یوٹیلٹی بلز میں کاغذ کا استعمال اور ماحول دوستی

احتشام مفتی  بدھ 23 نومبر 2022
کاغذ کی تیاری کےلیے بڑے پیمانے پر درختوں کی کٹائی کی جاتی ہے۔ (فوٹو: فائل)

کاغذ کی تیاری کےلیے بڑے پیمانے پر درختوں کی کٹائی کی جاتی ہے۔ (فوٹو: فائل)

دنیا میں آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ قدرتی وسائل انسانی ضروریات کو پورا کرنے کےلیے ناکافی ہوتے جارہے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ انسان قدرتی وسائل کی بچت اور ماحولیات کے تحفظ کےلیے دن بہ دن نئی نئی ایجادات کررہا ہے۔ پانی کی قلت پر قابو پانے کےلیے زراعت میں ان ہی فصلوں پر انحصار بڑھا رہا ہے جو کم پانی میں زیادہ پیداوار دیتی ہوں، اسی کے ساتھ فصلوں کو پانی کی فراہمی جدید کی جارہی ہے۔

وسائل کی کمی کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تبدیلی بھی انسان کےلیے مسئلہ بتنی جارہی ہے اور آبادی میں اضافے کے ساتھ جنگلات کو کاٹ کر انسانی ضروریات کی اشیا، جیسا کہ فرنیچر، گھر، ایندھن اور کاغذ بڑے پیمانے پر تیار کیے جارہے ہیں۔ اور ان کی جگہ درخت لگانے کے بجائے زمین کو انسانی آبادی یا کاشت کےلیے استعمال کیا جارہا ہے۔

کاغذ کی تیاری کےلیے نہ صرف بڑے پیمانے پر درختوں کی کٹائی کی جاتی ہے بلکہ اس کی تیاری میں بڑے پیمانے پر پانی اور ایندھن کا استعمال بھی ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ماحولیات پر مزید منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

اپنے ماحول کے تحفظ اور کاغذ کی بڑھتی ہوئی قیمت کی وجہ سے دنیا بھر میں کاروباری دستاویزات سے کاغذ کا استعمال کم سے کم کیا جارہا ہے۔ اور دنیا بھر میں اس وقت بہت سے ادارے اور کاروبار اپنے آپ کو ڈیجیٹلائز کرتے ہوئے کاغذ کے صفر استعمال پر منتقل ہوچکے ہیں۔ اسی طرح سے حکومتوں نے بھی اپنے نظام کو ڈیجیٹل سسٹم پر منتقل کرنا شروع کردیا ہے۔ اس پورے عمل سے کاغذ کی بچت میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں ایف بی آر نے انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس ریٹرنز جمع کرانے کا عمل ڈیجیٹل کردیا ہے۔ جس سے نہ صرف ریٹرن فائل کرنے والوں کو آسانی ہوئی ہے بلکہ اس سے ایف بی آر کو اپنے ڈیجیٹل ڈیٹا کو وسعت دینے اور تجزیہ کرنے میں آسانی پیدا ہوئی ہے۔

اس سلسلے میں سب سے بڑی اور عالمی سطح پر کوشش اس وقت سامنے آئی جب ایئر لائنز نے اپنے سفری ٹکٹ کو کاغذ سے ای بل پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس عمل سے ایک سال میں ایئر لائنز کو تقریباً 3 سے 5 ارب ڈالر کی سالانہ بچت ہوئی۔ اور ساتھ ہی مسافروں کو بھی یہ فائدہ ہوا کہ اب انہیں کاغذی ٹکٹ کے کھو جانے کا اندیشہ نہیں رہتا۔ وہ اپنے فون پر ٹکٹ دکھا کر سفر کرسکتے ہیں۔

پاکستان میں ماحولیات کے تحفظ اور کاروباری آسانی کےلیے ادارے اپنے پروسیسز کو تیزی سے ڈیجیٹل کررہے ہیں۔ اس عمل سے سب سے بڑی بچت کاغذ کی ہورہی ہے۔ مثال کے طور پر موبائل فونز کے بل ہی دیکھ لیجئے، اب شاید ہی کوئی کمپنی اپنے صارف کو کاغذی بل بذریعہ ڈاک ارسال کرتی ہو۔ تمام کی تمام موبائل فون کمپنیاں اپنے صارفین کو ای بل فراہم کرتی ہیں۔

کراچی میں بجلی فراہم کرنے والی کمپنی کے الیکٹرک نے بھی اپنے صارفین کی سہولت کےلیے بڑے پیمانے پر ڈیجیٹل پلیٹ فارم کی معاونت حاصل کی ہے۔ اور گزشتہ سال کے الیکٹرک نے اپنے صارفین کو یہ سہولت دی کہ اگر وہ چاہیں تو اپنے بجلی کے بلوں کو کاغذ کے بجائے ڈیجیٹل طور پر حاصل کرسکتے ہیں۔ اس مقصد کےلیے کے الیکٹرک نے واٹس ایپ، کے ای لائیو ایپ اور ویب سائٹ سمیت دیگر پلیٹ فارمز کی سہولت فراہم کی تھی۔ جس کو بڑے پیمانے پر صارفین نے اپنایا ہے۔

مگر اب بھی شہر میں آبادی کا ایک بڑا حصہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے نابلد ہے۔ ان کے پاس اگر موبائل فون ہے بھی تو وہ ٹو جی موبائل فون ہے، جس کی وجہ سے کراچی میں بجلی کے بلوں کو مکمل طور پر ڈیجیٹل کرنا مشکل ہورہا تھا۔ اس لیے کے الیکٹرک نے فیصلہ کیا کہ اگر وہ کاغذی بلوں سے مکمل طور پر جان نہیں چھڑا سکتے تو پھر انہیں بل کا حجم کم کرنا ہوگا تاکہ کاغذ کی بچت کی جاسکے، جو کہ ماحولیات کے تحفظ میں معاون ثابت ہوسکے۔ کے الیکٹرک کے سابقہ بل کا سائز اے فور ہوتا تھا، جس کو اب کم کرکے اے فائیو کردیا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر کاغذ کا سائز کم کیا ہے تو پھر اس سے ماحولیات کو کیا فائدہ؟ تو بھائی کے الیکٹرک ماہانہ 32 لاکھ بل جاری کرتا ہے۔ اس طرح سال میں 3 کروڑ سے زائد مرتبہ بل کی پرنٹنگ ہوتی ہے۔ اگر بل کا سائز کم کردیا جائے تو اس سے سالانہ 4200 درخت کٹائی سے بچ جائیں گے جبکہ اس سے 26 کروڑ لیٹر پانی کی بچت ہوگی۔ اس کے علاوہ جب یہ بل ادا کردیے جاتے ہیں تو انہیں کچرے میں پھینکا جاتا ہے۔ بل کا سائز کم کرنے سے کچرے کی مد میں 94 ہزار کلو گرام کی کمی ہوگی۔

ملک میں ماحولیاتی شعور کے اجاگر ہونے سے کاغذ کے استعمال میں کمی لائی جاسکتی ہے اور اس سلسلے میں چھوٹے چھوٹے اقدامات ایک بڑا سنگ میل ثابت ہوسکتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔