انڈونیشیا؛ ہولناک زلزلے میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 310 ہوگئی

ویب ڈیسک  جمعـء 25 نومبر 2022
انڈونیشیا میں زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر5.6 تھی،امریکی جیولوجیکل سروے:فوٹو:اے ایف پی

انڈونیشیا میں زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر5.6 تھی،امریکی جیولوجیکل سروے:فوٹو:اے ایف پی

جکارتا: انڈونیشیا کے جزیرے جاوا میں 5.6 شدت کے زلزلے نے بڑے پیمانے پر تباہی مچادی، جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 310 تک جا پہنچی جن میں زیادہ تر اسکول کے بچے ہیں جب کہ 370 سے زائد زخمی ہیں۔

امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر5.6 تھی اور اس کا مرکزجاوا کے مغربی علاقے میں 10 کلومیٹر گہرائی میں تھا۔ زلزلے کے جھٹکے دارالحکومت جکارتا میں بھی محسوس کیے گئے۔

زلزلے میں کئی اسکول بھی منہدم ہوگئے جس کے باعث جاں بحق ہونے والوں میں کئی بچے بھی شامل ہیں جن کی درست تعداد تو تاحال نہیں معلوم البتہ سب سے زیادہ بچے ہی لقمہ اجل بنے۔

Indonesia Earthquake 3

غیرملکی میڈیا رپورٹس میں انڈونیشین حکام کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ پیر کی صبح انڈونیشیا کے جزیرے جاوا میں آنے والے زلزلے سے متعدد عمارتیں گرگئیں ۔ عمارتوں کے ملبے میں بہت سے لوگ دبے ہوئے ہیں۔

Indonesia Earthquake 5

یہ خبر بھی پڑھیں : انڈونیشیا میں زلزلے کے دوران امام مسجد کی رقت آمیز تلاوت کی ویڈیو وائرل

انڈونیشیا کے ڈیزازٹرمنیجمنٹ کے ترجمان نے بتایا کہ گزشتہ روز آنے والے زلزلے میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 310 ہوگئی، 25 سے زائد افراد تاحال لاپتہ ہیں جب کہ 377 افراد زخمی ہیں۔ جنھیں مختلف اسپتالوں میں طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔

Indonesia Earthquake 2

اب بھی کئی افراد عمارتوں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ امدادی کاموں کے دوران لاشیں ملنے کا سلسلہ جاری ہے۔ زخمیوں میں سے بھی درجن سے زائد افراد کی حالت نازک ہونے کے سبب ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

واضح رہے کہ جزیروں پر مشتمل ملک انڈونیشیا میں زلزلے آنا معمول کی بات ہیں تاہم کبھی کبھی یہ نہاہت ہلاکت خیز ثابت ہوتے ہیں۔ اگست 2018 میں 500 سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے تھے جب کہ 2 ہزار سے زائد زخمی اور 3 لاکھ افراد بے گھر ہوگئے تھے۔

Indonesia Earthquake 6

زخمیوں اور ہلاکتوں کی تعداد کہیں زیادہ ہونے کے باعث اسپتالوں میں جگہ کم پڑ گئی اور عملے کی قلت کا بھی سامنا ہے۔ ریلیف کیمپ قائم کر دیئے گئے ہیں تاہم کھانے پینے کی اشیاء اور پینے کے پانی کی کمی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔