اور حسینہ مان گئی

سید عامر حسین  ہفتہ 29 مارچ 2014
لگتا ہے کہ میگا ایونٹ کی میزبانی ملنے کےبعد بنگلا دیش بورڈ  بھی اپنے آپ کو بگ تھری سمجھنے لگا تھا. فوٹو: اے ایف پی/ فائل

لگتا ہے کہ میگا ایونٹ کی میزبانی ملنے کےبعد بنگلا دیش بورڈ بھی اپنے آپ کو بگ تھری سمجھنے لگا تھا. فوٹو: اے ایف پی/ فائل

ایشیا کپ کا آغاز سے لے کر ورلڈ ٹی 20 تک پورا بنگلادیش کرکٹ کے سحر میں جکڑچکا ہے اور دنیا بھر سے کرکٹ کے متوالے اپنے پسندیدہ کھیل، اپنی ٹیموں کو دیکھنے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے بنگلا دیش میں موجود ہیں ۔ایشیا کپ میں اپنی ہی سرزمین پر بنگلا دیش کی ٹیم کامیابی حاصل نہ کرسکی اور جلے پر نمک تو اس وقت ملا گیا جب بنگلا دیش کی ٹیم نے ایشیا کپ میں 326 رنز کا پہاڑ پاکستان کے سامنے کھڑا کردیا لیکن شاہین اس پہاڑ کو سر کرنے میں بھی سرخرو ہوگئے۔ اس ہزیمت کے باوجود بنگالی عوام کا کرکٹ اور پاکستانی ٹیم کی حمایت کا جنون لائق تحسین تھا۔ ٹی ٹوئنٹی میں بنگالی شائقین کرکٹ نے اپنی ٹیم کی خراب کارکردگی کے بعد اس کھیل سے اپنی محبت کا ثبوت اسٹیڈیم میں اس وقت دیا جب پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان دلچسپ میچ میں کینگروز شاہینوں کے آگے سرنگوں ہوئے تو بنگالی شائقین کرکٹ نے پاکستان کو بھرپور سپورٹ کیا اور سبز پرچم لہرا کر ٹیم کی حوصلہ افزائی کی۔

لیکن کھیل کھیل میں بنگال سرکار میں نفرت کی چنگاری کب بھڑک اٹھی کچھ پتا ہی نہ چلا۔ بنگلا دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو اپنی عوام کا کرکٹ سے لگاؤ توپسند آیا مگر شاید ان کے ہاتھوں میں پاکستانی پرچم نے حسینہ کے دل پر چھریاں چلا دیں۔بنگلادیشی کرکٹ بورڈ نے عوام کے اس رویے کے بعد اسٹیڈیم میں پاکستان سمیت کسی بھی غیر ملکی پرچم کو لہرانے پر پابندی لگا دی لیکن کھیل میں سیاسی چھکا لگانے کی کوشش میں حسینہ واجد خود بولڈ ہوگئیں۔

لگتا ہے کہ میگا ایونٹ کی میزبانی ملنے کےبعد بنگلا دیش بورڈ  بھی اپنے آپ کو بگ تھری سمجھنے لگا تھا لیکن بنگلادیش کے اس اقدام سے پوری دنیا میں اسے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اورشیخ حسینہ واجد کی طرف سے عوام پر اس قسم کی پابندی نے نہ صرف ان کی چھوٹی ذہنیت کی عکاسی کی بلکہ پاکستان کے لیے ان کے دل میں بسی نفرت کو بھی واضح کردیا۔تماش بینوں کے لشکر پر حسینہ واجد کا یہ حکم بم کی طرح گرا جس کی آنچ سے آئی سی سی بھی حرکت میں آگئی اور حسینہ کے حکم کے بعد بی سی سی سے جواب طلب کرلیا لیکن جگ ہنسائی کے بعد بنگلا دیش کرکٹ بورڈ کو اپنا احمقانہ فیصلہ واپس لینا پڑا مگر حسینہ واجد کے اس اقدام کے بعد یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ دیگر ملکوں کے بجائے بنگلا دیش میں پاکستانی پرچم لہرانے پر حسینہ واجد بنا پانی کی مچھلی کی طرح تڑپ اٹھیں مگر شدید تنقید کے بعد آخر کار حسینہ کو ماننا پڑا۔

کسی بھی ملک کے عوام کو اچھا کھیل پیش کرنے والی ٹیم کی حمایت کا مکمل حق حاصل ہے لیکن شیخ حسینہ واجد کو دیکھ کر تو یوں لگاکہ اگر پاکستان بنگلا دیش کی سرزمین پر ہونےوالی کرکٹ کی اس جنگ کا فاتح بن گیا تو کہیں پھر طیش میں آخر حسینہ واجد قومی ٹیم پر گراؤنڈ میں فتح کا جشن منانے پر ہی پابندی نہ لگا دیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔