نفسیاتی صحت پر چند منٹ کی ویڈیو دیکھنے سے بھی افاقہ ہوسکتا ہے

ویب ڈیسک  جمعرات 24 نومبر 2022
ذہنی و نفسیاتی امراض پر یوٹیوبر کی ویڈیو ایسے ہی مریضوں کی دکھائی جائے تو اس سے مریضوں کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

ذہنی و نفسیاتی امراض پر یوٹیوبر کی ویڈیو ایسے ہی مریضوں کی دکھائی جائے تو اس سے مریضوں کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

 لندن: ذہنی و نفسیاتی مسائل میں گھرے افراد اگر انہی امراض پر قابو پانے والے مریضوں کی سچی کہانی دیکھیں اور سنیں تو بھی ان کے مرض کی شدت میں کمی آسکتی ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق اگر مریضوں کو 17 منٹ اس کیفیت کے شکار یوٹیوبرز کی کہانی سنائی جائے تو بھی اس سے مریضوں کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ اس ضمن میں جب دماغی و نفسیاتی امراض سے لڑنے اور اس پر قابو پانے والے یوٹیوبر کی ویڈیو چند منٹ تک دیگر مریضوں کو دکھائی گئی تو ان میں مرض کی شدت میں 8 فیصد اور اضطراب (اینزائٹی) میں 11 فیصد کمی واقع ہوئی۔

سائنٹفک رپورٹس میں شائع ایک تحقیق کے مطابق ماورائے سماجی (پیراسوشل) تعلقات بھی انسانی رویے پر اثر ڈال سکتے ہیں۔ اس ضمن میں سینکڑوں افراد کو ایک خاتون کی ویڈیو دکھائی گئی جس میں خاتون کہتی ہیں کہ وہ بارڈر لائن پرسنلیٹی ڈس آرڈر (بی پی ڈی) کی شکار ہیں۔ خاتون نے اپنی ویڈیو میں اپنی کیفیت کے متعلق غلط فہمیوں کے بارے میں بات کی۔ اس ویڈیو کو صرف 17 منٹ دیکھنے کے بعد مریضوں کے گروہوں میں مرض کی منفی کیفیات اور اینزائٹی میں کمی دیکھی گئی۔

ویڈیو دیکھنے کے ایک ہفتے بعد کئی مریضوں کا جائزہ لیا گیا تو 10 فیصد مریضوں میں امید بڑھی ہوئی تھی اور ان میں مرض کی شدت کم تھی جبکہ کئی اپنے علاج کے لیے بھی سنجیدہ ہوئے اور فنڈ ریزنگ بھی کرنے لگے۔

تحقیق سے وابستہ یونیورسٹی آف ایسکس سے وابستہ ڈاکٹر شابہ لوٹن کہتی ہیں کہ یہ ایک بہت ہی دلچسپ اور امید افزا تحقیق ہے کیونکہ ہم آن لائن انداز میں لوگوں کی زندگیوں پر اس کے مثبت اثرات دیکھ رہے ہیں۔ یوٹیوب کو اس وقت اربوں افراد دیکھتے ہیں اور یوں اس سے کروڑوں افراد کو فائدہ ہوسکتا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اس طرح ذہنی اور نفسیاتی امراض کے علاج کی نئی راہیں کھلیں گی۔ اس مطالعے میں کل 333 افراد شامل تھے جن میں سے 191 خواتین اور 126 مرد شامل تھے جبکہ تین افراد نے اپنی جنس ظاہر نہیں کی تھی۔

ماہرین نے اس کے بعد ویڈیو کے مزید استعمال پر زور دیا ہے اور اب وہ ہزاروں افراد پر اس کی آزمائش کریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔