پاکستان کا سیاسی اور خارجی ماحول

ڈاکٹر زمرد اعوان  جمعـء 18 نومبر 2022
اس وقت پاکستان اپنے حساس ترین دور سے گزر رہا ہے۔ (فوٹو: فائل)

اس وقت پاکستان اپنے حساس ترین دور سے گزر رہا ہے۔ (فوٹو: فائل)

کیلی فورنیا میں ڈیموکریٹک پارٹی کی ایک تقریب کے دوران 13 اکتوبر 2022 کو امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی خارجہ پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’’میرے خیال میں پاکستان دنیا کی خطرناک ترین قوموں میں سے ایک ہے اور پاکستان کے جوہری پروگرام پر بہت سے سوالات ہیں‘‘۔ یعنی کہ یہ پروگرام امریکا کی نظر میں محفوظ نہیں ہے۔

امریکی صدر کے اس بیان کا جائزہ لینے کےلیے اس تقریر کے سیاق و سباق سے آگاہی ضروری ہے۔ دراصل صدر بائیڈن نے ان خیالات کا اظہار دنیا کو درپیش عالمی سیاسی خدشات کا جائزہ پیش کرتے وقت کیا۔ جس میں پہلے انہوں نے روس اور چین پر تنقید کی اور پھر پاکستان کے جوہری پروگرام پر عدم تحفظ کا اظہار کیا۔ امریکا کا بنیادی مقصد پاکستان کو چین سے پرے ہٹانا اور امریکا پر اس کا اںحصار بڑھانا ہے، جو پاکستان کے مفادات اور قومی سلامتی سے متضاد ہے۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں امریکا پاکستان کو براہ راست تو اپنے زیر سایہ نہیں رکھ سکتا، اس کےلیے وہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کو آگے لاتا ہے۔ اس وقت امریکا یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ اداروں کی باہمی چپقلش ایک بہترین موقع ہے پاکستان کے اوپر دباؤ بڑھانے کا۔ مزید یہ کہ، پاکستان میں حالیہ اندرونی افراتفری اور زرمبادلہ کا خسارہ، بیرونی طاقتوں کو ہر طرح کی دخل اندازی کےلیے سازگار حالات فراہم کررہے ہیں۔

جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ امریکا کے پاکستان کے اوپر تحفظات ہیں۔ یہاں ہم پاکستان امریکا کے تعلقات کو دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ ایک سرد جنگ کا دور تھا جو پاکستان اور امریکا نے مشترکہ ضروریات کی بنا پر سیٹو اور سینٹو کے ذریعے اتحاد قائم کیا۔ لیکن اس وقت 1950کی دہائی میں پاکستانی حکمرانوں کو اس کا صلہ جاتا ہے کہ انہوں نے اتحاد میں ہونے کے باوجود چین کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کیے۔ پاکستانی سیاستدانوں نے تب ہی سمجھ لیا تھا کہ چین ایک ابھرتی ہوئی طاقت اور ہمارا پڑوسی ملک ہے، اس لیے ہمیں اپنے باہمی تعلقات کو مضبوط کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ خاص طور پر آگے چل کر 1970کی دہائی میں، ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پاک چین تعلقات میں مزید بہتری آئی۔ اس وقت بھی امریکا خوش نہیں تھا لیکن ہم نے یہ ثابت کیا کہ ہم چین کے ساتھ تعلقات کسی صورت خراب نہیں ہونے دیں گے۔ حالانکہ پاکستان کے ہر ادارے میں ہمیشہ سے ایسے گروہ موجود رہے ہیں، جن کی ہمدردیاں امریکا کے ساتھ رہی ہیں۔ یہ گروہ ان معاملات میں نہ صرف متحرک بلکہ مضبوط بھی ہیں۔

حالیہ امریکی بیان کا بنیادی مقصد یہ ہوسکتا ہے کہ وہ پاکستان کے جوہری پروگرام پر کسی قسم کی پابندی لگوائیں، یعنی اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے ذریعے سرپرستی کروائیں۔ وقتی طور پر پاکستان کو معاشی مسائل سے چھٹکارا دلوانے کےلیے، امریکا آئی ایم ایف اور دوسرے مالیاتی اداروں کی مدد سے پاکستان کو مزید قرضوں میں جکڑ بھی سکتا ہے۔ کمزور اور مفاد پرست پاکستانی حکمران آسانی سے امریکا کے اس جال میں پھنس سکتے ہیں۔ یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ امریکا کی افغانستان میں کمزور گرفت، اسے دوسری علاقائی مواقع ڈھونڈنے پر مجبور کررہی ہے۔

امریکا کی اس قسم کی منصوبہ بندی اس لیے بھی ہے کہ افغانستان میں 20 سال رہنے کے باوجود اسے بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ حالانکہ اس کے پاس جدید ترین ہتھیار اور سراغ رسانی کے ذرایع بھی موجود تھے۔ امریکا نے نہ صرف اپنے ٹیکس دہندگان کا پیسہ افغانستان میں ایک ’’غیر ضروری‘‘ جنگ لڑنے کےلیے استعمال کیا بلکہ خود کو سپر پاور کہنے کے باوجود بھی اس میں ناکام رہا ہے اور وہ بھی اپنے سے انتہائی کمزور تربیت یافتہ اور تقریباً غیر مسلح افغانیوں کے مقابلے میں۔ اس صورت حال میں، کسی نہ کسی کو امریکا نے اپنی خفت مٹانے کےلیے مورد الزام قرار دینا ہی تھا، اور پاکستان پر الزام لگانا قدرے آسان تھا۔

پاکستان کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ امریکا اس خطے میں بھارت کو اپنا اسٹرٹیجک اتحادی چن چکا ہے اور اسی وجہ سے خطے میں کواڈ (QUAD) اور آئی ٹو یو ٹو (I2U2) اتحاد میں دونوں ممالک شامل ہیں۔ جس کا بنیادی مقصد چین کے خلاف مشترکہ معاشی اور دفاعی حکمت عملی بنانا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کو اپنے دفاعی اور اقتصادی مفادات کےلیے، چین ہی کے ساتھ چلنا ہوگا۔ البتہ اتحاد کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آپ دوسرے ممالک کے ساتھ برے تعلقات قائم کرلیں۔ مثال کے طور پر اتحادی نہ ہوتے ہوئے بھی چین کی بھارت اور امریکا کے ساتھ تجارت کا حجم کافی نمایاں ہے۔ سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ اگر کوئی ملک معاشی ترقی اور اداروں کی مضبوطی کے لحاظ سے مستحکم ہے تو دوسرے منفی علاقائی رجحات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر آپ کی اقتصادی حالت مخدوش ہو اور بیرونی مالی امداد ہی آخری امید بن جائے، تو پھر آپ اپنی حقیقی آزادی سے بہت دور ہوتے جائیں گے۔

اس ساری بحث میں ایک اہم بات یہ ہے کہ جب تک کسی ایک سیاسی جماعت کو اپنی مدت پوری کرکے انتخابات کے ذریعے تبدیل کرنے کے بجائے بیرونی سازش کی ایما پر تبدیل کیا جاتا رہے گا، تب تک سیاسی استحکام نہیں آسکتا۔ جس کی وجہ سے اقتصادی بحران بھی پیدا ہوجاتا ہے، جیسا کہ ہم آج پاکستان میں دیکھ رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جس طرح سابقہ وزیراعظم نے مطالبہ کیا کہ فوری شفاف اور آزاد انتخابات ہی ہمارے مسائل کا حل ہیں، عوام کی مرضی سے فیصلہ ہونا چاہیے، جس سے سیاسی استحکام آئے گا اور پھر ہی ہم معاشی حالات بھی بہتر کرسکتے ہیں۔

اس وقت پاکستان اپنے حساس ترین دور سے گزر رہا ہے، جس کےلیے ایک جامع مالیاتی اور خارجہ پالیسی کی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ مالی طور پر کسی بھی ملک پر انحصار کرنے کے بجائے اسے اندر سے وسائل پیدا کرنے کو فوقیت دینی چاہیے۔ آئی ایم ایف کا بیل آؤٹ پیکیج یا کسی دوسرے ملک سے مالی امداد ہمیشہ ایک عارضی حل ہوتا ہے، جو کہ آپ کو قومی معاملات پر سمجھوتے پر مجبور کرتا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کےلیے بہترین حکمت عملی یہ ہوگی کہ وہ دوست ہمسایہ ممالک جن میں چین، ایران اور ترکی پیش پیش ہیں، کے ساتھ اتحاد قائم کرے۔ یہ تعلقات بالآخر پاکستان کو امریکا اور دیگر بین الاقوامی مالیاتی ایجنسیوں پر انحصار سے چھٹکارا دلا سکتے ہیں۔

آخر میں یہ جاننا ضروری ہے کہ مالیاتی بحران سے بچنے اور قومی مفاد پر مبنی خارجہ پالیسی کے حصول کےلیے پہلے ہمیں انتخابات کا اعلان کرکے سیاسی استحکام کو ممکن بنانا ہوگا۔ جس سے اقتصادی بحران بھی دور ہوگا۔ جو جماعت بھی جیتے، اسے پانچ سال کی مدت پوری کرنے دی جائے، تاکہ ایک دیرپا حکومت مستحکم معاشرے کو وجود میں لاسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔