حشر کی گھڑی

شکیل فاروقی  منگل 22 نومبر 2022
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

مختلف علوم کے علاوہ علمِ سیاسیات (پولیٹیکل سائنس) کے ادنیٰ طالب علم ہونے کی حیثیت سے ہمیں اعلیٰ مفکرین کے افکار و اقوالِ زریں کی جانکاری کے مواقع میسر آئے ہیں۔

ہم نے چانکیہ کی ارتھ شاستر اور میکاولی کی ’’ دا پرنس‘‘ کا مطالعہ بھی کیا ہے ، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم نے عملی سیاست کو اپنے لیے شجرِ ممنوعہ اور ’’ نو گو ایریا ‘‘ قرار دے دیا حالانکہ ہمیں اِس کے لیے بہت بار مواقع میسر آئے۔ مرزا غالب نے سیاست کے بارے میں کیا خوب فرمایا ہے۔

جس کو ہوں دین و دل عزیز ، اْس کی گلی میں جائے کیوں

سیاست وہ میدان ہے جہاں اچھے اچھوں کی پگڑی اچھالی جاتی ہے۔ کھیل کا میدان آج کل سب سے اچھا میدان ہے جہاں عزت بھی ہے، شہرت بھی ہے اور دولت بھی ہے۔ ہمارے زمانہ میں کھیل کو بْرا سمجھا جاتا تھا اور تعلیم کو فوقیت دی جاتی تھی اور کہا یہ جاتا تھا کہ:

کھیلو گے کودو گے تو ہو گے خراب

پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب

عمران خان نے آکسفورڈ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود کھیل کو ترجیح دی۔ اْن کا یہ فیصلہ صحیح اور بروقت تھا جس سے اْنہیں وہ شہرت ملی جو اِس سے پہلے کسی اور کو میسر نہیں آئی۔ وہ دنیائے کرکٹ کے بے تاج بادشاہ بنے۔ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد اْنہوں نے خدمت خلق کا فیصلہ کیا اور شوکت خانم اسپتال کے قیام کے علاوہ تعلیم کے شعبہ میں خدمات انجام دینے کا عزم کیا۔

اِس میں شک نہیں کہ اْن کے یہ فیصلے اچھے اور بر وقت تھے۔ اِن سے اْن کی عزت اور وقار میں مزید اضافہ ہوا لیکن نامعلوم اْنہیں کیا سوجھی یا نہ جانے کس نے اْنہیں یہ مشورہ دیا کہ وہ سیاست کے میدان میں بھی کودیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ:

بے خطر کود گیا آتشِ نمرود میں عشق

اور پھر وہی ہوا جو ہونا تھا یعنی اِس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی۔ اِس بات سے انکار نہیں کہ اْن کی نیت نیک تھی اور اْن کا عزم بھی محکم تھا جس نے انھیں ملک کے وزیرِ اعظم کی کرسی تک پہنچا دیا۔

اِس کے بعد جو ہوا اور ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ہر انسان اپنی مرضی کا مالک اور مختار ہوتا ہے اور کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کے معاملات میں خواہ مخواہ دخل اندازی کرے۔ چناچہ خان صاحب نے ملک و قوم کی خدمت کرنے کے لیے جو راہ اختیار کی تھی اْس کے بارے میں ہم سمیت کسی بھی شخص کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کوئی رائے زنی یا تبصرہ کرے۔ ہمیں تو ویسے بھی سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں کیونکہ

’’ ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں ‘‘

ہم صرف یہ جانتے ہی نہیں بلکہ مانتے بھی ہیں کہ لالچ بْری بلا ہے۔ نہ ہمیں سفارت چاہیے نہ امارت ہم تو بھگت کبیر کے اِس دوہے کے قائل ہیں۔

دیکھ پرائی چْوپڑی مت للچائے جی

ہمیں تو وہی اچھا لگتا ہے جو ملک و قوم کے مفاد میں ہے۔ با الفاظِ دیگر ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ :

تانگہ لاہور دا ہوے بھاویں جھنگ دا

تانگے والا خیر منگدا

یہ بات ہماری سمجھ سے باہر ہے کہ ملک کا ہر سیاسی رہنما ملک و قوم کی فلاح و بہبود کا دعویدار ہے لیکن وقت اور مصلحت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ افہام و تفہیم کے لیے تیار نہیں۔ یہ تو دْور کی بات ہے ہر کوئی ایک دوسرے کی شکل دیکھنے تک کا روادار نہیں ہے۔ سب کے راستے جدا جدا ہیں اور سارے کے سارے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔

ملک ترقی کے بجائے ترقی معکوس کی راہ پر گامزن ہے جس کے نتیجہ میں وطنِ عزیز کا اِمیج روز بروز خراب سے خراب ہو رہا ہے۔ جسے دیکھیے وہ جمہوریت کے حْسن، تعریف و توصیف کرنے میں مگن ہے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہے اور جمہوریت بیچاری خاموش بیٹھی ہوئی اپنی حالت زار اور درگت پر آنسو بہا رہی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے رضیہ غنڈوں میں پھنس گئی ہے اور اْسے اپنی عصمت بچانے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا۔

اقتدار کی ہوس نے سب کو دیوانہ کردیا ہے۔ جائز و ناجائز کی کوئی تمیز نظر نہیں آرہی۔ تاریخ شاہد ہے کہ اقتدار کا نشہ ، اچھائی اور برائی کے فرق کو مٹا دیتا ہے۔ اورنگزیب کا اپنے برادران سے کیے جانے والا سلوک بھی اِسی سلسلہ کی کڑی ہے۔

اِس کے علاوہ اپنے والد کو معزول کرنے کا عمل بھی اِس کی تائید کرتا ہے۔ علاؤ الدین خلجی اور جلال الدین خلجی کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ملک اِس وقت اندرونی اور بیرونی خطرات میں گھرا ہوا ہے اور دشمن ہماری گھات میں ہے اور اْس کی کوشش یہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح سے انتشار اور بے امنی پھیلائی جائے اور قومی یکجہتی کو پارہ پارہ کرکے اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کیا جائے۔

اِس وقت ہمیں پوری طرح سے متحد ہوکر دشمن کے عزائم کو ناکام بنانا ہے۔ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ہے۔ حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان ، عوام اور مسلح افواج اِس صورتحال کا شانہ بشانہ کھڑے ہوکر مقابلہ کریں۔ بقولِ شاعر:

یہ گھڑی محشر کی ہے ، تو عرصہ محشر میں ہے

پیش کر غافل ، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔