ماورائے عدالت قتل کیخلاف دائر درخواست پر آئی جی و دیگر کو نوٹس

اسٹاف رپورٹر  ہفتہ 29 مارچ 2014
سندھ ہائیکورٹ کا وکلا کو طبی سہولتیںفراہم نہ کرنے کیخلاف درخوست پر چیف سیکریٹری و دیگر سے جواب طلب۔ فوٹو: فائل

سندھ ہائیکورٹ کا وکلا کو طبی سہولتیںفراہم نہ کرنے کیخلاف درخوست پر چیف سیکریٹری و دیگر سے جواب طلب۔ فوٹو: فائل

کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے شیرشاہ کالونی کے رہائشی نوجوان کامران شاہ کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف دائر درخواست پر وفاقی و صوبائی وزارت داخلہ،آئی جی سندھ،ڈی جی رینجرز، کمانڈرونگ93رینجرز،شیرشاہ اور موچھ گوٹھ پولیس اسٹیشن  کے ایس ایچ اوز کو11اپریل کیلیے نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔

چیف جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں2رکنی بنچ نے کامران شاہ کے والد سید اختر شاہ کی جانب سے دائر کردہ درخواست کی سماعت کی، درخواست میں کہا گیاہے کہ کامران شاہ کسی غیرقانونی سرگرمی میں ملوث نہیں تھا،13مارچ2014کی شب رینجرز اہلکاروں نے اردوبازارشیرشاہ کالونی میں واقع گھر پر چھاپہ مارکراسے غیرقانونی حراست میں لیکر غائب کردیا،دوران حراست اسے شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور17مارچ 2014کو شیرشاہ اور موچکو تھانے کی پولیس کے ساتھ مل کر اسے جعلی مقابلے میں ہلاک کردیا۔

بعد ازاں پولیس افسران نے صحافیوں کو بتایا کہ کامران عرف کامی جرائم میں ملوث تھا اور اسے مقابلے کے دوران ہلاک کیا گیا ہے جو کہ جھوٹاا ور بے بنیاد الزام ہے، درخواست گزار نے موقف اختیار کیا ہے کہ رینجرز اہلکاروں نے ونگ کمانڈر93رینجرز کے حکم پر کامران کو حراست میں لیا تھا،ڈی جی رینجرز سندھ کو عدالت میں طلب کرکے وضاحت مانگی جائے،آئی جی سندھ کو جعلی پولیس مقابلے کی تحقیقات کا حکم دیا جائے اورمذکورہ ونگ کمانڈر ،موچکواورشیرشاہ تھانے کے پولیس افسران کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔

علاوہ ازیں سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں 2رکنی بینچ نے حکومت کی جانب سے وعدے کے باوجود وکلا کو گریڈ18اورگریڈ17کے سرکاری افسران کی صحت کی سہولیات فراہم نہ کرنے کے خلاف درخواست پر چیف سیکریٹری،سیکریٹری صحت اور ڈی جی ہیلتھ کو18اپریل کیلیے نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا،ملیر بار ایسو سی ایشن کے سابق صدرمحمد اشرف سموں کی جانب سے دائردرخواست میں موقف اختیار کیاگیا ہے کہ سندھ میں 31ہزار وکلا ہیں جن میں سے اکثریت کا تعلق متوسط طبقے سے ہے اور ان کی آمدنی بھی کم ہے اس لیے وکلا تنظیموں نے وکلا اور ان کے اہلخانہ کیلیے سرکاری ہسپتالوں میں صحت کی مفت سہولیات کی فراہمی کا مطالبہ کیا تھا۔

اس ضمن میں محکمہ صحت سندھ نے 31جنوری 2012کوایک نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا جس میں قراردیاگیا تھا کہ وکلا اور ان کے اہل خانہ کو سرکاری اسپتالوں بشمول ٹیچنگ اور ضلعی ہیڈکوارٹراسپتالوں میں گریڈ 18اور17کے سرکاری افسران کے مساوی سہولیات فراہم کی جائیں گی، درخواست گزار نے موقف اختیار کیا ہے کہ سرکاری نوٹیفیکیشن کے باوجود وکلاکو یہ طبی سہولتیں فراہم نہیں کی جارہی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔