کوچۂ سخن

عارف عزیز  اتوار 20 نومبر 2022
فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

غزل
اک آبشارِ حسن کا جلوہ ہو صرف تم
راہِ طلب میں دل کا سہارا ہو صرف تم
باقی تو سب سراب ہے، صحرائے دل کہے
اس تشنگی کے باب میں دریا ہو صرف تم
محفل میں روشنی کی طلب ہر کسی کو ہے
لاریب شمعِ بزمِ تمنا ہو صرف تم
صحرانورد ہم ہی نہیں بے شمار ہیں
بے پایاں ریگزار میں سایہ ہو صرف تم
بند ِ قبا کھلا تو ہوا راز آشکار
سب جنتوں کے باغ کا رستہ ہو صرف تم
در آتے تو ہیں دوسرے مضمون شعر میں
لیکن مری غزل کا قرینہ ہو صرف تم
(اکرم جاذب۔ منڈی بہاء الدّین)

۔۔۔
غزل
تیرے کاسے میں نہ ڈالوں گی کہیں چل دوں گی
اپنے دکھ درد سنبھالوں گی کہیں چل دوں گی
کیا ضروری ہے کہ کچھ زحمت ِ تدبیر کروں
سکہ اک میں بھی اچھالوں گی کہیں چل دوں گی
ایک ہجرت سے ہے اک دوسری ہجرت مشروط
آپ کو دل سے نکالوں گی کہیں چل دوں گی
ایسی بے سمت مسافت سے میں عاجز آئی
جب کوئی راہ نکالوں گی کہیں چل دوں گی
اک رمق ہی سہی باقی ہے ابھی عزم ِ حیات
ٹوٹنے سے جو بچالوں گی کہیں چل دوں گی
اوب جاؤں گی جو یکسانی ِ روز و شب سے
وقت کا پہیہ گھما لوں گی کہیں چل دوں گی
عنبرین اب جو نہ دل بارِ گراں سہہ پایا
اسے کاندھے پہ اٹھا لوں گی کہیں چل دوں گی
(عنبرین خان ۔ لاہور)

۔۔۔
غزل
ہر پھول یہاں اپنے پہ اِترایا ہوا تھا
اس باغ میں کون ان کے لیے آیا ہوا تھا
تھا زرد مرا رنگ توجہ کی طلب میں
یہ پھول بڑی دیر سے کملایا ہوا تھا
دنیا بڑی زرخیز تھی گل ریز تھی جس دن
ان آنکھوں پہ سپنوں کا گھنا سایہ ہوا تھا
سمجھی ہی نہیں تھی میں ترے نامے کا مضموں
دیمک نے کئی لفظوں کو گہنایا ہوا تھا
وہ خواب اچانک مری ان آنکھوں میں ٹوٹا
چاہت نے تھپک کر جسے دہکایا ہوا تھا
(حنا عنبرین۔ لیہ)

۔۔۔
غزل
آنکھ مل جائے، بصارت تو نہیں مل سکتی
اب تجھے اور محبت تو نہیں مل سکتی
آتشِ ہجر میں جلتے ہوئے لوگو تم کو!
جسم ملنے ہیں، رفاقت تو نہیں مل سکتی
ہم ہیں آشفتہ مزاجوں کے قبیلے والے!
شہر والوں سے طبیعت تو نہیں مل سکتی
ایسے نیلام ہوئے سارے سخنور لوگو
اب کسی لفظ کو حرمت تو نہیں مل سکتی
اس پہ ثابت ہے محبت میں ملاوٹ ایماںؔ
اب اسے دل پہ حکومت تو نہیں مل سکتی
(ایمان قیصرانی۔ ڈی جی خان)

۔۔۔
غزل
کتنے لوگوں کے لیے جینے کا سامان بنے
جو مناظر تری تخلیق کے دوران بنے
خوش اگر رہتے تو کس طرح توجہ پاتے
جان کر ہم تری محفل میں پریشان بنے
ایک ٹہنی سے بنی ہے مری بندوق کہ میں
مارنا چاہوں کسی کو تو گلستان بنے
ہم نے سوچا تھا تجھے دل میں کہیں قید کریں
ہم نے چاہا تھا ترے واسطے زندان بنے
اُس کے چہرے پہ تھی مسکان بچھڑتے لمحے
کس طرح اُس کے پلٹ آنے کا امکان بنے
آج نفرت سے جسے دیکھ رہے ہو مہدیؔ
عین ممکن ہے وہی شخص دل و جان بنے
(شہزاد مہدی۔اسکردو، گلگت بلتستان)

۔۔۔
غزل
داستاں سن کے ناشناسی کی
آنکھ کھلنے لگی اداسی کی
پتھروں نے اگل دیے چشمے
آنکھ جادو بھری تھی پیاسی کی
بڑھ رہی ہے فلک سے آئے دن
اجنبیت زمیں کے باسی کی
اس کو دیکھا تو ہوش میں آئے
یہ بھی صورت ہے بد حواسی کی
چل دیے ارتقا کے رستے پر
لے کے تہذیب بے لباسی کی
مفلسی نے شباب چھین لیا
عمر لگنے لگی پچاسی کی
رازِ دل کیا بتائیں اس کو امرؔ
جس نے ہر بات ہی سیاسی کی
(امرروحانی۔ملتان )

۔۔۔
غزل
شاخیں اجڑ گئیں نخلِ گماں نہیں رہا
کھلتا تھا جس میں لامکاں اب وہ مکاں نہیں رہا
اک تو عدو بنا لیا ہم نے تمام شہر کو
اس پہ ستم وہ اسم بھی وردِزباں نہیں رہا
میرا کلامِ عشق بھی رنگِ خرد میں ڈھل گیا
تیرے لبوں پہ بھی وہ اب حسنِ بیاں نہیں رہا
محفلِ ذات لٹ گئی نبضِ حیات رک گئی
رسمِ جفا کو اب تری کچھ بھی یہاں نہیں رہا
اب بھی ہیں اشک اشک کیوں آنکھیں تری بتا ذرا
اب تو سرفصیلِ جاں میرا دھواں نہیں رہا
آئے نہ روبرو جو ہم یہ تو ہے داستاں الگ
کہنے کو ورنہ میں کہاں اور تو کہاں نہیں رہا
(دائم بٹ ۔گکھڑ منڈی، ضلع گوجرانوالہ)

۔۔۔
غزل
دشت لے جائے مکاں لے جائے
تیری آواز جہاں لے جائے
خواب بازار میں بکتے ہی نہیں
آدمی دل کو کہاں لے جائے
ایک آواز کہ آتی ہی نہیں
ایک تصویر کہ جاں لے جائے
دم ذرا دیدہ و دل عشق حضور
آگ لے جائے دھواں لے جائے
حق پہ لڑنا کوئی آسان نہیں
سر سرِ نوکِ سناں لے جائے
زندگی مجھ سے گزر ہوگی نہیں
کوئی یہ بارِ گراں لے جائے
میں گماں زاد کوئی دن جی لوں
ہے یقیں کارِ زیاں لے جائے
(عزیز جان۔ چنیوٹ)

۔۔۔
غزل
فلک سے رابطہ ٹوٹا زمیں پہ آن پڑے
جہاں سے اڑ کے چلے تھے وہیں پہ آن پڑے
یہ جب سے ہم پہ ہماری ہی خاک کھلنے لگی
یہ خواہشات کے پربت زمیں پہ آن پڑے
مری طلب در ساقی پہ محوِ رقص ہوئی
شکن زمانے کی یہ کیوں جبیں پہ آن پڑے
نگاہِ عفو ہو مرشد کہ تیرے خانہ بدوش
مکاں کو چھوڑ کے اب تو مکیں پہ آن پڑے
(ثمر خانہ بدوشؔ۔ سہارنپور،انڈیا)

۔۔۔
غزل
احساسِ مروت کو سمجھتا ہی نہیں ہے
یا تُو مری چاہت کو سمجھتا ہی نہیں ہے
میں تجھ کو سمجھتا ہوں محبت کی غرض سے
تُو میری ضرورت کو سمجھتا ہی نہیں ہے
وہ حسنِ بصارت بھی ہے بے معنی و بیکار
جو حسنِ بصیرت کو سمجھتا ہی نہیں ہے
میں اُس کی محبت میں گرفتار ہوا ہوں
جو میری محبت کو سمجھتا ہی نہیں ہے
یعنی میں تجھے اب تری اوقات دکھا دوں؟
یعنی تُو شرافت کو سمجھتا ہی نہیں ہے
وہ آدمی کہلانے کے لائق بھی نہیں جو
انسان کی عظمت کو سمجھتا ہی نہیں ہے
غالب شکَنی پر وہ اتر آتا ہے صادقؔ
جو شعر کی جدت کو سمجھتا ہی نہیں ہے
(محمد امین صادق۔اوگی، مانسہرہ)

۔۔۔
غزل
دل کے دشمن کبھی سانول نہیں ہونے والے
مسئلے بات سے یہ حل نہیں ہونے والے
سالہا سال گزرتے چلے جائیں گے مگر
آپ کے وعدے مکمل نہیں ہونے والے
جان اپنی بھی گنوائیں ترے دکھ سہہ سہہ کر
ہم مگر اتنے بھی پاگل نہیں ہونے والے
چشمِ غمناک سے پانی تو نکل آیا ہے
اِس سے جذبات معطل نہیں ہونے والے
یاں نظر ہوتی ہے پودوں کی تباہی پہ جمی
یہ علاقے کبھی جنگل نہیں ہونے والے
ایک در سے تو ملے گا ہمیں آب و دانہ
باب سارے تو مقفل نہیں ہونے والے
میرے رب آپ سے ملحق ہیں امیدیں ساری
ہم تمنا لئے بوجھل نہیں ہونے والے
فیصلہ کر کے نکل جا سرِ منزل حمزہ
پھر یہ صدمات مسلسل نہیں ہونے والے
( امیر حمزہ سلفی۔ اسلام آباد )

۔۔۔
غزل
کارِ دشوار کو آسان بنایا جائے
کیوں نہ انسان کو انسان بنایا جائے
میری ویرانیِ دل فرطِ مُسرّت ہو تجھے
دل اسی شرط پہ ویران بنایا جائے
شاخِ بوسیدہ گلِ تازہ کھِلا سکتی ہے
خاکِ تاریخ کو ڈھلوان بنایا جائے
شعلۂ حسن کہیں بجھ ہی نہ جائے میرا
منزلِ وصل کو آسان بنایا جائے
پھر جو عجلت میں کسی چیز کی تخلیق ہو تو
لازمی ہے اُسے حیران بنایا جائے
تاکہ اب ترکِ تعلّق کا کہیں ذکر نہ ہو
ایسی بکواس پہ تاوان بنایا جائے
(توحید زیب ۔رحیم یار خان)

سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔