لبنان کی حیران کن خاتون

فریحہ حسین  اتوار 20 نومبر 2022
اٹھائیس سالہ انٹیرئیر ڈیزائنر نے اپنے ہی بینک اکاؤنٹ سے اپنی ہی رقم حاصل کرنے کا ایسا راستہ کھولا جو مقبول ہو رہا ہے ۔ فوٹو : فائل

اٹھائیس سالہ انٹیرئیر ڈیزائنر نے اپنے ہی بینک اکاؤنٹ سے اپنی ہی رقم حاصل کرنے کا ایسا راستہ کھولا جو مقبول ہو رہا ہے ۔ فوٹو : فائل

 یہ چودہ ستمبر کا دن تھا جب لبنان کے دارالحکومت بیروت میں واقع ’بلوم بینک‘ کی ایک برانچ میں ایک خاتون مسلح ہوکر داخل ہوئی،اس نے بینک ملازمین کو یرغمال بنایا اور بینک میں اپنے ہی اکاؤنٹ سے رقم کی ادائیگی کا مطالبہ کرنے لگی۔

یہ رقم تقریباً 13ہزار ڈالر امریکی بنتی تھی۔ خاتون کے ساتھ مزید چند لوگ بھی تھے۔ انھوں نے بینک برانچ کو ایک گھنٹے تک بند کیے رکھا ۔ جب اسے مطلوبہ رقم مل گئی۔

وہ ویسے ہی بینک سے باہر نکل گئی جیسے بینک میں داخل ہوئی تھی ۔ یہ واقعہ رونما ہونے کے فوراً بعد خبریں نشر ہوئیں کہ خاتون کوگرفتار کر لیا گیا تاہم حقیقت یہ تھی کہ خاتون پلاسٹک بیگ میں نقدی سمیت موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئی۔

سالی حافظ نے یہ راستہ کیوں اختیار کیا ؟

’’ بینک ڈکیتی ‘‘ کے بعد سوشل میڈیا پر اس 28 سالہ خاتون نے اپنا نام ’’ سالی حافظ ‘‘ بتایا ۔ وہ بنیادی طور پر ایک انٹیریر ڈیزائنر ہے۔

ان دنوں ’ وادی البقاع ‘ میں کہیں روپوش ہے۔ یہ مشرقی لبنان کی ایک خوبصورت اور زرخیز وادی ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ کوئی جرائم پیشہ نہیں ہے، پھر اس نے ساری کہانی سنائی کہ اس نے یہ سب کچھ کیوں کیا ؟ اور کیسے کیا ؟:

’’ آپ جانتے ہیں کہ ہم مافیاز کے ملک میں رہتے ہیں، اگر آپ بھیڑیے نہیں ہیں تو باقی بھیڑیے آپ کو چیرپھاڑ کر ہڑپ کر جائیں گے ۔ معاشی بحران سے پہلے ہم دیگر متوسط طبقہ کے لوگوں کی طرح اچھی بھلی زندگی گزار رہے تھے ۔

جب یہ بحران شروع ہوا تو ہم آہستہ آہستہ اپنی ہی بچت کے طور پر رکھوائی ہوئی جمع پونجی نکلوا کر اپنی روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے پر مجبور ہوئے۔ پھر ہمارے گھریلو حالات مشکلات کا شکار ہوئے جب میری 22 سالہ بہن برین کینسر کی شکار ہوئی ۔

ہم اپنے گھر کا بہت سا سامان فروخت کرنے پر مجبور ہوئے کیونکہ بینک ہمیں مطلوبہ رقم دینے کو تیار نہیں تھا ، بہرحال مجھے اپنی بہن کے مزید علاج کے لیے مزید رقم کی ضرورت تھی۔ بینک میں میرے 20 ہزار ڈالر پھنسے ہوئے تھے ۔

اب اپنی بہن کے علاج کے لیے اپنا گردہ فروخت کرنے کے بارے میں بھی سوچ رہی تھیں۔ کئی بار رقم نکلوانے کے لیے بینک گئی لیکن مجھے بتایا جاتا تھا کہ آپ ایک ماہ میں صرف 200 ڈالر کے برابر لبنانی پاؤنڈز نکلوا سکتی ہیں ۔ میں نے اپنی رقم حاصل کرنے کے لیے برانچ مینیجر کے سامنے التجا کی، انہیں بتایا کہ میری بہن مر رہی ہے ، میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔

پھر میں اس نتیجے پر پہنچی کہ گن پوائنٹ پر رقم حاصل کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں، چنانچہ میں نے اپنے بھانجے کی کھلونا گن پکڑی اور بینک پہنچ گئی۔

جیسے ہی میں بینک میں داخل ہوئی، دروازے بند تھے، میں نے بینک والوں سے کہا کہ میرا نام ’سالی حافظ‘ ہے، میں بینک میں اپنی بہن کے لئے اپنی ہی رقم نکلوانے آئی ہوں جو اس وقت ہسپتال میں مر رہی ہے۔

میں کوئی جرائم پیشہ نہیں ہوں، یہاں لڑنے یا غل غپاڑہ کرنے نہیں آئی۔ میں صرف اپناحق واپس چاہتی ہوں۔ مجھے خبر ہے کہ بینک والے ہماری ہی رقم چوری کر رہے ہیں۔ بہرحال میں نے اپنی مطلوبہ رقم نکلوائی، باقاعدہ بینک رسید کے ساتھ۔‘‘

اس واقعہ کے فوراً بعد پولیس نے ’سالی حافظ‘ کے گھر کا محاصرہ کر لیا لیکن جب سالی نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر لکھا کہ وہ اس وقت بیروت ائیرپورٹ پر ہے اور جہاز استنبول (جہاں اس کی بہن زیرعلاج تھی) کی طرف اڑ رہا ہے، تب پولیس نے اس کے گھر کا محاصرہ ختم کردیا۔ ’سالی حافظ‘ نے ایک حاملہ خاتون کا روپ دھارا اور لبنان سے نکل گئی۔

 عینی شاہد نے کیا دیکھا؟

بینک میں موجود ایک صارف ’ندین نخل‘ بھی موجود تھا، بعدازاں اس نے صحافیوں کو بتایا کہ خاتون اور اس کے ساتھیوں نے اندر گیسولین پھیلائی اور آگ لگانے کی دھمکی دیتے ہوئے لائٹر نکال لیا۔ مسلح خاتون نے رقم نہ ملنے پر مینیجر کو گولی مارنے کی دھمکی بھی دی تھی۔

اس خاتون کے ساتھ آنے والے افراد ’ڈیپوزٹرز آؤٹ کرائی‘ نامی گروپ سے تعلق رکھتے تھے۔ بینک کے باہر سکیورٹی اہلکاروں نے کئی افراد کو گرفتار کر لیا، جن میں سے کئی مردوں نے ہینڈ گنز اٹھا رکھی تھیں۔

ابراہیم عبداللہ ان لوگوں میں شامل تھا جو ’سالی حافظ‘ کو ’’بینک ڈکیتی‘‘ کرتے دیکھ رہا تھا، وہ یہ سب کچھ دیکھ کر بہت خوش ہو رہا تھا۔ وہ کہتا ہے: ’’سالی حافظ نے جو کچھ کیا، یہ ڈکیتی نہیں تھی بلکہ بینکوں سے اپنی رقم واپس لینے کا عمل تھا۔

یہ بینک ہی ہیں جو ہماری رقم پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔‘‘ ابراہیم عبداللہ نے بتایا کہ بینکوں نے اسے لاکھوں ڈالرز سے محروم کر رکھا ہے۔ یہ وہ رقم ہے جو اس کے 17سالہ کیرئیر کی جمع پونجی ہے۔ وہ دوبئی کی بڑی کمپنیوں میں ملازمتیں کرتا رہا ہے۔

’سالی حافظ‘ اپنی ہی رقم حاصل کرنے کے لئے’’بینک ڈکیتی‘‘ کرنے پر مجبور کیوں ہوئی؟دراصل لبنان میں بینکوں میں نقد رقوم کی کمی کے باعث سنہ 2019ء سے غیر ملکی کرنسی نکلوانے پر پابندی عائد ہے، جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی رقوم بینکوں میں پھنسی ہوئی ہیں۔ اگر کوئی اپنے فارن کرنسی اکاؤنٹس سے رقم نکوالنے کی کوشش کرے گا تو اسے مارکیٹ ریٹ سے کہیں کم شرح پر دی جائے گی۔

اس کے نتیجے میں اکاؤنٹ ہولڈر جب فارن کرنسی نکوالتا ہے تو بینک اس سے اچھی خاصی رقم بٹور لیتے ہیں۔ لوگ اس پر سخت اضطراب کا شکار ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ لبنان میں حالیہ دنوں میں ایسے ہی متعدد واقعات پیش آ چکے ہیں۔

مزید ’’بینک ڈکیتیاں‘‘

بیروت میں’ سالی حافظ‘ کے کھلونا پستول سے بینک کے عملے کو یرغمال بنا کر اپنی رقم نکلوانے کے بعد سے کئی صارفین نے یہی طریقہ اختیار کیا۔ عالیہ شہر میں ایسا ہی ایک دوسرا واقعہ پیش آیا جب ایک نوجوان نے ایک بینک برانچ پر دھاوا بول کر اپنی رقم کا مطالبہ کیا تاکہ وہ اپنی بیمار عزیزہ کا علاج کروا سکے۔

اسی طرح لبنان کے شہر سیڈون میں تین سال سے منجمد اپنے اکاؤنٹ میں رقم نہ نکالنے والے ڈیپازٹر نے بینک پر دھاوا بول کر بینک کے اندر موجود افراد کو یرغمال بنا لیا۔ صیدا شہر میں بھی ایک شہری اپنی رقم نکالنے کے لیے نجی بینک کی برانچ میں داخل ہوا، اس نے بینک کے دروازے کو تالا لگا دیا۔

وہ کسی کو اندر آنے یا باہر جانے نہیں دے رہا تھا۔ اس نے اعلان کیا کہ جب تک اسے اپنی رقم واپس نہیں ملتی، وہ کہیں نہیں جائے گا۔ اسی دوران میں سکیورٹی فورس کے افسران نے اس شخص کو راضی کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اپنی ضد پر قائم رہا۔

لبنان کے جنوب میں واقعہ ایک قصبہ ’غازیہ‘ میں بھی ایک شخص پستول اور ایندھن سے بھرے جیری کین کے ساتھ بینک میں گھس گیا۔ اس نے ایندھن سے بھرا جیری کین فرش پر ڈھیر کر دیا اور پھر اپنے ہی اکاؤنٹ میں موجود رقم مانگنے لگا۔ بینک والوں نے اسے19ہزار ڈالرز تھما دیے، جیسے ہی وہ بینک سے باہر نکلا، پولیس نے اسے حراست میں لے لیا تاہم عین اسی وقت اس ’ ڈکیت‘ کی حمایت میں ایک بڑا ہجوم سڑک پر جمع ہوگیا۔

پھر بیروت شہر ہی میں باسم شیخ نامی ایک ڈرائیور نے بھی بینک عملہ کے دس افراد کو بندوق کی نوک پر یرغمال بنا لیا۔ سکیورٹی اور بینک حکام کے ساتھ سات گھنٹوں تک چلنے والی بات چیت کے بعد باسم شیخ اپنی رقم میں سے 35000 ڈالر لینے اور خود کو پولیس کے حوالے کرنے پر رضامند ہو گیا۔ اس واقعے کے بعد لوگوں نے اسے بھی ’’ہیرو‘‘ قرار دیدیا۔

بینک برانچز پر کھاتہ داروں کے دھاووں کے اضافے کے نتیجے میں بینکوں کی ایسوسی ایشن نے تین دن کے لیے کام بند کر دیا۔ بینکوں پر کھاتہ داروں کے دھاوا بولنے کے واقعات میں اضافے کو دیکھتے ہوئے وزیر داخلہ بسام مالاوی نے ہنگامی اجلاس طلب کیا۔

اجلاس کے بعد وزیر داخلہ کا کہنا تھا : ’اپنا حق اس طریقے سے واپس لینے سے ملکی نظام ٹوٹ پھوٹ سکتا ہے جس کے نتیجے میں دیگر کھاتہ دار اپنا حق کھو دیں گے۔‘

بینک ’ ڈکیتیوں‘ کا طویل پس منظر

لبنان میں ان بینک ’ڈکیتیوں‘ کا ایک طویل پس منظر ہے اور وہ ہے لبنان میں معاشی بحران ۔ 1975ء سے پہلے لبنان مشرق وسطیٰ کا پیرس سمجھا جاتا تھا، پھر 1975ء میں لبنان میں عیسائیوں اور مسلمانوں ( جو نسبتاً غریب تھے) کے درمیان خانہ جنگی پھوٹ پڑی ۔ خانہ جنگی تقریباً پندرہ سال جاری رہی۔

اس میں تقریباً دو لاکھ افراد موت کے گھاٹ اتر گئے۔ 1975ء سے لے کر 1990ء تک جاری جنگ کی وجہ سے ملک میں وارلاڈز اور ملیشیاز کا راج رہا اور لاقانونیت نے ملک کو تباہ کر دیا ۔ خانہ جنگی نے مشرق وسطی کے پیرس کو سیاسی اور معاشی طور پر تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔

جنگ سے نکلنے کے بعد اس کی از سرِنو تعمیر نے اسے ایک بار پھر مشرق وسطی کا ایک پھلتا پھولتا ملک بنا دیا۔ یہاں سرمایہ کاری بھی ہونے لگی مگر لبنان ابھی پوری طرح آب و تاب نہ حاصل کر پایا تھا کہ اسرائیل نے دو فوجی رہا کروانے کا بہانہ کر کے2006 ء میں لبنان پر حملہ کر دیا۔

اس بیرونی جارحیت کے نتیجے میں روبہ صحت معیشت پھر شدید طور پر بدحال ہو گئی، اور پھر اس کی حالت مسلسل خراب ہوتی چلی گئی۔ اس معاشی خرابی کی وجوہات کچھ دیگر بھی تھیں۔ مثلاً متنوع آبادی، اس کے نتیجے میں لبنان میں مختلف دھڑوں اورگروہوں میں جاری سیاسی کشمکش اور پھر کورونا وائرس کی وبائ۔ اس وقت لبنان کی معاشی حالت جس قدر خراب ہے، اس کی وجہ سے شہریوں کو بنیادی ضروریات کی فراہمی میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

 لبنان کی تباہ حال معیشت

عالمی بنک کے مطابق سن1800ء کے بعد، لبنان میں آنے والا یہ سخت ترین معاشی بحران ہے۔ 2019 ء سے لبنانی پونڈ کی قدر90 فیصد کم ہوئی۔ 2020 ء میں ملکی معیشت 20 فیصد اور2021 ء میں مزید15 فیصد تک سکڑ گئی ۔ اس کے نتیجے میں مہنگائی میں550 فیصد اضافہ کی وجہ سے ملک کے تین چوتھائی لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ضروری اشیاء کی سپلائی محدود ہو چکی ہے۔

پچھلے سال تک پارلیمان کا اجلاس بھی اندھیرے میں کرنا پڑا کیونکہ بجلی کے پیداواری اداروںکے پاس ایندھن تھا نہ ایندھن خریدنے کی رقم ۔ اب لبنان میںکھانے کی دکانوں کے باہر لوگوں کی لمبی قطاریں دکھائی دیتی ہیں۔ یہاں ایسے لوگ بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جوکچرے کے ڈھیر سے کھانا ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح اسپتالوں میں ادویات کی شدید قلت ہے۔

سیاسی نظام کی ناکامی، بے قابو کرپشن اور مختلف مذہبی فرقوں کی نمائندگی کرتی سیاسی جماعتوں کے مابین اختلافات نے ملکی حالات کو مزید مایوس کن بنا دیا ہے۔ ایک عرصہ سے لبنان کے دیوالیہ ہونے کے امکانات ظاہر کیے جا رہے تھے مگر اس سے بچنے کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے۔

اب حال یہ ہے کہ لبنان بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مطالبات کو پورا کرنے کی پوزیشن میں ہے نہ 2022 ء کا سالانہ بجٹ منظور کرانے میں کامیاب ہو سکا۔ اس وقت لبنان کا قرض تقریباً 90 ارب ڈالر یا ملک کی جی ڈی پی کا 17 فیصد ہے جب کہ غیر ملکی مالی امداد کے لیے ملک میں مالی اصلاحات ناگزیر ہو چکی ہیں۔

سیاسی رسہ کشی، منصوبہ بندی کے فقدان اور اقرباء پروری نے مشرق وسطی کے پیرس کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ڈوبتی معیشت کو سہارا دینے کے لیے اور مقامی کرنسی کی قدر بہتر کرنے کے لیے بینکوں نے پیسے نکالنے پر سخت پابندی لگا دی لیکن اس کے نتیجے میں اکاؤنٹ ہولڈرز نے’’ بینک ڈکیتیاں ‘‘ شروع کر دیں کیونکہ وہ بھی مجبور ہیں بلکہ سخت مجبور ۔ اکاؤنٹ ہولڈرز سمجھتے ہیں کہ انہی کی رقوم استعمال کرکے یہاں کا ایک مخصوص طبقہ امیر سے امیر تر ہو رہا ہے لیکن عام لوگوں پر پابندیاں ہیں کہ وہ اپنے ہی جمع کرائے ہوئے پیسے ایک مخصوص رقم سے زیادہ نہیں نکلوا سکتے۔

ان واقعات کے بعد لبنان بینک ایمپلائز یونین کا کہنا تھا :’’ ہمیں کوئی ٹھوس حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ لوگ بینکوں میں جمع اپنی رقم واپس چاہتے ہیں لیکن پیسے نہ ملنے پر ان کا غصہ بینک ملازمین پر نکلتا ہے کیوں کہ وہ اعلیٰ عہدیداروں تک نہیں پہنچ پاتے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔