کچن گارڈننگ

راؤ منظر حیات  ہفتہ 19 نومبر 2022
raomanzarhayat@gmail.com

[email protected]

ڈاکٹر وحید اکبر‘ امریکا میں ہڈیوں کے ڈاکٹر ہیں۔ حددرجہ مشاق اور بہترین سرجن۔ عمر کوئی ستر برس کے نزدیک ہو گی۔ مگر پچاس برس کے معلوم ہوتے ہیں۔

چند ماہ پہلے پاکستان تشریف لائے تو پیہم ملاقات رہی۔ ایک دن شام کو کھانے کے وقت ان کے ایک دوست تشریف لائے ہوئے تھے، کچھ دیگر‘ عزیز بھی تھے۔

ہمارا قومی مزاج ہے کہ جہاں ڈاکٹر نظر آ جائے ‘وہاں اس سے کوئی نہ کوئی طبی مشورہ ضرور لیتے ہیں۔ ویسے ڈاکٹر تک تو یہ معاملہ درست ہے مگر ہمارے ملک میں تو ہر بندہ‘ دوسرے کو صحت اور دیگر معاملات میں فیضیاب کرنا اپنا اولین منصب سمجھتا ہے۔کسی جگہ‘ ذرا ذکر کر دیجیے۔ کہ ہلکا سا بخار ہے یا بدن ٹوٹ سا رہا ہے۔ یقین فرمائیے۔ ایسے ایسے قیمتی مشوروں سے نوازا جائے گا کہ ششدر رہ جائیں گے۔

درختوں کی چھال سے لے کر پتوں تک ہر ٹوٹکا بتایا بلکہ سمجھایا جائے گا۔ بات ڈاکٹر وحید صاحب کی ہو رہی تھی۔ بہرحال جس سطح کے وہ ڈاکٹر ہیں ان سے مشورہ کرنا بنتا ہے۔ ایک دوست نے موقع پا کر ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ جسم کو بہتر اور درست رکھنے کا کیا طریقہ ہے۔

جواب حیران کن تھا۔ کہنے لگے۔ دیسی ہلدی کا ایک چمچ روزانہ استعمال کریں۔ میں خود بھی ڈاکٹر ہوں۔ لہٰذا چونک گیا۔ مزید کہنے لگے کہ ہلدی کا کوئی ایک فائدہ نہیںہے۔ یہ کینسر کے خلاف قوت مدافعت بڑھانے سے لے کر جسم میں معمولی دردوں تک کے لیے حد درجہ اکسیر ہے۔

ڈاکٹر صاحب کے تشریف لے جانے کے بعد میڈیکل کی کتاب نکال کر ہلدی کے متعلق غور سے پڑھا ۔ وحید صاحب کا کہنا بالکل درست تھا۔ ہلدی کے اتنے فوائد ہیں کہ زمانہ قدیم سے اسے زخموں کو بہتر کرنے اورجسمانی درد کو کم کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہاہے۔ برصغیر میں تو یہ رواج تھا کہ چوٹ لگنے کے بعد دودھ میں ہلدی گھول کر پلایا جاتا تھا۔ ویسے آج بھی سمجھدار لوگ ایسا ہی کرتے ہیں۔

نکتہ صرف ایک ہے کہ اگر آپ اپنی صحت برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ بلکہ مرتے دم تک قابل رشک حد تک صحت مند رہنا چاہتے ہیں۔ توحددرجہ سادہ غذا کی طرف آیئے ۔ اس کا پہلا حد درجہ سنجیدہ طریقہ یہ ہے کہ تمام پروسیسڈ فوڈ (Processed food) مکمل طور پر بند کر دیں۔ اس طرز کی خوراک میں بیکری آئٹم اور ہر طرح کی وہ خوراک جو کسی سطح پر بھی مصنوعی طور پر مکمل کی گئی ہو۔

اسے زہر قاتل گردانتے ہوئے فوری طور پر بند کردیں۔ ہر طرح کی پروسیسڈ فوڈ کی بابت عرض کر رہا ہوں ۔ بسکٹ سے لے کر ڈبل روٹی‘ کیک سے لے کر مٹھائی ‘ تمام ہر ایک کے لیے حد درجہ نقصان دہ ہیں۔ انھیں ترک فرما دیجیے۔ کیونکہ یہ آپ کو صحت کے معاملہ میں مشکلات کا شکار کر دیں گی۔

بات یہاںختم نہیں ہوتی بلکہ شروع ہوتی ہے۔تمام سبزیاں‘ جو گندے پانی سے سیراب کی جاتی ہیں۔ ان سے دور بھاگیے۔ آپ حیران ہونگے کہ چند سبزیوں کو تازہ اور بہتر دکھانے کے لیے انھیں تیزاب سے دھویا جاتا ہے۔ کوئی ان جاہل درندوں کو پوچھنے والا نہیں ‘ کہ تم سبزیاں فروخت کرتے وقت کیوں نہیں بتاتے کہ جناب یہ ادرک اس لیے توانا نظر آ رہا ہے کہ اس کو تیزاب سے صاف کیا گیا ہے۔

بہرحال یہ فیصلہ بذات خود آپ نے فرمانا ہے کہ فرسودہ سبزیوں سے کیسے جان بچانی ہے۔ یہی حال پھل کا ہے۔ نوے فیصد پھل‘ کیمیکل طور پر شاداب کیے جاتے ہیں۔ پھلوں کا بادشاہ‘ یعنی آم بھی اب محلول لگا کر پکایا جاتا ہے۔ قدرتی طرز پر پال میں لگا کر پکانے کا رواج دم توڑ چکا ہے۔

اگر غالب کے زمانے میں آم جیسے بہترین پھل کو کیمیکل لگا کر بہتر کیا جاتا تو شاید اسد اللہ خان غالب‘ آم کی تعریف میں لکھی ہوئی مثنوی تحریر نہ کر پاتے۔ ہو سکتا ہے کہ آم کھانے ہی ترک کر دیتے۔ بہرحال کسی پھل فروش سے مشورہ کر لیجیے۔ آپ کو بتا سکتاہے کہ فروٹ کو بہتر دکھانے کے لیے کیا کیا قیامت برپا کی جاتی ہے۔بالکل یہی معاملہ گوشت کا ہے۔

برائلرمرغیاں کیا کھاتی ہیں بلکہ انھیں کیا کھلایا جاتا ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ہمیں اس گوشت کے ذریعے کیا غلاظت کھلائی جاتی ہے۔ برائلر مرغیوں کو غور سے دیکھیے۔ اپنے پنجوں پر صحیح کھڑا ہونے سے قاصر ہیں۔ ہر ایک دومنٹ کے بعد بیٹھ جاتی ہیں۔ حد درجہ ناتوانی اور کمزوری کے باعث ۔ پورا ملک ان مرغیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ ذرا کسی جانوروں کے ڈاکٹر سے پوچھ لیجیے کہ یہ گوشت واقعی کھانا چاہیے یا نہیں۔ پل میں نفی میں جواب مل جائے گا۔ دودھ کا معاملہ بھی عجیب ہے۔

دودھ دینے والے جانوروں کو اس اس نوعیت کے ٹیکے لگائے جاتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ ملاوٹ کی بات نہیں کر رہا۔ وہ تو خیر دودھ میں ہر دم موجود ہوتی ہے۔ بھینس اور دیگر جانوروں میں دودھ کی مقدار کو زیادہ کرنے کے لیے خطرناک ہارمونز کے ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔ جو دودھ میں موجود رہتے ہیں یعنی زہریلا دودھ‘ ملاوٹ کے علاوہ بڑے فخر کے ساتھ پیا اور پلایا جاتا ہے۔ دودھ کی دکانوں پر مذہبی نام کنداں فرما کر اس قبیح کام کوچھپایا جاتا ہے۔

جب عرض کرتا ہوں کہ ہمارے سماج میں ہر سطح کے کاروباری افراد‘ مذہب کی آڑ لے کر صرف اور صرف منافع بڑھانے میں مصروف رہتے ہیں تو کئی احباب ناراض ہو جاتے ہیں ۔

مگر حقیقت یہی ہے کہ ہر طرح کے مذہبی نام والی کسی دکان پر خالص دودھ ناپید ہو گا۔ بہر حال ان معاملات پر اظہار خیال خطرے سے خالی نہیں ہے۔ ویسے سوال تو جائز ہے کہ وہ تمام ممالک جوکافر ہیں جیسے ناروے‘ انگلینڈ‘ امریکا اور سنگا پور‘ وہاں کھانے کی ہر چیز اتنی خالص کیوں ہوتی ہے ۔ وہاں ملاوٹ یا کیمیکل سے مرصع سبزیاں اور پھل کیوں نہیں ہوتے۔

سوال کر سکتے ہیں کہ جب کھانے کی ہر چیز ملاوٹ زدہ ہے تو کیا کھانا پینا ہی چھوڑ دیں۔ ہرگز نہیں ‘ بالکل نہیں۔ تھوڑی سی احتیاط کریں ۔ معمولی سی مشقت کریں۔ آپ کو ہر چیز خالص مل سکتی ہے۔

حد درجہ اعلیٰ حل تو کچن گارڈننگ (Kitchen Gardening) میںہے۔ کھانے کی سبزیاں ‘ پھل بڑے آرام سے گھر پر اگا سکتے ہیں۔ گھروں کی چھتیں نناوے فیصد خالی بلکہ ویران پڑی ہوتی ہیں۔ گھر ذاتی ہے یا کرائے پر رہتے  ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ معمولی سے گملے لیجیے۔ اس میں صاف ستھری مٹی ڈالیے۔ بازار سے ہر طرح کے بیج انتہائی مناسب دام پر مل جاتے ہیں۔ مٹی میں بیج لگایئے۔

پانی دیجیے اور روشنی میں گملے رکھ دیجیے۔ روزانہ ‘ دو بار‘ ان گملوں کو ملاحظہ کیجیے۔ چند ہفتوں میں بیج سے سبزیاں اور ہریالی نکلتی ہوئی صاف نظر آئے گی۔ تجرباتی طور پر پہلے سلاد میں استعمال ہونے والے پتے اور سبزیوں کے بیج لگایئے۔ نتائج دیکھ کر حیران رہ جائیں گے۔ ٹماٹر سے لے کر‘ بندگوبھی تک بلکہ تقریباً ہر سبزی بڑی آسانی سے گھر میں اگا سکتے ہیں۔ شاید آپ کو اندازہ نہیں کہ نہ صرف اپنے گھر کی ضروریات پوری کرنے کے علاوہ دوست احباب کو قیمتاً یا بطور تحفہ دینے کے لیے بھی کافی مقدار میں سبزی میسر ہو جائے گی۔

پھلوں کی انتہائی محدود اقسام‘ کچن گارڈننگ کے ذریعے اگائی جا سکتی ہیں۔ کچن گارڈننگ پر غور کیجیے۔ آپ کی زندگی بہتر ہو جائے گی۔ ضروری نہیں کہ چھت بہت وسیع ہو۔ ایک مرلے مکان کی چھت بڑے آرام سے اعلیٰ طور پر استعمال ہو سکتی ہے۔

لاہور میںکئی افراد کو جانتا ہوں جو حد درجہ محدود وسائل سے کچن گارڈننگ میں مصروف کار ہیں۔ چھوٹے چھوٹے کاروبار کامیابی سے سرانجام دے رہے ہیں۔ اگر بات پر یقین نہ آئے تو گوگل کر کے دیکھ لیجیے۔ جواب مل جائے گا۔ لاہور کے عبدالمجیدکانام بھی نظر آئے گا۔ کرائے کے پانچ مرلے کے مکان کی چھت پر عبدالمجیدصاحب نے کامیاب باغ بنا رکھا ہے۔ طرح طرح کی سبزیاں نہ صرف اپنے لیے اگاتے ہیں بلکہ ان کی مقدار اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ اسے فروخت کر کے کافی آسودہ حالی میں زندگی گزار رہے ہیں۔ جہاں تک گوشت کا تعلق ہے۔

اس سے جتنا اجتناب کر سکتے ہیں، بہتر ہے۔ مگر کیونکہ ہم لوگ بنیادی طور پر گوشت خور ہیں۔ اس لیے میری لکھی بات پر کوئی توجہ نہیں دے گا۔ حل بتا دیتا ہوں۔اگر کر سکتے ہیں تو چند دیسی مرغیاں پال لیجیے۔

گھر میں ڈربہ رکھنے کی جگہ نہیں ہے تو شراکت داری کی بنیاد پر دس بارہ مرغیاں کسی جگہ پر پال لیجیے۔ انھیں سارا دن کھلا چھوڑ کر رکھیں۔ ان کا دانہ مکمل طور پر دیسی طرز کا ہونا چاہیے۔ حد درجہ قلیل عرصے میں آپ کے پاس دیسی مرغیوں کا ذخیرہ ہو جائے گا۔ اگر جیب اجازت دیتی ہے تو دودھ دینے والے جانور اور گوشت کے لیے عام دیسی بکرے بھی رکھ لیجیے۔ آپ کی زندگی صحت کے اعتبار سے حد درجہ مناسب ہو جائے گی۔

کھاد اور کیمیکل شدہ کھانے پینے کی اشیاء نہ صرف مضر صحت ہیں بلکہ ہر طرح کی بیماریوں کی بنیاد ہیں۔ آٹا بھی چکی سے خریدیے۔ گزارش ہے کہ کچن گارڈننگ سے شروع کیجیے اور آہستہ آہستہ اپنی غذا کو سادہ اور بہتر بناتے جائیے۔ کسی قسم کے ڈاکٹر کی کبھی ضرورت نہیں پڑے گی۔ پروسیسڈ فوڈ کو اپنے کچن سے باہر پھینک دیجیے۔ یقین فرمائیے آپ اپنی صحت کو واپس لے آئیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔