مستقبل کے خلائی مسافروں کے لیے ریموٹ کنٹرول دواخانے کا تجربہ

ویب ڈیسک  منگل 22 نومبر 2022
تصویر میں چپ کی شکل کا ادویاتی پیوند نمایاں ہے جسے جلد ہی خلائی ماحول میں آزمایا جائے گا۔ فوٹو: ہیوسٹن میتھوڈسٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ

تصویر میں چپ کی شکل کا ادویاتی پیوند نمایاں ہے جسے جلد ہی خلائی ماحول میں آزمایا جائے گا۔ فوٹو: ہیوسٹن میتھوڈسٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ

ہیوسٹن، امریکہ: اگرچہ جسم میں دوا پہنچانے والے بہت سے پیوند (امپلانٹ) بنائے گئے ہیں لیکن اب سائنسدانوں نے خلانوردوں یا مریخ تک جانے والے مسافروں کے لیے دوا فراہم کرنے والا ایسا پیوند بنایا ہے جسے جلد ہی خلا کی بے وزنی میں آزمایا جائے گا۔

اس پیوند کو ہیوسٹن میتھوڈسٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں بنایا گیا ہے اور توقع ہے کہ اسے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کے خلانورد جلد ہی استعمال کرسکیں گے۔ ایلون مسک کی اسپیس ایکس کمپنی کے مطابق اسے 26ویں کمرشل سپلائی مشن میں مدار میں بھیجا جائے گا۔ ایک جانب تو خلا میں اس کی افادیت دیکھی جائے گی اور دوم زمین پر بیٹھے معالجین اسے قابو کرنے کے پہلو کی آزمائش کریں گے۔ اس طرح خلا میں کام کرنے والا یہ پہلا ٹیلی میڈیسن آلہ بھی ہوگا۔

منصوبے سے وابستہ پروفیسر الیساندر گراٹونی کے مطابق اسے خلا میں ایک چوہے پر آزمایا جائے گا جبکہ یہ عمل خودکار انداز میں ہوگا اور یہ کام خلانورد کی مدد کے بغیر کیا جائے گا۔

اس میں بہت ہی باریک نینوچینلز بنائے گئے ہیں نفوذ (ڈفیوژن) کے تحت دوا جسم میں پہنچائیں گے۔ اس سے قبل ماہرین خلا میں خردبینی مائعات کا بہاؤ نوٹ کرچکے ہیں۔ اس پیوند سے بے وزنی کے ماحول میں چوہے کے پٹھوں پر ہونے والے منفی اثرات کو کم کیا جاسکے گا۔

اس پیوند کی ساخت کمپیوٹر چپ جیسی ہے جسے بلیک بیری آلے سے بلیوٹوتھ کے ذریعے کنٹرول کیا جائے گا۔ توقع ہے کہ اس پیش بہا تجربے کو خلانوردوں پر آزمایا جاسکے گا کیونکہ وہاں ثقل کی کمی سے پٹھے اور عضلات کمزور پڑتے ہیں اور کئی مرتبہ ریڈیائی امواج کا سامنا بھی ہوتا ہے۔ طویل عرصے میں ان کے اثرات مزید منفی ہوسکتے ہیں۔

اس طرح زمین پر رہنے والے افراد کے لیے یہ ایک ریموٹ دواخانہ ثابت ہوسکتا ہے جسے وہ انسانی جان بچانے میں استعمال کرسکیں گے۔

A

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔