فیصلہ کن ہفتہ

مزمل سہروردی  منگل 22 نومبر 2022
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

پوری دنیا پاکستان کو سمجھا رہی ہے کہ آپ کو اپنے مسائل حل کرنے کے لیے سیاسی استحکام چاہیے۔ لیکن پاکستان کے حالات میں یہ ممکن نظر نہیں آرہا۔ اگر ملک میں الیکشن کا اعلان کر بھی دیا جائے تب بھی ملک میں کوئی سیاسی استحکام نہیں آجائے گا بلکہ ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھ جائے گا۔

تا ہم یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ موجودہ ہفتہ پاکستان کو کافی حد تک سیاسی استحکام دے سکتا ہے۔ موجودہ ہفتے میں ہونے والے فیصلے ملک میں سیاسی انتشار کو کم کر سکتے ہیں۔ اسی طرح سیاسی ہیجان میں کمی ہو سکتی ہے۔ اس لیے موجودہ ہفتہ پاکستان کو کافی حد تک سیاسی استحکام کی طرف لے جا سکتا ہے۔

موجودہ ہفتے کے دوران عمران خان کا لانگ مارچ بھی راولپنڈی پہنچ جائے گا۔ ابھی عمران خان نے پورے ملک سے اپنے لوگوں کو 26نومبر بروز ہٖفتہ راولپنڈی پہنچنے کی ہدایت کی ہے۔

ساتھ ساتھ تحریک انصاف کی تنظیم نے راولپنڈی کی انتظامیہ کو فیض آباد پر دھرنے کی ہدایت کی ہے۔ فیض آباد پر دھرنے سے یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اسلام آباد کی حدود میں داخل نہ ہوں اور فیض آباد کی پنجاب حدود میں ہی دھرنا دیں۔ اس سے اسلام آباد جانے کا راستہ بھی بند ہو جائے گا، لیکن وہ اسلام آباد میں داخل بھی نہیں ہونگے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان فیض آباد پر کوئی لمبا دھرنا دینے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ مجھے یہ مشکل لگتا ہے کہ وہ کئی دن تک فیض آباد بیٹھنے کا کوئی پروگرام بنائیں گے۔ وہ فیض آباد پر جلسہ تو کر سکتے ہیں لیکن فیض آباد پر دھرنا سیاسی طور پر عمران خان کے لیے کوئی سود مند نہیں ہوگا۔ اگر وہ کافی دن تک فیض آباد پر بیٹھے بھی رہتے ہیں تو اسلام آباد کے راستے تو ضرور بند ہونگے۔

لیکن حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ بلکہ دو دن بعد ہی راستے بند ہونے کی وجہ سے عمران خان دباؤ میں آجائیں گے۔ ویسے بھی لوگوں کو کافی دن تک بٹھا کر رکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس لیے مجھے فیض آباد پر جلسہ تو ممکن نظر آتا ہے لیکن دھرنا نہیں۔ اجازت بے شک دھرنے کی مانگی گئی ہے لیکن دھرنا دیا نہیں جائے گا۔ یہ ممکن ہے کہ لوگ ایک دن پہلے پہنچنا شروع ہو جائیں، لیکن کوئی دھرنا ممکن نہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان فیض آباد سے اسلام آباد کی طرف مارچ کا کہہ سکتے ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ وہ لوگوں کی تعداد دیکھ کر فیصلہ کریں گے۔ وہ اپنا پروگرام اسی لیے بتا رہے ہیں کہ لوگوں کی تعداد دیکھ کر فیصلہ کیا جائے گا، لیکن اگر مان لیا جائے کہ لاکھوں لوگ پورے ملک سے اسلام آباد جمع ہو جاتے ہیں پھر بھی کیا عمران خان اسلام آباد کی طر ف جانے کا اعلان کر سکتے ہیں۔

اگر اسلام آباد جانا تھا تو پھر راولپنڈی لوگوں کو کیوں بلایا گیا ہے۔ اس لیے عین ممکن ہے کہ عمران خان کا لانگ مارچ اسلام آباد نہ جائے بلکہ راولپنڈی پہنچ کر ہی ختم ہو جائے گا۔ شاید یہی وہ سرپرائز ہے جس کا عمران خان کہہ رہے ہیں کہ میں راولپنڈی پہنچ کر سرپرائز دونگا۔

یہ درست ہے کہ تحریک انصاف نے فیض آباد پر مارچ کے لیے اسلام آباد انتظامیہ کو بھی درخواست دی ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ زیاد زور راولپنڈی پر ہی ہوگا۔ اسلام آباد میں بھی فیض آباد پر دھرنا سیاسی طور پر کوئی مفید نہیں ہوگا۔ یہ تو وفاقی حکومت کو فتح پلیٹ میں رکھ کر دینے کے مترادف ہوگا۔ اس لیے وہ فیض آباد اسلام آباد پر بھی کوئی دھرنا نہیں دیں گے۔

وہ جلسہ ہی کر سکتے ہیں۔ فیض آباد سے ایک بڑی تعداد میں لوگ لے کر اسلام آباد جانا بھی ممکن نہیں۔ تصادم ہوگا۔ تصادم کے نتیجے میں لوگ کم ہو جائیں گے نقصان بھی ہوگا۔ اور عمران خان اس کے مکمل ذمے دار ٹھہرائے جائیں گے۔

اس لیے شاید عمران خان ملک کو سیاسی عدم استحکام کا شکار کرنے میں تو کامیاب ہوئے ہیں۔ لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ وہ اپنے سیاسی اہداف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ وہ موجودہ وفاقی حکومت کو ختم کرنے میں کامیاب ہوتے نظر نہیں آرہے۔ وہ ملک میں قبل از وقت انتخابات کروانے میں بھی کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ ابھی تو ایسا لگ رہا ہے کہ وہ ایک دن پہلے بھی انتخابات کروانے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔

اس لیے کچھ بھی حاصل نہیں کر سکے۔ سیاسی طور پر جہاں سے لانگ مارچ شروع کیا گیا تھا وہ وہیں پر کھڑے ہیں۔ اس طرح قوی امکان ہے کہ موجودہ ہفتے کے اختتام پر عمران خان کا لانگ مارچ ختم ہو جائے گا۔ جس سے ملک کا سیاسی درجہ حرارت کم ہوگا۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اس کے نتیجے میں مکمل سیاسی استحکام آجائے گا۔ لیکن سیاسی ہیجان انگیزی بھی ختم ہو جائے گی۔ عمران خان کا کسی حد تک سڑکوں کا کھیل ختم ہو جائے گا۔

ملک میں آرمی چیف کی تعیناتی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ اس لیے قوی امکان ہے کہ جب عمران خان راولپنڈی پہنچیں گے ملک میں آرمی چیف کی تعیناتی کا عمل مکمل ہو چکا ہوگا۔ ویسے تو عمران خان پہلے ہی پیچھے ہٹ گئے ہیں۔

جب لانگ مارچ شروع ہو اتھا تو عمران خان کی پوزیشن کافی جارحانہ تھی۔ لیکن جیسے جیسے لانگ مارچ اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے وہ جارحانہ سے دفاعی پوزیشن پر آگئے ہیں۔

پہلے کہہ رہے تھے کہ لگانے نہیں دونگا۔ اب کہہ رہے ہیں جس کو مرضی لگا لیں کوئی اعتراض نہیں۔ اب تو صدر عارف علوی بھی وضاحتیں دے رہے ہیں کہ وہ کوئی رکاوٹ نہیں ڈالیں گے۔اس لیے اس عمل کے مکمل ہونے سے بھی عمران خان کا سیاسی کھیل کافی حد تک ختم ہوگیا ہے۔

سب کو اندازہ تھا کہ عمران خان آرمی چیف کی تعیناتی کی وجہ سے ہی سڑکوں پر تھے اور جیسے ہی یہ تعیناتی ہو جائے گی تو وہ بھی سڑکوں سے گھر چلے جائیں گے۔ لیکن وہ اس محاذ پر بھی کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ اس لیے انھوں نے اسٹبلشمنٹ کے خلاف جو محاذ شروع کیا ہوا تھا۔ وہ اب اس کو بھی ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے حالیہ بیانات اس کے عکاس ہیں۔

ماہر معاشیات سلمان شاہ کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف بھی آرمی چیف کی تعیناتی کی طرف ہی دیکھ رہا ہے، جیسے ہی عمل مکمل ہو جائے گا۔ آئی ایم ایف کا اونٹ بھی کسی کروٹ بیٹھ جائے گا۔ عین ممکن ہے کہ جائزہ مشن آجائے۔ یہ سوال اہم ہے کہ آئی ایم ایف کیوں اس تعیناتی کا انتظار کر رہا ہے۔ لیکن شاید جیسا پورا ملک کر رہا ہے ۔ آئی ایم ایف بھی کر رہا ہے۔

یہ ممکن ہے کہ جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں کوئی نام سامنے بھی آگیا ہو۔ ویسے تو گزشتہ چند دن بھی سب نے اپنی اپنی مرضی کا نام لے لیا ہے۔ لیکن وقت نے ثابت کیا ہے کہ کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا۔

حتیٰ کے عمران خان جن کا دعویٰ ہے کہ انھیں سب معلوم ہوتا ہے۔ انھیں بھی کچھ معلوم نہیں رہا۔ وہ بھی آخر میں یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ جو بھی لگ جائے مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ حکومت نے میڈیا اور لیکس کے اس دورمیں بھی اس معاملہ پر معاملات کو کافی حد تک صیغہ راز میں رکھا ہے۔

کوئی خبر لیک نہیں ہوئی ہے ۔ کسی کو کچھ معلوم نہیں رہا۔ سب نے اندازے ہی لگائے ہیں۔ اب اندازے کس حد تک درست ثابت ہوتے ہیں یہ تو صحیح خبرسامنے آنے کے بعد ہی معلوم ہو گا۔ اس لیے یہ فیصلہ کن ہفتہ ہے۔ اس کے بعد کچھ امن ہو جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔