پیٹ کا دوزخ؟

رئیس فاطمہ  جمعـء 18 نومبر 2022
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

دنیا کتنی جلدی جلدی بدل رہی ہے۔ یقین نہیں آتا کہ دنیا کو پر لگ گئے ہیں۔ ہمارے بچپن میں جب والد اور دادی بتاتے تھے کہ ان کے بچپن اور جوانی میں زمانہ کتنا سستا تھا تو ہم بہن بھائیوں کو ایسا لگتا تھا جیسے زمانہ قبل از مسیح کی باتیں کر رہے ہیں، لیکن آج اگر ہمارے والدین زندہ ہوتے اور مہنگائی کے جن کو بوتل سے نکلتا دیکھتے تو شاید صدمے سے مر جاتے۔ مہنگائی تو پرویز مشرف کے دور میں بھی بڑھی تھی۔ لیکن ڈالر کو پر نہیں لگے تھے۔

انھوں نے اس کے پر کاٹ دیے تھے اس لیے وہ ایک ہی جگہ ان کے سبکدوش ہونے تک رکا رہا۔ کسی شاعر نے اپنے تجربے ہی کی بنا پر کہا ہوگا۔

لوٹ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو

اب یاد کیجیے تو یقین نہیں آتا کہ کبھی دودھ 50 روپے لیٹر اور دہی 70 روپے کلو بھی بکتا تھا اور یہ زیادہ پرانی بات بھی نہیں ہے ، لیکن پیٹرول اور بجلی کے ہوش ربا بڑھتے داموں کی زد میں ہر چیز آ رہی ہے۔ ڈاکٹر توصیف احمد خاں نے اپنے کالم میں سچ کہا ہے کہ عام آدمی کی موت ہوگئی ہے۔

میں یہ کہوں گی کہ عام آدمی زندہ درگور ہے تو غلط نہ ہوگا۔ مہنگائی نے زندگی کا حسن چھین لیا ہے۔ لوگ ایک وقت کھانا کھا رہے ہیں۔ غذا سے زیادہ پیسہ دواؤں پر اٹھ رہا ہے۔ شوگر کے مرض کی دوائیں ہوں یا ڈپریشن سے نجات کی یا نزلہ زکام اور بخار کی سب کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔

اخبار میں خبر چھپی ہے کہ تنگدستی سے دل برداشتہ شخص نے اپنے دونوں بچوں کو زہر دے دیا، بیوی حسب عادت لڑ جھگڑ کر میکے چلی گئی تھی۔ کوئی بھلا کیونکر اپنے بچوں کو اپنے ہی ہاتھوں سے قتل کر سکتا ہے؟ بھوک بڑی ظالم چیز ہوتی ہے۔

یاد کیجیے کہ مشرقی پاکستان جب بنگلہ دیش نہیں بنا تھا تو غربت نے وہاں پنجے گاڑے ہوئے تھے۔ ہمارے گھر سے تیسرا بنگلہ ایک سرکاری ملازم کا تھا، والد کا ان سے ملنا جلنا تھا، ان کی ایک بیٹی کراچی کے کالج میں میرے ساتھ پڑھتی تھی۔

انھوں نے اپنا گھر 1968 میں ایک بہاری فیملی کو کرائے پر دیا تھا، جو مشرقی پاکستان میں بگڑتی ہوئی امن و امان کی صورت حال کے پیش نظر سارا کاروبار سمیٹ کر مغربی پاکستان آگئے تھے اور کراچی میں میں مقیم ہوگئے تھے ، ان کے 9 بچے تھے۔ ان کی بڑی بیٹی سے میری بھی دوستی ہوگئی تھی۔

ان کے گھر ایک سیاہ فام لڑکی تھی جس کا نام اقلیمہ تھا، وہ کوئی بارہ سال کی ہوگی، گھر کا سارا کام بھی کرتی تھی، گالیاں اور ڈانٹ بھی کھاتی تھی۔ بچے اسے بہت تنگ کرتے تھے، خاتون خانہ جی بھر کے اسے مارا کرتی تھیں اور کھانے کو بہت کم دیتی تھیں۔ ایک دن جب میں ان کے گھر گئی تو صرف بڑی بیٹی اور اس کا چھوٹا بھائی جو تقریباً پندرہ سولہ سال کا تھا، گھر میں تھے۔

اقلیمہ جب چائے بنا کر لائی تو موقعہ پا کر مجھ سے کہنے لگی کہ ’’ میں اسے اپنے گھر رکھ لوں ، یہاں مار بھی پڑتی ہے، کام بہت ہے اور صادق مجھے تنگ بھی کرتا ہے (صادق بڑا بیٹا تھا)۔

جب میں بیگم صاحبہ سے شکایت کرتی ہوں تو وہ الٹا مجھے ہی مارتی ہیں۔‘‘ میں نے کہا ’’ تم اپنے گھر کیوں نہیں چلی جاتیں؟ ‘‘ تو کہنے لگی ’’باجی! میرا گھر تو ڈھاکا میں ہے۔ میں یہاں سے کہیں نہیں جاسکتی، کیونکہ میری ماں نے مجھے ایک بوری چاول کے بدلے بیچ دیا ہے۔‘‘ کچھ دن بعد پتا چلا کہ اقلیمہ بھاگ گئی ہے۔ والد صاحب کہنے لگے ’’وہ بھاگی نہیں بلکہ اسے بھاگنے پہ مجبور کیا گیا ہے۔‘‘

میرے والد سول ایوی ایشن میں ڈائریکٹر تھے اور اکثر انسپکشن کے لیے وہ مختلف شہروں میں جایا کرتے تھے، ڈھاکا، چاٹگام، راجشاہی وہ کئی بار گئے اور جب وہاں سے واپس آتے تو بتاتے کہ بنگالیوں میں مغربی پاکستان کے لوگوں کے لیے شدید نفرت بھری ہوئی ہے۔

بنگالی اسٹاف کا رویہ والد صاحب کے ساتھ بہت اچھا ہوتا تھا، کیونکہ نہ تو وہ ان سے نفرت کرتے تھے نہ ہی ان کا استحصال کرتے تھے۔ بید کی بنی ہوئی خوبصورت ٹوکریاں اور ان میں لیچی، کیلے اور ناریل جب وہ لے کر آتے تو میرے والد ان کی قیمت ادا کرتے۔ میرے والد نے مشرقی پاکستان کے عوام کے دلوں میں ابلتے پریشر کو بہت پہلے محسوس کرلیا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ بہت جلد ایک آتش فشاں پھٹنے والا ہے۔ اس آتش فشاں کا ایک نمونہ میں نے اقلیمہ کے وجود میں بھی محسوس کرلیا تھا۔

کافی عرصے بعد ایک دن ہمارے گھر کے گیٹ پر ایک عورت آئی اور چوکیدار سے کہا کہ وہ مجھ سے ملنا چاہتی ہے۔ میں نے اندر بلوایا تو وہ اقلیمہ تھی۔ سیاہ چادر میں معقول لباس اور زیور میں۔ وہ آرام سے صوفے پر بیٹھ گئی اور بولی ’’ بی بی! مجھے آپ بہت اچھی لگتی تھیں اسی لیے آج ملنے آئی ہوں۔‘‘

میں نے پوچھا کہ وہ چلی کہاں گئی تھی؟ تب وہ بولی کہ ’’ باجی! میں نے آپ کو بتایا تھا کہ یہ لوگ مجھے چاول کی ایک بوری کے بدلے خرید کر لائے تھے کہ میری ماں کے دس بچے تھے۔

ماں گھروں میں کام کرتی تھی اور باپ مچھلی بیچتا تھا، غربت بہت تھی۔ ایک وقت کھاتے تھے اور دوسرے وقت کا پتا نہ ہوتا تھا۔ میری ایک اور بہن کو بھی ایک ہزار روپے میں میرے باپ نے بیچ دیا تھا، وہ اس سے نکاح کرکے کراچی لے آیا تھا، پتا نہیں وہ کہاں ہے۔‘‘

’’تم کہاں ہو اور کیا کر رہی ہو؟‘‘ میں نے پھر پوچھا تو نظریں نیچی کرکے بولی۔ ’’مالک مکان کے گھر میں ایک خانساماں تھا، وہ لاڑکانہ کا رہنے والا تھا۔ اس نے ایک دن مجھ سے کہا کہ ’’ اگر میں چاہوں تو وہ مجھے ایک ایسے گھر میں نوکری دلا سکتا ہے جہاں یہ سب نہ ہوگا، تمہارے ساتھ جو یہاں ہو رہا ہے۔

باجی! تب وہ میری مرض جان کر دوپہر میں مجھے ایک جگہ لے گیا اور خود فوراً واپس چلا گیا۔ تاکہ کسی کو شک نہ ہو۔ جہاں وہ مجھے چھوڑ کر گیا تھا وہاں میری جیسی اور لڑکیاں بھی تھیں۔ یہاں عصمت فروشی ہوتی تھی۔‘‘ پھر وہ ایک وقفہ لے کر بولی ’’باجی! پیٹ کی آگ بہت بری ہوتی ہے، جب میرے ماں باپ نے مجھے بیچ دیا تو میں کسی اور کی شکایت کیوں کروں؟ بس اب زندگی جیسی بھی گزر رہی ہے ویسے ہی گزرے گی۔ ہر جگہ بھیڑیے شکار کرنے کے لیے گھومتے رہتے ہیں، میں بھی ایک بھیڑیے کا شکار بن گئی۔ زندگی موت سے بدتر ہے۔‘‘

اقلیمہ کے کردار نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا، پھر میں نے ایک افسانہ ’’رینا عبدالکریم‘‘ اسی کے حوالے سے لکھا ہے۔ غربت کا عذاب بہت اذیت ناک ہوتا ہے۔ کوئی قاتل بن جاتا ہے کوئی چور اور ڈکیت۔ کیا کریں پیٹ کا دوزخ تو بھرنا ہی ہے نا۔ ہمارے ہاں زیادہ مردوں کی زندگی بہت مشکل ہوتی ہے۔

ماں باپ بیٹوں سے توقع لگاتے ہیں کہ بڑے ہو کر کما کر کھلائے گا۔ لڑکوں کے کانوں میں یہ آوازیں پڑتی رہتی ہیں ’’جب ہمارا بیٹا بڑا ہوگا تو کما کر کھلائے گا ‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اور بدقسمتی سے وہ اکلوتا بیٹا ہو اور پانچ چھ بہنیں تو اس کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے، وہ بے چارہ اپنے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتا ، پہلے بہنوں کی شادیاں کرو، پھر اپنی اور بعد میں بھی بیوی کی فرمائشیں پوری کرتے کرتے ادھ موئے ہو جاؤ، بچوں کو پالو، بوڑھے ماں باپ کی خدمت کرو، تو بیوی کا موڈ آف، انسان سے سینڈوچ بن جاؤ اور پھر مر جاؤ۔

گزشتہ چند سالوں میں جس طرح مہنگائی بڑھی ہے وہ ایک ریکارڈ ہے۔ لوگ کھائیں یا بل بھریں۔ KE نے اگست کے بل بہت بڑھا کے بھیجے تھے، پھر جب ہاہاکار مچی تو انھوں نے ستمبر کے بلوں میں کٹوتی کر دی، لیکن یہ سب بھی ڈرامہ تھا۔ اب اکتوبر کے جو بل آئے ہیں وہ بھی کلیجہ پھاڑنے کو کافی ہیں۔

عمران خان نے مہنگائی پر توجہ نہیں دی، آٹا، چاول، چینی، دالیں، گھی، تیل سب عمران خان ہی کے دور وزارت میں بڑھیں اور جب صحافیوں نے ان کی توجہ اس جانب کرائی کہ ان کے وزیر چینی اور آٹا باہر بھیج رہے ہیں تو وہ بولے ’’اچھا۔۔۔۔مجھے پتا نہیں تھا۔‘‘ یہ کیسے وزیر اعظم تھے جنھیں اپنے وزرا کی کارکردگی کا پتا نہیں تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔