سندھ حکومت تعلیمی اداروں کو تباہ کررہی ہے،میرٹ کا قتل کیا جارہا ہے، رابعہ اظفر

اسٹاف رپورٹر  منگل 22 نومبر 2022
ڈی جے کالج کو یونیورسٹی آف ماڈرن سائنس کے طورپراپ گریڈ کرنا چاہیے، رکن سندھ اسمبلی:فوٹو:ایکسپریس نیوز

ڈی جے کالج کو یونیورسٹی آف ماڈرن سائنس کے طورپراپ گریڈ کرنا چاہیے، رکن سندھ اسمبلی:فوٹو:ایکسپریس نیوز

 کراچی: سندھ اسمبلی کی رکن رابعہ اظفر نظامی کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کراچی شہر کی تعلیم کے ساتھ مذاق کررہی ہے۔

پی ٹی آئی کے اراکین سندھ اسمبلی فردوس نقوی، بلال غفار، شہزاد قریشی اوردیگر کے ساتھ ڈی جے سائنس کالج کے دورے کے بعد گفتگو کرتے ہوئے رکن سندھ اسمبلی رابعہ اظفر نظامی کا کہنا تھا کہ سی اور ڈی گریڈ کے 100 سے زائد طلبا کو داخلے کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ میرٹ کا قتل عام ہے۔

رابعہ اظفر کا مزید کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے دور میں بھی اس کالج کا وائس چانسلر گورنر نہیں تھا۔ہمارے دور میں بھی سی ایم صاحب ہی اس کالج کے وائس چانسلر تھے۔ کام کرنا حکومت کا فرض بنتا ہے۔ڈی جے  کالج کو ’’یونیورسٹی آف ماڈرن سائنس اور ایک انسٹی ٹیوٹ آف ایکسیلنس کے طور پر اپ گریڈ کیا جانا چاہیےتاہم یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ اس کالج کے معاملات پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے چلائے جائیں۔

پی ٹی آئی کے سنیئر رہنماء و رکن سندھ اسمبلی فردوس شمیم نقوی نے کہا کہ آج میں ڈی جے سائنس کالج کے باہر کھڑا ہوں۔ اس کالج سے میں نے تعلیم حاصل کی یہاں سینکڑوں کی تعداد میں طلبہ کا داخلہ ہوتا تھا لیکن آج ایسا نہیں ہورہا۔،ہم نے پرنسپل صاحب سے پوچھا کے آپ کو کتنا فنڈ ملتا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ صرف 14 لاکھ  روپے ملتے ہیں بلڈنگ کی مرمت کے لیے یہ اس کالج کے ساتھ مذاق  ہے۔ کالج کے لیے کم از کم ایک کروڑ روپے مختص ہونے چاہئیں۔ یہ لوگ اس شہر کے دشمن ہیں ان لوگوں نے طلبہ کی تعلیم کو متاثر کرنے کی کوشش کی ہے۔

فردوس شمیم نقوی کا مزید کہنا تھا کہ ڈی جے کالج میں پری انجینئرنگ کے 600 طلبہ کو جگہ دی جانی تھی صرف 86 کے داخلوں کا اعلان کیا گیا۔پری میڈیکل کے 200 طلباء کو جگہ دی جانی تھی اور 245 طلباء کو داخلہ دیا گیا تھا۔داخلوں کی میرٹ کی پالیسی پر سنگین سمجھوتہ کیا گیا ہے۔

پی ٹی آئی کراچی کے صدر بلال غفار نے کہا کہ  آج تاریخی ڈی جے سائنس کالج کا دورہ کیا کالج میں داخلوں کے مسائل پر گہری تشویش ہے۔فیکلٹی کی صورت حال بھی تشویشناک ہے ایسے معزز کالج کے لیے صرف گریڈ 20 کی پوزیشن ہے اور صرف گزشتہ سال گریڈ 20 میں ترقی پانے والے 4 سینئر اساتذہ کا تبادلہ کیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ کالج کی ساکھ فیکلٹی اور انفراسٹرکچر نے بنائی ہے اور پی پی پی کی حکومت اس کالج اور اس کی ساکھ کو تباہ کرنے کو یقینی بنا رہی ہے۔اس کالج کی طرف سے اب کوئی 4 سالہ ڈگری پروگرام پیش نہیں کیا جا رہا ہے جس میں کئی دہائیوں سے سائنس کے شعبے میں ہزاروں گریجویٹس موجود تھے۔ ڈگری پروگرام لازمی ہے۔

اراکین سندھ اسمبلی  کا مزید کہنا تھا کہ اسلامیہ کالج کا معاملہ انتہائی تشویشناک ہے۔ محکمہ تعلیم کو سوتے ہوئے پکڑا گیا۔ اسلامیہ کالج ایسا کالج ہے جو تسلیم شدہ اور شاندار ماضی کا حامل ہے۔ اس کے  7000 طلباء کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔اس کے احاطے کو خالی نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت سندھ زمین کے مالکان کو معاوضہ دے ورنہ اسے عدالت میں چیلنج کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ عدالتی حکم کی وجہ سے اس جگہ اور احاطے میں اسلامیہ کالج کا وجود ختم نہ ہو۔ کالج کی تعلیم سے متعلق مسائل کو اسمبلی میں اٹھائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔