سائی بورگ آرٹسٹ : جو رنگوں کو دیکھتا نہیں ’ سُنتا ‘ ہے

ندیم سبحان  اتوار 30 مارچ 2014
پچھلے دس برس سے نیل ایک کمان نما ’’الیکٹرانک آنکھ‘‘  پہنے ہوئے ہے۔ فوٹو : فائل

پچھلے دس برس سے نیل ایک کمان نما ’’الیکٹرانک آنکھ‘‘ پہنے ہوئے ہے۔ فوٹو : فائل

رنگوں کا تعلق دیکھنے سے ہوتا ہے، مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ رنگ ’ سُنے‘ بھی جاسکتے ہیں؟ یقیناً آپ یہ پڑھ کر حیران ہوئے ہوں گے مگر یہ حقیقت ہے کہ برطانوی مصور اور موسیقار نیل ہربسن رنگوں کو دیکھتا نہیں سُنتا ہے۔31 سالہ نیل کلربلائنڈ یعنی رنگ اندھا ہے۔ کلربلائنڈنیس ایک ایسی جینیاتی بیماری ہے جس میں مبتلا فرد رنگوں کو دیکھنے سے قاصر رہتا ہے اور اسے ہر شے سیاہ و سفید نظر آتی ہے۔

پچھلے دس برس سے نیل ایک کمان نما ’’الیکٹرانک آنکھ‘‘  پہنے ہوئے ہے۔ یہ آنکھ اس کے سامنے موجود اشیاء کے رنگوں کی فریکوئنسی کو اپنی گرفت میں لے کر انھیں صوتی ارتعاشات میں بدل دیتی ہے جنھیں سُن کر نیل اندازہ کرلیتا ہے کہ وہ شے کس رنگ کی ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ رنگ کو سُن لیتا ہے۔ ابتدا میں وہ آنکھ نما اس ڈیوائس کو سَر پر پہنتا تھا۔ پھر لندن میں مقیم ایک سرجن نے اس کی کھوپڑی میں چِپ نصب کرکے اس منفرد ڈیوائس کو اس کے جسم کا حصہ بنادیا۔

اس ڈیوائس کا خیال نیل کو 2003ء میں ایک کمپیوٹر سائنٹسٹ ایڈم مونٹینڈن سے ملاقات کے بعد آیا تھا۔ یہ سائنس داں ڈارٹنگٹن کالج آف آرٹس میں ’’ سائبرنیٹکس‘‘ کے موضوع پر ہونے والی کانفرنس میں شریک تھا۔ نیل نے ایڈم کے ساتھ مل کر یہ آلہ تخلیق کیا جس کی مدد سے نیل نے مختلف رنگوں کی فریکوئنسی ذہن نشین کرلی۔ اس بارے میں نیل کا کہنا ہے،’’ آسمان ہمیشہ مجھے سرمئی دکھائی دیتا ہے، جب کہ ٹیلی ویژن اسکرین سے نکلنے والی شعاعیں میرے پردۂ چشم پر سیاہ و سفید مناظر ہی تخلیق کرتی ہیں۔ مگر اکیس سال کی عمر سے میں رنگوں کو ’ سُن‘ رہا ہوں۔ پہلے پہل مجھے رنگوں کے نام اور ان کی فریکوئنسی یاد کرنے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑا، پھر بہ تدریج یہ معلومات میرے لاشعور میں محفوظ ہوتی چلی گئیں۔ اب میرے پسندیدہ رنگ بھی ہیں اور میں رنگین خواب بھی دیکھنے لگا ہوں۔‘‘

نیل نے محسوس کیا کہ اس کا دماغ اور الیکٹرانک آنکھ کا سوفٹ ویئر ہم آہنگ ہوگئے ہیں کیوں کہ خوابوں کے رنگین ہونے میں اس سوفٹ ویئر کا کوئی ہاتھ نہیں تھا بلکہ یہ دماغ کی ’ کارستانی‘ تھی۔ اسے یہ ڈیوائس اپنے ہی احساسات کی اضافی شکل محسوس ہونے لگی تھی اور وہ خود کو ’ سائی بورگ‘ سمجھنے لگا تھا۔ چناں چہ اس نے اس ڈیوائس کو اپنے جسم کا مستقل حصہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ نیل اور ایڈم نے ایک ایسے سرجن کی تلاش شروع کردی جو الیکٹرانک آئی کو نیل کی کھوپڑی میں امپلانٹ کرسکے۔ ان کی یہ تلاش پچھلے سال تمام ہوئی جب وہ ایک ہسپانوی پلاسٹک سرجن کو اس آپریشن کے لیے راضی کرنے میں کام یاب ہوگئے۔

یہ سائی بورگ اینٹینا یا ’’ آئی بورگ‘‘ جو نیل کی کھوپڑی میں سے ’ اُگا‘ ہوا ہے، ایک لمبی ٹیوب کے مانند ہے جس کے ایک سرے میں رنگوں کی فریکوئنسی کو صوتی ارتعاش میں تبدیل کرنے والے آلا لگا ہوا ہے، اور یہی سرا نیل کی کھوپڑی میں پچھلی جانب امپلانٹ کیا گیا ہے۔ ’’ آئی بورگ‘‘ کے اگلے سَرے پر ایک خصوصی ویڈیو کیمرا نصب ہے جو رنگوں کو اپنی گرفت میں لیتا ہے اور پھر یہ رنگ صوتی ارتعاش میں ڈھل جاتے ہیں۔ چوں کہ ہر رنگ کا ارتعاش مختلف ہوتا ہے، اس لیے نیل مختلف شبیہوں، پینٹنگز اور چہروں کے مابین بہ آسانی فرق کرلیتا ہے۔

درحقیقت وہ عام انسانوں سے زیادہ بہتر طور پر رنگوں کو محسوس کرسکتا  ہے اور انھیں کینوس پر بکھیر دیتا ہے۔ نیل کی کھوپڑی میں نصب چِپ میں تصاویر اس کے موبائل فون، وائی فائی یا بلوٹوتھ کنیکٹر کے ذریعے بھیجی جاسکتی ہیں۔ یہ ایک ناقابل یقین سی بات لگتی ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ نیل دنیا کا پہلا فرد ہے جو کسی شبیہہ کی طرف نگاہ کیے بغیر بھی اسے ’ دیکھ ‘ سکتا ہے۔

نیل کی کھوپڑی میں چِپ کی تنصیب کئی آپریشنز کے بعد ممکن ہوپائی تھی۔ یہ آپریشن دسمبر سے مارچ کے دوران کیے گئے تھے۔ نیل کا کہنا ہے کہ الیکٹرانک آئی یا آئی بورگ اس کے جسم کا جزولازم اور اس کی شناخت بن گئی ہے۔ اس نے حکام سے یہ درخواست بھی کی ہے کہ اس کے پاسپورٹ پر تصویر تبدیل کی جائے اور نئی تصویر لگائی جائے جس میں آئی بورگ بھی واضح طور پر نظر آرہی ہو۔

اہم بات یہ ہے کہ مستقبل میں الیکٹرانک آئی کے نت نئے استعمالات سامنے آسکتے ہیں۔ نیل آئی بورگ کے ذریعے مختلف ڈیوائسز سے رابطہ کرسکتا ہے۔ اگر زیادہ سے زیادہ لوگ اپنے سَر میں  چِپ امپلانٹ کرواتے ہیں تو ان کے درمیان رابطے کی ایک نئی صورت سامنے آسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔