مار خور اور ٹرافی ہنٹنگ

شائستہ انجم  اتوار 20 نومبر 2022
پاکستان کا قومی جانور معدومیت کے خطرے سے دوچار ۔ فوٹو : فائل

پاکستان کا قومی جانور معدومیت کے خطرے سے دوچار ۔ فوٹو : فائل

واہ کینٹ: پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں سرکاری اجازت کے بغیر چند نایاب جانوروں کا شکار ممنوع ہے جن میں مارخور سر فہرست ہے۔ سر اٹھائے کھڑے اس پہاڑی جانور کی شان ہی الگ ہے۔

بکرے سے مشابہت رکھنے والا مگر حجم میں اس سے قدرے بڑا گھاس پھوس چرنے والا ایک جنگلی چوپایہ ہے۔ مار خور کو پاکستان کا قومی جانور ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ ان 72 جانوروں میں شامل ہے جن کی تصاویر 1976میں عالمی تنظیم برائے جنگلی حیات کے جاری کردہ خصوصی سکہ جات کے مجموعے میں شامل ہے۔

’مار خور‘ فارسی زبان سے ماخوذ الفاظ ـ ’مار‘ اور ’خور‘ کا مرکب ہے۔ ’مار‘ کے معانی سانپ اور ’’خور‘‘ کا مطلب کھانے والا ہے۔ اس سے مراد دشمن کو کھا جانے والا ہے۔ یہی دو الفاظ پشتو زبان میں بھی مستعمل ہیں۔ اس کے نام کی وجہ تسمیہ اس جانور کا سانپوں کو مارنا ہے۔

لیکن ایک رائے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ اس کے مارخور کہلانے کی وجہ اس کے سانپ سے مشابہت رکھنے والے سینگ ہیں۔ مقامی لوک کہانیوں کے مطابق مارخور سانپ کو مار کر چبا جاتا ہے اور اس جگالی کے نتیجے میں اس کے منہ سے جھاگ نکلتا ہے جو نیچے گر کر خشک اور سخت ہوجاتا ہے۔ حکیم حضرات یہ خشک جھاگ ڈھونڈتے اور اس کو سانپ کے کاٹے میں بطور تریاق استعمال کرتے ہیں۔

مار خور زمین سے 65 تا 115سینٹی میٹر اونچا ہوتا ہے۔ اس کی لمبائی 132تا 186سینٹی میٹر اور وزن 32تا 110کلو گرام تک ہوتا ہے۔

سیاہی مائل بھورے اس جانور کی ٹانگوں کے نچلے حصے پر سفید اور سیاہ بال ہوتے ہیں۔ نر مارخور کی ٹھوڑی، گردن، سینے اور نچلی ٹانگوں پر مادہ کے مقابلے میں زیادہ لمبے بال ہوتے ہیں۔

مادہ کا رنگ سرخی مائل ہوتا ہے۔ اس کے جسم اور ٹھوڑی پر چھوٹے چھوٹے بال ہوتے ہیں لیکن گردن پر بالکل بال نہیں ہوتے۔ نر اور مادہ دونوں کے سینگ بل دار ہوتے ہیں جو سر کے قریب بالکل ساتھ ساتھ اوپر کی طرف بڑھتے ہوئے ایک ہو جاتے ہیں۔

نر کے سینگ 160سینٹی میٹر اور مادہ کے سینگ 25 سینٹی میٹر تک ہو سکتے ہیں۔ مارخور کے جسم کی بو عام گھریلو بکرے کے مقابلے میں تیز ہوتی ہے۔ یہ

600 سے 3600 میٹر تک کی بلندی پر پایا جا سکتا ہے۔

عام طور پر یہ شاہ بلوط، صنوبر اور زعفران کے جھاڑ زدہ جنگلوں میں بسیرا کرتے ہیں۔ مارخور جنگلی بکرے کی قسم کا دن بھر چرنے پھرنے والا ایک چرندہ ہے جو زیادہ تر صبح سویرے یا سہہ پہر کے وقت نظر آتا ہے۔

ان کی خوراک موسم کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ موسم گرما اور بہار میں ان کی خوراک گھاس پھوس ہوتی ہے جب کہ سردیوں میں یہ درختوں کے پتے کھاتے ہیں۔ جوڑے بنانے کا عمل سردیوں میں ہوتا ہے۔ نر ایک دوسرے کے سینگوں میں سینگ پھنسا کے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔

یہ اوسطاً 9 کی تعداد میں ایک ریوڑ کی شکل میں رہتے ہیں جس میں بالغ مادایں اور ان کے بچے شامل ہوتے ہیں۔ بالغ نر عموماً اکیلے رہنا پسند کرتے ہیں۔ ان کی آوازیں بکرے سے ملتی جلتی ہیں۔ موسم سرما کے اوائل میں نر اور مادہ ایک ساتھ کھلے گھاس کے میدانوں میں پائے جاتے ہیں جب کہ گرمیوں میں نر جنگلوں ہی میں رہتا ہے اور مادہ پتھریلی چٹانوں پر چڑھ جاتی ہیں۔

تحفظ جنگلی حیات کے اہل کار ان جگہوں پر جاکر ان کی تعداد کا جائزہ لیتے ہیں جہاں وہ یقینی طور پر پائے جاتے ہیں۔ یہ سروے سال میں ایک مرتبہ سردی اور دوسرا بہار کے موسم میں کیا جاتا ہے۔ مارخور ہمیشہ جھنڈ کی صورت میں مسلسل سفر کرتے رہتے ہیں۔ چوںکہ یہ عام طور پر اکیلے نہیں گھومتے اس لیے ان کی تعداد کا اندازہ لگانا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔

جنگلی بکرے کی خصوصیات کا حامل یہ جانور گلگت بلتستان کی ٹھنڈی فضاؤں کے علاوہ چترال اور کالاش کی حسین ترین وادیوں، وادیٔ ہنزہ اور کشمیر کی وادی نیلم کے بالائی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔

پاکستان کے علاوہ بھارت، افغانستان، ازبکستان اور تاجکستان کے کچھ علاقے بھی اس قیمتی اور کم یاب جانور کے مسکن ہیں۔ 2011 میں مارخور کی تعداد 2500 رہ گئی تھی لیکن اس وقت دنیا میں ایک اندازے کے مطابق بالغ مارخور کی تعداد 2500 یعنی ڈھائی ہزار سے بھی کم رہ گئی ہے۔ پاکستان کی سرحد کے قریب بھارت میں اب بھی ان کا شکار کیا جاتا ہے۔

تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان میں مارخور کے شکار کا مقصد محض اس کے لذیذ اور نایاب گوشت سے لطف اندوز ہونا ہی نہیں بلکہ ان کے سینگ حاصل کرنے کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔

اس کے سینگ مختلف دیسی ادویات بنانے میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ عالمی تنظیم ’’بین الاقوامی اتحاد برائے تحفظ قدرت‘‘ کے مطابق اس نوع کا شمار ان جانوروں میں کیا جاتا ہے جن کا وجود خطرے میں ہے۔ خیبر پختون خواہ کے دو اضلاع چترال اور کوہستان میں پائے جانے والا مارخور ٹھنڈے خشک اور سنگلاخ پہاڑی علاقوں میں رہتا ہے اور انہی جگہوں میں رہنا پسند کرتا ہے۔

اس کی رعب دار جسامت اور قدوقامت کے علاوہ اس کے غیرمعمولی اور نمایاں اس کے مضبوط اور مُڑے ہوئے سینگ ہیں۔ اس کے سینگوں کی لمبائی 143سینٹی میٹر تک ہو تی ہے ۔ عمودی پہاڑی (90ڈگری) پر بھی بہ آسانی اور تیز دوڑنے والا یہ جانور نہایت سخت جان ہوتا ہے۔

اس کی مشہور تین اقسام میں استور مارخور، بخارائی مارخور اور کابلی مارخور ہیں ۔ چترال میں موجود کشمیری مارخور پاکستان کے علاوہ پوری دنیا میں اور کہیں نہیں پایا جاتا جس کے سینگوں کی لمبائی 70 انچ سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی ختم ہوتی نسل کے تناظر میں اسے اقوام متحدہ کی خطرے کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ مارخور پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی ISI کا نشان بھی ہے۔

مارخور کے شکار کو دنیا بھر میں قانون کے تحت بطور ٹرافی ہنٹنگ 80 اور 90 کی دہائی میں متعارف کرایا گیا جب کہ پاکستان میں اکیسویں صدی کے آغاز میں اس کی ابتدا کی گئی۔ یہاں ہر سال کئی غیرملکی شکاری محکمہ وائلڈ لائف (محکمہ تحفظ جنگلی حیات) کی مدد سے ٹرافی ہنٹنگ کی اجازت کے حصول کے لیے بھاری فیس ادا کرتے ہیں۔

مارخور کا شکار کرنے کے لیے شکاری ہر سال امریکا، برطانیہ، اسپین ، روس، ترکی اور دیگر یورپین ممالک سے بڑی تعداد میں لاکھوں روپے خرچ کر کے پاکستان آتے ہیں۔

غیرملکی شکاری کے لیے کسی بھی نایاب جانور کا شکار کرنا ایک بڑا کھیل سمجھا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں مارخور اپنے منفرد سینگوں کی وجہ سے بہت اہمیت کا حامل ہے جنہیں شکاری بطور ٹرافی اپنے گھر میں آویزاں کر کے ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لیتے ہیں اور اسے اپنے لیے باعث اعزاز سمجھتے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ مارخور کے مرنے کے بعد اس کے سینگ گوشت کی طرح مٹی میں تحلیل نہیں ہوتے ۔ ان سینگوں کی قیمت پاکستانی چار سے پانچ لاکھ روپے تک ہوتی ہے۔

ما رخور کے ٹرافی ہنٹنگ سے ملنے والی رقم کا 80 فی صد حصہ مقامی آبادی میں تقسیم کر دیا جاتا ہے جب کہ 20 فی صد اس قومی جانور کے تحفظ پر صرف کی جاتی ہے۔

مقامی لوگوں کے مطابق بیشتر رقم علاقے میں بنیادی ڈھانچا بہتر بنانے پر خرچ کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل اس جانور کے تحفظ میں مقامی افراد ہی سب سے زیادہ پیش پیش ہوتے ہیں۔

ملک کے دیگر علاقوں کی طرح گلگت بلتستان میں بھی مارخور کی غیرقانونی شکار کی وجہ سے اس کی نسل ختم ہوتی جا رہی تھی مگر حکومتی اور عالمی اداروں کی مارخور کے تحفظ کے لیے شروع کی گئی ٹرافی ہنٹنگ کی حکمت عملی سے اس شکار کو محدود کر کے اس جانور کو کافی حد تک محفوظ کیا جا چکا ہے۔

مزید یہ کہ گلگت بلتستان کے علاقوں اسکردو، ٹونجی، گلگت خاص، جوٹیاں نالے، کرغہ نالے، سکندر آباد اور ہنزہ کے مقامات پر اب مارخور بڑی تعداد میں پائے جانے لگے ہیں اور ان مقامات پر کام یاب شکار بھی ہوتے رہتے ہیں۔

مقامی آبادی کو بیشتر رقم ملنے کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو مارخور کا اصل محافظ سمجھتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب اس کے غیرقانونی شکار میں کمی واقع ہوئی ہے۔

ملکی اور غیرملکی اداروں نے مارخور کو بدستور معدوم ہونے کے امکان سے دوچار ہونے والے جانوروں کی فہرست میں شامل کردیا ہے۔

اس خطرے کے پیش نظر اس کی حفاظت کے لیے پاکستان میں ہر سال مارخور کے شکار کے ایک تعین شدہ محدود یعنی 12اجازت نامے جاری کیے جاتے ہیں۔ ان میں چار خیبر پختون خواہ اور چار چار بلوچستان اور گلگت بلتستان کے لیے جاری کیے جاتے ہیں۔

واضح رہے کہ مارخور اور آئی بیکس میں فرق ہے۔ آئی بیکس کے شکار کے لیے ایک سے پانچ لاکھ روپے تک کا اجازت نامہ حاصل کیا جا سکتا ہے جب کہ مارخور کے شکار کا اجازت نامہ پاکستانی ایک کروڑ روپے سے زائد تک کا بھی ہو سکتا ہے۔

ضلع خیبر پختون خواہ کے محکمہ جنگلی حیات (وائلڈ لائف) کے تحت مارخور کے شکار کے پرمٹ کی نیلامی کی جاتی ہے جس سے اسے کثیر آمدنی حاصل ہوتی ہے۔

اب تک پاکستان کے قومی جانور مارخور کے شکار کا ایک اجازت نامہ 2کروڑ 70لاکھ (27000000 ) روپے میں بھی فروخت ہوا ہے۔ ایک اجازت نامے سے صرف ایک ہی شکار کیا جا سکتا ہے۔ شکار پر پابندی سے مارخور کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں اسے معدومی کے خطرے سے نکال کر ENDANGORED کے درجے میں شامل کر دیا گیا۔ ٹرافی ہنٹنگ کا بہتر وقت نومبر سے اپریل تک ہوتا ہے۔

غیرملکی اور مقامی شکاری اپنے شکار کے لیے ہتھیار اور عملہ ساتھ لاتے ہیں اور اپنا اجازت نامہ لے کر متعلقہ علاقے میں جاتے ہیں جہاں وائلڈلائف کا عملہ ان کو لے کر پہاڑوں میں جاتا ہے۔

شکار کی نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے محکمہ تحفظ جنگلی حیات شکار کیے جانے والے علاقے کا شکار سے قبل معائنہ کر کے شکاری کو باخبر کر دیتا ہے۔ شکاری کم عمر اور مادہ مارخور کا شکار نہیں کرسکتا۔ شکاری 6 سال سے زائد عمر کے مارخور کا ہی شکار کر سکتا ہے۔ 6سال سے زائد عمر کے مارخور کے سینگ بڑے ہوتے ہیں جب کہ اس کی افزائش نسل کی استعداد بھی کم ہوجاتی ہے۔

محکمہ جنگلی حیات کے اہل کاروں کو بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے کہ کون سا مارخور علاقے کے کس حصے میں بسیرا کرتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ ایک مارخور چترال سے کوہستان چلا جائے بلکہ وہ اپنی حدود میں ہی رہتا ہے۔ عام طور پر مارخور صبح سویرے اور شام کے وقت حرکت کرتا ہے۔ مارخور کا شکار صبح سویرے ہی ممکن ہوتا ہے۔

یہ ایک دل چسپ امر ہے کہ مارخور جس جگہ رہتا ہے اپنے آپ کو اس طرح اس ماحول میں ڈھال لیتا ہے کہ اسی کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ اسے قریب سے بغور دیکھے بغیر پتھروں سے میمز کرنا دشوار ہوتا ہے ۔ شکار کے وقت شکاری کو بہت احتیاط سے نشانہ بنانا ہوتا ہے کیوںکہ نشانہ خطا ہونے کی صورت میں مارخور بھاگ جاتا ہے اور پھر انسان کی دسترس میں نہیں آسکتا۔

تاہم اس صورت میں شکاری کے پاس دوسری بار نشانہ بنانے کا موقع ہوتا ہے۔ غیرملکی شکاری عموماً شکار کے بعد مارخور کے سینگ، کھال اور سر اپنے ساتھ لے کر جاتے ہیں لیکن اسے کھانے میں دل چسپی نہیں رکھتے۔ مقامی شکاری اس کے لذیذ گوشت سے لطف اندوز ہونے میں تامّل نہیں کرتے۔

ٹرافی ہنٹنگ کی مخالفت میں جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ خطرے کا شکار جانوروں کا شکار کرکے کس طرح ان کی تعداد بڑھائی جا سکتی ہے؟ مارخور اس لیے خطرے کا شکار ہوا تھا کہ اس کو طبعی عمر پوری نہیں کرنے دی جا رہی تھی۔ اور اب یہی کام حکومتی نگرانی میں کیا جا رہا ہے۔

اس سے شاید کچھ وقتی فائدے حاصل ہو جائیں مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ جانور اپنی طبعی عمر پوری نہ کر ے اور اس کی افزائش بھی ہو۔ جنگلی حیات کی بقا دراصل قدرتی نظام کے تحت ہی ہو سکتی ہے کہ کبھی جانور خود کسی دوسری جنگلی حیات کا شکار بنتے ہیں اور کبھی کسی کو اپنا شکار بناتے ہیں۔ اس نظام میں جب انسان مداخلت کرتے ہوئے ان کا شکار کریں گے تو یہ قدرتی نظام تباہ ہوجائے گا۔

اس سے صرف ایک مارخور یا کسی ایک جنگلی حیات پر فرق نہیں پڑتا بلکہ پورا جنگلی حیات کا نظام متاثر ہوتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس ظالمانہ ٹرافی ہنٹنگ کو ممنوع قرار دے کر مارخور سمیت تمام جانوروں کو اپنی طبعی عمر پوری کرنے دے۔

جنگلی حیات کے ماہرین کے مطابق ٹرافی ہنٹنگ جانوروں کی افزائش نسل کا سب سے بہتر اور مانا ہوا طریقۂ کار ہے۔ اس سے حاصل ہونے والی رقم مقامی کمیونٹی میں تقسیم ہوتی ہے جس سے ان کے اندر احساس ذمے داری پیدا ہوتا ہے اور وہ جانوروں کے تحفظ کے لیے آگے بڑھتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ 2008میں مارخور صرف 2575اور اب ان کی تعداد 4500تک پہنچ چکی ہے۔ یہی نہیں بلکہ مارخور کی مجموعی تعداد پوری دنیا میں تقریباً 6000 ہوسکتی ہے۔

جس کا سب سے بڑا حصہ اب بھی ہمارے پاس ہے۔ ٹرافی ہنٹنگ کی بدولت مقامی کمیونیٹز نے آگے بڑھ کر خطرے کا شکار جانوروں کا تحفظ کیا جس کے بڑے اچھے نتائج اب سب کے سامنے ہیں۔

ٹرافی ہنٹنگ کے دوران کبھی بھی کسی جوان جانور کو نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ ہمیشہ ایسے جانوروں کو نشانہ بنایا گیا جو بوڑھے ہوں۔ اس لیے ماحولیاتی نظام تباہ ہونے کی بات بھی درست نہیں ہے۔ پاکستان میں جنگلی حیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ قومی جانور مارخور کی معدوم ہوتی ہوئی نسل کو بچانے کے لیے حکومت کی طرف سے شروع کی گئی ٹرافی ہنٹنگ کی اسکیم کافی حد تک کام یاب رہی جس سے اس جانور کی تعداد ہر سال بڑھتی جا رہی ہے۔

اس کے باوجود اس نایاب جانور کو بدستور خطرے میں شمار کیا جاتا ہے۔ خیبر پختونخوا میں محکمہ جنگلی حیات کے ماہرین کے مطابق 80کی دہائی میں ملک بھر میں مارخور کے غیرقانونی شکار کے باعث اس کی نسل ختم ہونے کے شدید خطرات لاحق ہوگئے تھے۔

حکومت اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے سرگرم عالمی اداروں کی شرکت سے ٹرافی ہنٹنگ کی اسکیم شروع کی گئی۔ اس کا بنیادی مقصد مارخور کے شکار کو قابو میں لانا تھا اور اس کے علاوہ مقامی آبادی کو بھی اس پورے عمل میں شریک کرنا تھا تاکہ نایاب نسل کو بچایا جا سکے۔

خیبر پختون خوا میں چترال واحد ضلع ہے جہاں مارخور بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ ابتدا میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں ٹرافی ہنٹنگ کے لیے ہزاروں ڈالر کی بولی لگتی تھی لیکن آج کل پاکستان بھر میں سب سے زیادہ بڑی بولی چترال میں لگتی ہے جہاں گذشتہ سال ایک لاکھ ڈالر میں ٹرافی ہنٹنگ کا اجازت نامہ فروخت ہوا جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔

ٹرافی ہنٹنگ کا پروگرام 80کی دہائی میں شروع کیا گیا تھا جو جنگلی حیات کی نایاب نسل کی بین الاقوامی کنوینشن کے تحت ہوتا ہے اور گلگت بلتستان کے صرف مخصوص علاقوں میں ہی اس کی اجازت ہے۔

کوئی بھی شخص اگر غیر قانونی شکار میں ملوث پایا جائے تو اسے پکڑ کر سزا دی جاتی ہے۔ ایک مارخور کی قیمت تین سے چار کروڑ ہوتی ہے۔ مارخور کے سینگ جتنے بڑے ہوتے ہیں اس لحاظ سے اس کی قیمت بھی زیادہ ہوتی ہے۔

محکمہ وائلڈ لائف سروے رپورٹ کے مطابق 2019 میں مارخوروں کی تعداد 2868تھی جب کہ گذشتہ برس مارخوروں کی تعداد کم ہو کر 2000رہ گئی۔ لمحہ فکر یہ یہ ہے کہ اس نایاب نسل کے غیرقانونی شکار پر پابندی کے باوجود یہ تعداد کیسے کم ہوتی جا رہی ہے۔

خاص طور پر چترال کے وہ علاقے جہاں شکار ممنوع ہے وہاں کیسے مارخور کی تعداد گھٹ رہی ہے؟ ملکی شکاریوں کے لیے مارخور کا شکار ممنوع ہے مگر باعث تشویش بات یہ ہے پاکستان کی مقتدر اور بااثر شخصیات اس کا غیرقانونی شکار کر کے اس کے لذیذ گوشت سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔

ٹرافی ہنٹنگ کے حق میں یہ مضبوط دلیل دی جاتی ہے کہ مارخور کے شکار پر پابندی سے اس کا تحفظ کرنے والے اپنے معاش کو مستحکم کرتے ہیں، جب کہ ایک خاص عمر کے بعد ویسے بھی مارخور کو طبعی موت مر ہی جانا ہوتا ہے۔ ٹرافی ہنٹنگ سے مقامی افراد کے فلاح و بہبود کے لیے بہت کچھ کیا جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔