ڈرون طیاروں پر قانونی چیک اینڈ بیلنس

ایڈیٹوریل  ہفتہ 29 مارچ 2014
ڈرون حملے روکنے کے لیے امریکا پر بہت دبائو تھا، سرتاج عزیز  فوٹو:فائل

ڈرون حملے روکنے کے لیے امریکا پر بہت دبائو تھا، سرتاج عزیز فوٹو:فائل

اقوام متحدہ نے دنیا کے تمام ملکوں پر زور دیا ہے کہ وہ ڈرون طیاروں کو استعمال کرتے وقت بین الاقوامی قوانین کو ملحوظ رکھیں۔ اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل میں پاکستان کی قرارداد کو یمن اور سوئٹزرلینڈ نے مشترکہ طور پر پیش کیا جس میں کسی ملک کا نام لیے بغیر ڈرون ٹیکنالوجی کے استعمال میں بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرنے کی بات کی گئی تھی۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر نے کہا کہ ان کا مقصد کسی ملک کا نام لے کر اسے شرمندہ کرنا نہیں۔ تاہم یہ اوپن سیکرٹ ہے کہ ڈرون حملوں اور اس کی پالیسی کا مسئلہ عمومیت کے ساتھ فعال ڈرون ٹیکنالوجی کے حامل ممالک کے ساتھ مشروط ہے۔ ڈرون حملے ہی پاکستان کے فاٹا یا بندوبستی علاقے میں انتہا پسندانہ اور بے گناہ افراد کے ہولناک ہلاکتوں پر رد عمل کا ایک طوفان برپا کیے ہوئے ہیں۔ بلاشبہ امریکی ڈرونز نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہائی پروفائل جنگجوئوں کو بھی ٹارگٹ کیا مگر جو عظیم انسانی اجتماعی نقصان (کولیٹرل ڈیمج) رونما ہوتا رہا ہے اس کے ازالہ کی ایک ہی صورت ہے کہ ڈرونز کو قانون اور اخلاقی طور پر بین الاقوامی قوانین کا پابند کیا جائے۔

پاکستان کے اس اصولی موقف کی اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کی طرف سے حمایت ایک سفارتی اور اصولی فتح ہے۔ دفتر خارجہ کے جاری کردہ بیان کے مطابق بھاری اکثریت سے منظور کردہ اس قرارداد میں رکن ممالک سے کہا گیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ مسلح ڈرون طیاروں کا استعمال عالمی قوانین، اقوام متحدہ کے چارٹر اور انسانی حقوق سے متعلق قوانین کے عین مطابق ہو۔ ماہرین کا پینل ستمبر2014ء میں انسانی حقوق کونسل کے 27 ویں اجلاس کے موقع پر میٹنگ کرے گا۔ دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان نے ڈرون حملوں کے معاملے کو اقوام متحدہ سمیت مختلف عالمی اداروں کے پلیٹ فارم پر اٹھایا اور اب اس قرارداد کی منظوری اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ اس اہم معاملے پر پاکستان کو سفارت کاری کے ذریعے عالمی برادری کی حمایت کے حصول میں کامیابی ملی ہے۔ اس بات سے پاکستان کی ان کوششوں کو تقویت ملے گی جو وہ ڈرون حملوں کے مسئلے کے حل کے لیے کر رہا ہے۔ مشیر خارجہ سر تاج عزیز نے کہا ہے کہ ڈرون حملے روکنے کے لیے امریکا پر بہت دبائو تھا۔

وزیر اعظم نواز شریف نے صدر اوباما سے ڈرون حملے بند کرنے کی بات کرتے ہوئے ان حملوں کے کم فائدے اور زیادہ نقصان بھی بیان کیے تھے، مشیر خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکا نے ہماری بات مانی اور ڈرون بند کر دیئے لیکن فی الحال امریکی حکام نے یہ نہیں بتایا کہ ڈرون حملے کب تک نہیں ہونگے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا کو ہلاکت خیز ہتھیاروں سے پاک کرنے کا جو نیک عزم صدر بارک اوباما رکھتے ہیں وہ ڈرون ٹیکنالوجی کے یک طرفہ استعمال کے الم ناک مضمرات و اثرات کا بھی ادراک کریں۔ ڈرون حملے کا سب سے متنازعہ پہلو اس کا نوع انسانی کے بیگناہ حصہ کو بھی جرم بیگناہی میں اور بغیر اس کے عسکری کارروائیوں میں شمولیت کے مشتبہ قرار دے کر ٹارگٹ بنانا ہے، اسی پہلو پر امریکی سینیٹر اینگس کنگ کا یہ استعجاب قابل غور ہے کہ ڈرون پالیسی نے صدر امریکا باراک اوباما کو بیک وقت پراسیکیوٹر، جج، جیوری اور جلاد کے منصب پر فائز کر دیا ہے، حالانکہ چیک ایند بیلنس ہونا چاہیے۔ چنانچہ پاکستان میں امریکا مخالف جذبات کو مشتعل کرنے میں ڈرون حملوں کا منفی کردار ناقابل تردید ہے۔

دریں اثنا پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے امریکی ادارہ مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ واشنگٹن ڈی سی سے وابستہ دانشور ڈاکٹر مارون وین بام نے کہا ہے امریکا کو پاکستان کو وہی احترام دینا چاہیے جو وہ مخصوص معاملات میں بھارت کو دیتا ہے۔ انھوں نے کہا دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے اور باہمی احترام کی بنیاد پر دونوں ممالک کو مضبوط تعلقات قائم کرنے چاہئیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈرون طیاروں کی قانونی اور اخلاقی حیثیت پر عالمی سطح پر بحث جاری ہے اور دنیا بھر میں اس پر تنقید ہو رہی ہے۔ آرک بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹو کا ڈرون کے حوالہ سے نیو یارک ٹائمز کو لکھا گیا مکتوب چشم کشا ہے، اسی طرح سابق امریکی جنرل اسٹینلے میک کرسٹل نے خبردار کیا تھا کہ امریکا کے لیے ’’کم رسک اور کم تکلیف والے‘‘ والے ڈرون حملوں کے شدید رد عمل میں متحارب گروپ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ یہ انتباہ ’’ویک اپ کال‘‘ جیسا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔