فارن ہائٹ 451

زاہدہ حنا  اتوار 20 نومبر 2022
zahedahina@gmail.com

[email protected]

امریکا سے کیسی ناقابل یقین خبریں سامنے آئی ہیں۔ مثال کے طور پر یہی کہ ڈونلڈ ٹرمپ 2024 کے صدارتی انتخاب میں دوبارہ کھڑے ہو رہے ہیں۔ ہمارے لیے یہ ایک ناقابل یقین خبر ہے۔

امریکا میں بھی بہت سے لوگوں کو اس خبر پر یقین نہیں آیا ہوگا اور اسے سن کر ان کا دل ڈوب گیا ہوگا۔ امریکا واقعی ناقابل یقین کی سرزمین ہے۔ وہ ملک جہاں ہر وقت جمہوریت کا اور آزادیٔ تحریر و تقریر کا غلغلہ بلند ہوتا ہے، وہیں امریکیوں پر دوسری جنگ عظیم کے بعد وہ زمانہ گزرا ہے جسے مکارتھی ازم کا دور کہا جاتا ہے جس نے چارلی چپلن کو امریکا چھوڑنے پرمجبور کردیا اورجانے کتنے ادیب در در کی ٹھوکریں کھاتے رہے اور کتنوں نے قیدوبند کی صعوبتیں جھیلیں اور کتنے مارے گئے یا حالات سے تنگ آکر زندگی سے گزرے۔ ان ہی میں سے ایک آرتھر کوئسلر تھاجس نے 1983 میں خودکشی کی اور ایک رے بریڈ بری جس نے مشہور زمانہ ناول لکھا جس کی آج تک دھوم ہے۔

آرتھر کوئسلر جو 30ء کی دہائی میں بلغاریہ میں پیدا ہوا تھا اور جس نے انقلاب کا روس دیکھا تھا۔ اس نے یہ دیکھا کہ ’’مشکوک ‘‘ لوگوں کو جیل میں ڈال کر ان سے ہفتوں پوچھ گچھ کی جاتی تھی اور ان کے تفتیش کاروں کی ڈیوٹی بدل دی جاتی تھی۔ آرتھر کوئسلر سوال اٹھاتا ہے کہ یہ لوگ ایسا اپنی خوشی سے کرتے تھے یا وہ اپنے بیوی بچوں کی جان کے تحفظ کی خاطر ایسا کرتے تھے۔

یہ کتاب دسمبر 1940 میں منظر عام پر آئی اور ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوگئی۔ 1945کے فرانس میں یہ کتاب ڈھائی لاکھ کی تعداد میں فروخت ہوگئی۔ سیاسی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ 1946 میں ہونے والے فرانسیسی انتخابات میں اس نے اہم کردار ادا کیا۔ کوئسلر نے دو مرتبہ خودکشی کی ناکام کوشش کی اور یہ تیسری مرتبہ تھی جب وہ خودکشی میں کامیاب ہوا۔

’’فارن ہائٹ 451‘‘ یہ کتاب رے بریڈ بری نے 1953 میں لکھی اور اس نے دھوم مچادی۔ یہ ایک ایسے شہر کا قصہ تھا جہاں فائر بریگیڈ کا محکمہ تھا۔ دنیا میں ہر جگہ فائر بریگیڈ گھروں میں لگی ہوئی آگ بجھانے کے لیے ہوتا ہے لیکن یہ ایک ایسا شہر تھا جہاں کتابیں ڈھونڈھ کر جلائی جاتی تھیں۔ شہری انتظامیہ کا مقصد تھا کہ انسانوں کو عقل و دانش سے محروم کردیا جائے۔

ابتداء میں کسی بھی شخص کو جو آگ لگانے کے محکمے میں ملازم تھا ، اس صورتحال پر کوئی اعتراض نہ ہوا لیکن آہستہ آہستہ ان میں سے چند لوگوں کو احساس ہوا کہ اس طرح وہ اپنی عظیم تاریخ اور شاندار ادب سے محروم ہوجائینگے۔ تب انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہر شخص ایک کتاب کے چند باب زبانی یاد کر لے، یوں کوئی اس کتاب کے اگلے باب حفظ کر لے، اس طرح وہ کتاب محفوظ ہوجائے گی۔

ایک عجیب قصہ جسے رے بریڈ بری نے لکھا اور لوگوں کو اس میں آنے والے زمانے کی جھلک نظر آئی اور لوگ سہم گئے۔ بریڈ بری کا ایک کردار کہتا ہے۔ ’’ ہم بس آج چلنا شروع کردیں گے اور ہم دنیا دیکھیں گے اور دنیا کے طور طریقے ملاحظہ کریں گے کہ دنیا کیسے چلتی ہے، کون سی باتیںکرتی ہے اور یہ حقیقت میں کیسی نظر آتی ہے۔

اب میں ہر شئے کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ کچھ عرصہ تک تو مجھے اس کی بالکل بھی سمجھ نہیں آئے گی لیکن کچھ عرصے بعد جب یہ سب کچھ میرے اندر جمع ہونا شروع ہوگا تو پھر مجھے اس کی سمجھ بھی آنا شروع ہوجائے گی۔ اس دنیا کو دیکھو ذرا، میرے خدایا، او میرے خدا ! دیکھو اس کو، باہر سے اس کا مشاہدہ کرو، میرے چہرے سے پرے ہٹاکر اور اس کے حقیقی معنوں سے آگاہی کے لیے سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ میں اسے وہاں سے دیکھوں جہاں میں ہوں، اور جہاں سے یہ میرے خون میں شامل ہو، جہاں یہ دن میں ہزاروں بار میرے اندر دھڑکے۔ میں اس پر قابو پالوں گا تاکہ مجھے پھر کبھی بھی اس کی کمی درپیش نہ آئے۔ میں کسی دن دنیا کو سختی سے پکڑلوں گا۔ ابھی میں نے دنیا پر صرف ایک انگلی ہی رکھی ہے۔ اور ابھی تو یہ بس آغاز ہے۔

ہوا بالکل ہی رک گئی۔ باقی کے سب لوگ بھی نیند کے آخری کناروں پر لیٹے رہے، اب وہ سب بھی اٹھنے اور اس کی آگ اور کھانوں، پائوں اور ہاتھوں کی ہزاروں جزئیات کی مکمل تفصیلات کے ساتھ اس دن کی رسومات ادا کرنے کی تیاری کر رہے تھے۔ وہ اپنی خاک آلود آنکھوں کو جھپکاتے ہوئے ادھر ہی لیٹے رہے۔ آپ ان کے تیز تنفس کی آوازیں سن سکتے تھے جو کبھی آہستہ اور پھر زیادہ آہستہ ہوجاتیں۔

یسوع مسیح سے پہلے ایک بیوقوف سا پرندہ ہوا کرتا تھا جسے ققنس کہتے ہیں۔ ہرچند سو برسوں کے بعد وہ ایک بہت بڑی آگ کا الائو دہکا کر خود کو اس میں جلا ڈالتا تھا۔ وہ یقینا آدمی کا چچیرا بھائی ہوگا ، مگر جب بھی وہ خود کو جلاتا تو اس کی راکھ سے اس جیسا ایک نیا ققنس کا وجود پاتا اور وہ دوبارہ سے جی اٹھتا تھا۔ یوں لگتا ہے جیسا کہ ہم سب لوگ بھی بار بار ویسا ہی کر رہے ہیں لیکن ہمارے پاس ایک چیز ہے جو ققنس کے پاس کبھی بھی نہیں رہی۔

’’آئو اب پانی کے بالائی رخ کی جانب چلتے ہیں۔‘‘ گرینجر بولا۔ ’’اور ذہن میں صرف ایک ہی خیال رکھو۔ تم اہم نہیں ہو۔ تم کچھ بھی نہیں ہو۔ ایک دن ہمارا اس وقت کا اٹھایا ہوا بوجھ کسی کے لیے مددگار ثابت ہوگا ، لیکن کافی عرصہ قبل جب ہمارے ہاتھوں میں کتابیں موجود تھیں تو ہم نے اس سے حاصل کردہ علم سے کوئی استفادہ نہیں کیا۔ ہم سیدھے سیدھے مردوں کی ہتک کرتے رہتے تھے۔ ہم اپنے سے پیشتر مرے ہوئے بے چارے لوگوںکی قبروں پر تھوکتے رہتے تھے۔ ہم آنے والے اگلے ہفتے، اگلے مہینے اور اگلے برس میں بہت سے تنہا لوگوں سے ملیں گے اور جب وہ ہم سے پوچھیں گے کہ ہم کیا کر رہے ہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم یاد کر رہے ہیں اور یہی وہ مقام ہوگا جہاں بالآخر ہماری جیت ہوگی اور ایک دن ایسا آئے گا کہ ہمیں اس قدر چیزیں یاد ہوجائیں گی کہ ہم تاریخ کا سب سے بڑا بھاپ سے چلنے والا بیلچہ تیار کرلیں گے پھر ہم اپنے وقتوںکی سب سے بڑی قبر بنائیں گے اور جنگ کو اس قبر میں دھکیل کر اس کو اوپر سے ڈھک دیں گے۔ آئو اب ہم چلیں، سب سے پہلے ہم آئینوں کا ایک کارخانہ بنانے جارہے ہیں اور اگلے سال تک آئینے لگانے کے سوا اور کوئی کام نہیں کریں گے اور اس کے بعد ہم ان آئینوں میں جھانکیں گے۔‘‘

کھانا کھانے کے بعد انھوں نے آگ کو بجھا دیا۔ ان کے گرد دن قدرے روشن ہوچکا تھا اور یوں لگ رہا تھا جیسے کسی گلابی لیمپ کی لو کوکچھ زیادہ تیز کردیا گیا ہو۔ درختوں میں سے اُڑ کر چلے جانے والے پرندے پھر سے لوٹ آئے تھے اور اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھ گئے تھے۔مونٹیگ نے چلنا شروع کردیا اور تھوڑی دیر بعد محسوس کیا کہ دوسرے بھی اس کے پیچھے چلنا شروع ہوگئے ہیں اور وہ سب شمال کی جانب چل رہے تھے۔ وہ حیران ہوا اور ایک طرف کو ہٹ گیا کہ گرینجر اس سے آگے بڑھ جائے، مگر گرینجر نے اس کی سمت دیکھا اور اسے چلتے رہنے کا اشارہ کیا۔ مونٹیگ آگے آگے تھا۔ اس نے دریا کی سمت دیکھا، پھر آسمان کی جانب نگاہ دوڑائی اور پھر اس نے زنگ آلود ٹرین ٹریک کو دیکھا جو کہ کھلیانوں کی جانب رواں دواں تھا، جہاں خشک بھوسے سے بھرے ہوئے گودام تھے، جدھر رات کی تاریکی میں شہر سے چلتے ہوئے بہت سے لوگ چل کر آگئے تھے۔ ایک ماہ بعد یا پھر چھ ماہ بعد یا زیادہ سے زیادہ ایک سال بعد وہ یہاں دوبارہ آئے گا، مگر اکیلا اور تب تک چلتا رہے گا جب تک کہ وہ لوگوں کے ساتھ شامل نہیں ہوجاتا۔‘‘

اب انھیں اطمینان ہے کہ کچھ پاگلوں نے کتابیں جلا دی ہوں لیکن وہ بہت سے سینوں میں محفوظ ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔