامنے لائیں۔ لوگ رسیدیں مانگیں گے۔ عدالت رسیدیں مانگے گی۔ ویسے بھی توشہ خانہ کا ٹرائل ڈسٹرکٹ کورٹ میں پہنچ چکا ہے۔ عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے حکم امتناعی نہیں ملا ہے ،اس لیے ٹرائل شروع ہونے والا ہے۔ تمام حقائق اس میں آئیں گے۔

عمران خان صرف اس ٹرائل کو لمبا کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں لیکن کل جب ان کے مخالف ایسا کرتے تھے تو وہ ان کو جو کہتے تھے اب ان کو بھی وہی کہا جائے گا۔ معافی کیسے مل سکتی ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ وقت کا دھارا بدل جاتا ہے۔

آپ کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ آپ کے پاس بھی غلطی کی گنجائش نہیں لیکن آپ نے غلطی کی ہے۔ یہ کوئی ٹیکنیکل ناک آؤٹ نہیں ہے، یہ کلین بولڈ کا کیس لگ رہا ہے، اس لیے دوسروں کی وکٹیں اڑاتے اڑاتے آپ کی اپنی وکٹ گرتی نظر آرہی ہے۔ بس اس کو قدرت کی ستم ظریفی ہی کہا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔