بچوں کا عالمی دن ....؛ بچے بنیادی حقوق سے محروم ...قوانین پر عملدرآمد یقینی بنانا ہوگا!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 21 نومبر 2022
بچوں سے متعلق پالیسی سازی میں ان سے مشاورت کی جائے، جامع حکمت عملی بنا کر آگے بڑھا جائے، شرکاء۔ فوٹو : فائل

بچوں سے متعلق پالیسی سازی میں ان سے مشاورت کی جائے، جامع حکمت عملی بنا کر آگے بڑھا جائے، شرکاء۔ فوٹو : فائل

اقوام متحدہ کی جانب سے 1954ء میں پہلی مرتبہ بچوں کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا گیا جس کے بعد سے ہر سال 20نومبر کو دنیا بھر میں ’بچوں کا عالمی دنـ‘ منایا جاتا ہے جس کا مقصد بچوں کی تعلیم، صحت، ذہنی تربیت، تحفظ سمیت دیگر بنیادی انسانی حقوق یقینی بنانے کیلئے شعور اجاگر کرنا، اپنی کارکردگی کا جائزہ لینا ہے اور اس کی روشنی میں آئندہ کیلئے مزید اقدامات کرنا ہے تاکہ دنیا کا بہتر مستقبل یقینی بنایا جاسکے۔

رواں سال بچوں کے عالمی دن کے موقع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں قانونی ماہرین، بچوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ندیم اشرف

(ممبر پنجاب قومی کمیشن برائے انسانی حقوق )

اچھی خوراک، اچھا ماحول، تعلیم و تربیت، تحفظ و غیرہ بچوں کے بنیادی حقوق میں شامل ہیں۔ آئین پاکستان بھی ان کے حقوق کی گارنٹی دیتا ہے، مفت اور لازمی تعلیم کی بات کرتا ہے مگر کیا ہمارے بچوں کو تعلیم مل رہی ہے؟ کیا چائلڈ لیبر کے قوانین پر عمل ہورہا ہے؟بچوں کے حوالے سے کارکردگی میں کچھ بہتری تو آئی ہے مگر چائلڈ رائٹس کے انڈیکیٹرز میں ہم ابھی بھی بہت پیچھے ہیں۔

بدقسمتی سے پنجاب میں 22 ملین بچے سکول نہیں جاتے جو بدترین مسائل کا شکار ہیں، ان کے آئینی حقوق پامال ہو رہے ہیں۔ 1996 کے بعد اب چائلڈ لیبر کے حوالے سے سروے ہوا ہے جس کی رپورٹ گزشتہ ماہ آئی ہے، اس کے مطابق 5 سے 14 برس عمر کے 17 فیصد یعنی 38 لاکھ بچے مزدوری کر رہے ہیں جبکہ 5 سے 17 برس کی عمر کے 68 لاکھ بچے چائلڈ لیبر میں شامل ہیں، اتنی بڑی تعداد خوفناک ہے۔

پاکستان نے 32 برس پہلے اقوام متحدہ کے چائلڈ رائٹس کنونشن کی توثیق کی تھی، کیا ہم اس میں کامیاب ہوئے؟ افسوس ہے کہ ہم ا س کے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔  ہر سال 30 لاکھ بچے چائلڈ لیبر میںشامل ہوتے ہیں، گزشتہ برس کی نسبت چائلڈ لیبر کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے لہٰذا ضرورت یہ ہے کہ حکومت چائلڈ رائٹس کو اہمیت دے اور اس کے لیے خاطر خواہ بجٹ بھی مختص کیاجائے۔

بچوں کے حقوق ہمارے کمیشن کی ترجیح میں شامل ہیں، ہم اس کی صورتحال جائزہ لیتے ہیں۔ مفت اور لازمی تعلیم ایکٹ 2014ء میں منظور ہوا مگر تاحال اس کا نوٹفکیشن نہیں ہوا۔ ہمارے ہاں قوانین بن جاتے ہیں مگر ان پر عملدرآمد کا میکنزم بننے میں برسوں لگ جاتے ہیں، جیسے ہی قانون بنے اس پر فوری عملدرآمد کا آغاز ہوجانا چاہیے۔

بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنا کسی ایک ادارے کا کام نہیں ہے، اس میں بہت سارے اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے مگر بدقسمتی سے اداروں میں روابط کا فقدان ہے، صوبائی و ضلعی سطح پر چائلڈ رائٹس کمیٹیاں بنا کر آگے بڑھا جائے۔ ترکی میں چائلڈ رائٹس کمیشن کی صدرات وزیراعظم کرتے ہیں، اس کا دفتر بھی وزیراعظم ہاؤ س میں ہے۔ وزیراعظم کی نگرانی کی وجہ سے ترکی میں شرح خواندگی 95 فیصد ہوچکی ہے لہٰذا اگر ہم ترکی ماڈل پر کام کریں تو فائدہ ہوگا۔

افتخار مبارک

(نمائندہ سول سوسائٹی )

اقوام متحدہ کے کنونشن برائے حقوق اطفال کو 33 برس ہوچکے ہیں۔ یہ کنونشن 1989ء میں منظور ہوا۔ پاکستان نے 1990ء میں اس معاہدے کی توثیق کی جس میں بچوں کے حقوق و تحفظ کے لیے کام کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔ اس کنونشن کے تحت یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کے لیے خصوصی اقدامات کرے۔

اگر قانون سازی کی ضرورت ہے تو قانون سازی کریں، انتظامی اقدامات کریں، خاطرخواہ بجٹ مختص کریں۔ سب سے اہم یہ ہے کہ بچوں کو ان سے متعلق معاملات میں شامل کیا جائے، ان کی رائے لی جائے۔ جو ممالک بچوں سے متعلق معاملات میں ان کی رائے شامل نہیں کر رہے، وہ آرٹیکل 12کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ بچوں کی شمولیت اس کنونشن کا ایک اہم ستون ہے۔

پاکستان کی بات کریں تو آئین پاکستان بچوں کو ان کے حقوق دیتا ہے۔ آرٹیکل 25 اے، مفت اور لازمی تعلیم کی بات کرتا ہے۔ چائلڈ لیبر کا خاتمہ، ان کا تحفظ، تعلیم، صحت و دیگر حوالے سے قانون سازی موجود ہے۔ صوبوں میں چائلڈ پروٹیکشن و ویلفیئر بیورو موجود ہیں جو بچوں کے تحفظ کیلئے کام کر رہے ہیں۔ گزشتہ 10 سے 12 برسوں کا جائزہ لیا جائے تو ہمارے ہاں خاطر خواہ قانون سازی ہوئی ہے۔

ہمیں پارلیمنٹ متحرک نظر آئی ہے مگر انتظامیہ اس سب سے دور دکھائی دیتی ہے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ قانون بنانے والے اور عملدرآمد کروانے والے دونوں ایک پیج پر نہیں ہیں، جب تک اداروں کے درمیان روابط کا بہتر میکنزم نہیں بنایا جائے گا تب تک مسائل حل نہیں ہونگے۔ زینب رسپانس اینڈ ریکوری ایکٹ بنایا گیا مگر تاحال اس کے عملدرآمد کے حوالے سے بھی مسائل درپیش ہیں۔ بیشتر قوانین ادارہ جاتی میکنزم نہ ہونے وجہ سے عملی شکل میں نہیں آسکے۔

بچوں کے حوالے سے کوئی بھی ایک محکمہ کچھ نہیں کر سکتا، یہ کثیر الجہتی کام ہے جس کیلئے متعلقہ تمام اداروں کو مل کر چلنا ہوگا، ادارہ جاتی اور تکنیکی خرابیوں کو دور کرنا ہوگا۔ ہمارے ہاں تربیت یافتہ ہیومن ریسورس کا نہ ہونا بھی ایک بڑ امسئلہ ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ نصاب میں بچوں کے حوالے سے خصوصی مضامین شامل کیے جائیں، ان کی تربیت کی جائے ۔

بچوں کے حوالے سے کورسز متعارف کروائے جائیں جو ملازمت کے وقت کام آسکیں، سرکاری افسران کیلئے بھی خصوصی کورسز ڈیزائن کیے جائیں۔ بچوں کے حوالے سے مستند اعداد و شمار نہیں ہیں۔

سرکاری سطح پر اس حوالے سے سنجیدہ کاوش نہیں ہوئی۔ 1996ء میں چائلڈ لیبر سروے ہوا تھا۔ اب پنجاب کی سطح پرسال 2019-20ء کیلئے چائلڈ لیبر کا سروے کیا گیا، حال ہی میں اسے جاری کیا گیا ہے۔ ا س کے مطابق 14 فیصد بچے محنت مزدوری کر رہے ہیں، جو غیر قانونی ہے ، ان کے آئینی حقوق پامال ہو رہے ہیں۔ وہ بچے جو سکول نہیں جاتے، ملازمت کرتے ہیں یا سڑکوں پر آوارہ پھرتے ہیں، وہ زیادہ خطرے میں ہوتے ہیں۔ ان پر جسمانی و جنسی تشدد کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، ہمیں ان بچوں کا مستقبل محفوظ بنانا ہے۔

اس کے لیے ایسی پالیسیاں درکار ہیں جو فوری اور جامع ہوں، محکموں میں احتساب کا نظام ہو، ان سے ان کی کارکردگی کے بارے میں سوال ہو اور پھر کارروائی بھی ہو۔ پنجاب ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ میں ملازمت کیلئے کم از کم عمر 15برس مقرر کی گئی مگر تاحال ایک بھی کیس درج نہیں ہوا، اس کی کیا وجہ ہے؟ میرے نزدیک یہ کارکردگی پر بڑا سوالیہ نشان ہے۔

بچوں کے حوالے سے سٹیک ہولڈرز زیادہ ہیں، ان کے مسائل بھی سنگین ہیں لہٰذا بڑے پیمانے پر لوگوں کو موبلائز کرنا ہوگا، سٹیک ہولڈرز کو ایک میز پر لانا ہوگا، عوام میں آگاہی دینا ہوگی اور جامع حکمت عملی بنا کر آگے بڑھنا ہوگا۔ مگر یہاں سوال یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون ڈالے گا ؟اس صورتحال میں لیڈ کون کرے گا؟

افسوسناک بات تو یہ ہے کہ چائلڈ پروٹیکشن پالیسی ہی نہیں ہے۔ بجٹ کا مسئلہ الگ ہے۔ پنجاب میں چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو ہے، اس کا بجٹ پنجاب اسمبلی سے کم ہے ۔ یہ بیورو پنجاب کے صرف 8 اضلاع میں موجود ہے، باقی اضلاع کے بچوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔

ندا عثمان

(ماہر قانون )

بچوں کے حقوق معاشی، سماجی اور ثقافتی نظام سے جڑے ہیں۔ ہر ملک اپنے حالات اور وسائل کے حساب سے ان پر کام کر رہا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ترقی کی شرح انتہائی کم ہے۔

ہمارا شمار ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے جس کے منفی اثرات بچوں کے حقوق پر بھی ہورہے ہیں۔ بچوں کے حقوق کی مختلف جہتیں ہیں، کوئی ایک محکمہ، ادارہ، فرد یا حکومت اس میں کامیاب نہیں ہوسکتی، سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔

بدقسمتی سے ہماری ترجیحات میں بچے نظر نہیں آتے، ہم گھروں میں بھی بچوں کو نظر انداز کرتے ہیں ، ان سے رائے نہیں لی جاتی اور خاموش کروا دیا جاتا ہے، یہی سوچ مجموعی طور پر معاشرے اور اداروں میں جھلکتی ہے جس کی وجہ سے بچے نظر انداز ہورہے ہیں۔

بدقسمتی سے طلاق کے کیسز میں بچوں کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے، گھر وں میں بھی بچے سیاست کا شکار ہوتے ہیں جو افسوسناک ہے۔ ملکی سطح پر جائزہ لیں تو آج تک ہم بچے کی عمر پر اتفاق نہیں کر سکے کہ بچہ 16برس سے کم ہوتا ہے یا 18 برس ، مختلف قوانین اور مختلف صوبوں میں عمر کی یہ حد مختلف ہے جس کی وجہ سے پیچیدگیاں بڑھ رہی ہیں۔

ملک میں چائلڈ فرینڈلی عدالتیں موجود ہیں، ایسے قوانین بھی ہیں جو بچوں کو ہر طرح کا تحفظ دیتے ہیں مگر بعض جگہ مسائل ہیں، انتظامی سطح پر بھی مختلف نقائص ہیں، بچوں کے حوالے سے پولیس و دیگر محکموں میں بھی تربیت دینی چاہیے، اور ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن سے بچوں کا مستقبل بہتر بنایا جاسکے۔

 اسماعیل

(بچوں کا نمائندہ)

میں پنجم جماعت کا طالبعلم ہوں اور خوش ہوں کہ مجھے تعلیم مل رہی ہے۔ ہمیں کھانے پینے کی اشیاء بھی دی جاتی ہیں اور تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیل کود و دیگر سرگرمیوں میں بھی شامل کیا جاتا ہے۔

میرے جیسے بہت سارے بچے سڑکوں پر آوارہ پھرتے ہیں، بھیک مانگتے ہیں، دکانوں پر ملازمت کر رہے ہیں، وہاں انہیں مار پڑتی ہے، کچھ بچوں کی تشدد سے اموات بھی ہوئی ہیں جو افسوسناک ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ بچوں کی بھی عزت ہوتی ہے۔

ان کا خیال رکھنا چاہیے لہٰذا حکومت آگے بڑھے اور چائلڈ لیبر کا خاتمہ کرے۔ بچوں کو سکولوں میں لانے کیلئے اقدامات کیے جائیں تاکہ انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جاسکے اور یہ بڑے ہو کر ملک کی خدمت کر سکیں۔ ہر علاقے میں سکول کھلنے چاہیے تاکہ بچے اپنے اپنے علاقے میں تعلیم حاصل کریں اور ان کے والدین کو بھی معلوم ہو کہ بچہ سکول میں پڑھ رہا ہے۔

میرا سوال ہے کہ صرف امیر کیلئے ہی اچھی تعلیم کیوں؟ وہ بچہ جو غریب ہے یا جس کے والدین نہیں ہیں، وہ اچھی تعلیم حاصل کیوں نہیں کر سکتا؟ کیا وہ ہمیشہ غریب رہے گا؟ کیا اسے بہتر زندگی کاکوئی حق حاصل نہیں؟ حکومت کو چاہیے کہ تمام بچوں کا مستقبل بہتر بنانے کیلئے کام کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔