سیب کا واقعہ

نسیم انجم  ہفتہ 29 مارچ 2014
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

بزرگان دین کی خدمات نے جہالت کے اندھیروں کو دور کرنے میں معاشرتی حوالے سے اہم کردار ادا کیا ہے ان کے ہی فیوض وکمالات کی بنا پر بے شمار غیر مسلم دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے ان علما نے بھی اپنے پیرو مرشد کی تعلیمات پر نہ کہ خود عمل کیا بلکہ دور دور تک حق کے چراغ کو جلانے کے لیے مسلسل کوشش کی اور سفر کی اذیتیں برداشت کیں، دنیا کے عیش و طرب کو حقیر جانا اور معرفت حاصل کرنے کے لیے زندگی کے ہر سکھ کو خیرباد کہا۔ ریاضت و عبادت میں شب و روز بسر کیے تبلیغ اسلام کے لیے کٹھن راستوں پر چلے، مشکلات اٹھائیں، تکالیف برداشت کیں، تب کہیں وہ اعلیٰ مرتبے پر فائز ہوئے تب اللہ کے پسندیدہ بندوں میں شمار ہوئے۔

پچھلے دنوں ہم نے ایک کالم بعنوان ’’روشن راہیں‘‘ تحریر کیا تھا مذکورہ کالم میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے علم و کمال کا ذکر کیا تھا، لیکن ہوا یوں کہ باغ اور سیب کا واقعہ لکھنے کے بعد دو الفاظ لکھنے سے رہ گئے، اب یہ کس کی غلطی ہے؟ یہ تو نہیں معلوم بہرحال غلطیاں انسان سے ہی ہوتی ہیں لیکن ان دو لفظوں کی کمی نے سیب والے واقعے کو جوکہ حضرت عبدالقادر جیلانیؒ کے والد کے ساتھ پیش آیا تھا، حضرت غوث اعظم کے ساتھ منسوب کردیا اس بات کا احساس مجھے اسی وقت ہوگیا تھا، لیکن جب ایک، دو ای میلز آئیں تو احساس کی شدت بڑھ گئی کہ یقینا اتنے اہم واقعے کی تصحیح ضروری ہے تقریباً 5-6 ای میلز میں کالم کے قارئین نے یہ بھی کہا کہ حضرت عبدالقادر جیلانی اور دوسرے صوفیائے کرام کے بارے میں مزید لکھوں۔

باغ کے مالک کا نام حضرت سید عبداللہ صومعی ہے جوکہ ایک مشہور صوفی بزرگ تھے اور اپنے کشف و کرامات کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے ایک بار ان کے دوست احباب اپنا مال و اسباب لے کر ایک تجارتی قافلے کے ساتھ ثمرقند کے سفر پر روانہ ہوئے دوران سفر ایک صحرا پڑا، صحرا میں بہت سے مسلح ڈاکوؤں نے مسافروں کو گھیر لیا تاجر اس صورتحال سے بے حد پریشان ہوئے، چنانچہ بے اختیار ہوکر انھوں نے حضرت سید عبداللہ صومعی ؒ کو آواز دی، ان کی پکار سن کر حضرت سید عبداللہ صومعی سامنے آگئے اور انھوں نے ڈاکوؤں سے فرمایا کہ:

’’ہمارا پروردگار پاک اور بے عیب ہے، اے سوارو! ہم سے دور چلے جاؤ‘‘۔

یہ سن کر تمام گھوڑے بے قابو ہوگئے اور اپنے سواروں کو لے کر واپسی کے سفر کے لیے سرپٹ دوڑنے لگے۔

جب یہ تاجر واپس جیلان آئے اور عزیزوں اور دوستوں کے گوش گزار یہ واقعہ کیا تو سب نے حیران ہوکر کہا کہ شیخ تو ایک لمحے کے لیے بھی جیلان سے باہر نہیں گئے۔

حضرت سید عبداللہ صومعیؒ کی صاحبزادی کا نام فاطمہؒ تھا اور یہ بے حد عبادت گزار خاتون تھیں اور فاطمہؒ کی شادی جس ہستی سے ہوئی ان کا نام حضرت سید ابو صالح موسیٰؒ تھا اور ان ہی کی اولاد حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ تھے۔ اللہ کے نیک بندوں میں عہد طفولیت اور شیر خواری کے زمانے سے ہی حیرت انگیز واقعات و کرامات نظر آنے لگتے ہیں۔ وہ عام لوگوں سے قدرے مختلف ہوتے ہیں۔ حضرت عبدالقادر جیلانیؒ سے بھی پیدائش سے موت تک بہت سے کشف ظاہر ہوئے، آپؒ کی ولادت ماہ رمضان میں ہوئی اور دن کے وقت آپؒ پورے دن بھوکے شکم رہتے اور افطار کے وقت دودھ نوش فرماتے اس طرح انھوں نے پورے مہینے رمضان کے روزے رکھے۔ دوسرے سال بادل ہونے کی وجہ سے آسمان پر چاند نظر نہ آیا تو لوگوں نے آپؒ کی والدہ ماجدہ سے پوچھا کہ سیدہ! تمہیں طلوع چاند کے بارے میں کچھ معلوم ہوا ہے؟ جواب میں سیدہ نے فرمایا کہ آج میرے بیٹے عبدالقادر نے دن میں دودھ نہیں پیا ہے، تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ آج پہلا روزہ ہے اس بات کی شہادت دوسرے شہروں سے بھی موصول ہوگئی کہ ماہ رمضان کا آج پہلا ہی روزہ ہے۔ حضرت عبدالقادر جیلانیؒ نے بھی اپنے ایک شعر میں ایام شیرخوارگی کے واقعے کو درج کیا ہے۔

حضرت عبدالقادر جیلانیؒ نے 26 سال کی عمر میں علم قرأت، علم فقہ، علم حدیث، علم کلام و نعت، مناظرہ اور دوسرے علوم کی تکمیل کرلی تھی۔ اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ جب آپ نے فتویٰ دینا شروع کیا تو ان کے اس عمل نے علما ظاہر کو پریشان کردیا اور انھوں نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک 26 سالہ نوجوان علم شریعت کی باریکیوں کو سمجھ سکے؟ کہ شرعی مسائل کا حل بتانا بچوں کا ہرگز کھیل نہیں ہے انھوں نے حضرت عبدالقادر جیلانی سے اجازت نامہ مانگا کہ کس کے حکم سے وہ یہ کام کرنے لگے ہیں، جب انھوں نے اپنے ان اساتذہ کا نام لیا، جو گوشہ نشیں درویش تھے حضرت عبدالقادر جیلانیؒ کے جواب نے انھیں مایوس کیا اور ان سب نے آپؒ کی مخالفت شروع کردی، آپؒ نے بغداد چھوڑنے کا ارادہ کرلیا تو آپؒ کے مریدوں نے فرمایا کہ آپؒ کے جانے سے لوگ غلط مفہوم نکالیں گے لہٰذا بغداد کے تمام علما کی خواہش پر آپؒ ان کے سامنے حاضر ہوئے لیکن آپؒ کی ایک نگاہ نے ہی ان پر وہ اثر پیدا کیا جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا وہ حضرت غوث اعظم سے کیا سوال کرتے کہ ان کی قوت گویائی سلب ہوچکی تھی اور نمود و نمایش کے لیے جو علم حاصل کیا تھا وہ ان کے ذہنوں سے مٹ گیا تھا اور اب وہ ویرانوں میں بھٹک رہے تھے۔ علما نے بیک وقت کہا کہ کیا سوال کریں۔ ہمیں تو یوں محسوس ہو رہا ہے کہ ہمارے ذہنوں پر کبھی علم و حکمت نے اپنا اثر قائم نہیں کیا تھا ہم تو اس وقت خالی الذہن ہیں۔

حضرت عبدالقادر جیلانیؒ نے کہا تو پھر ٹھیک ہے، آپ مجھے اجازت دیں کہ مجھے اور بھی کام ہیں۔ علما کرام نے گریہ و زاری کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے علم تو ہمیں لوٹا دو اور معافی کے خواستگار ہوئے، حضرت عبدالقادر جیلانیؒ نے فرمایا کہ میرا علم دنیا سے نہیں ہے بلکہ اللہ جو کہ عالم الغیب ہے وہ مجھے سکھاتا ہے۔ اے!دنیا کی پرستش کرنے والو! میں نے تمہیں معاف کیا، اللہ بھی تم سب کو معاف فرمائے کہ اس کی بخشش کے بغیر انسان کا کوئی ٹھکانہ نہیں، ان کے تشریف لے جاتے ہی علما بغداد کے ذہنوں پر دوبارہ وہی روشنی پھیل گئی، جس سے وہ محروم ہوگئے تھے۔

حضرت عبدالقادر جیلانیؒ کے علم و فضل کے بے شمار واقعات اسلامی کتب میں درج ہیں۔ ان اعلیٰ و ارفع حضرات کی زندگیاں گناہوں سے پاک ہیں، انھیں اپنے نفس کو قابو میں رکھنا آتا ہے، نفس کی غلامی سے بچنے کے لیے انھوں نے ہر قسم کی اذیتیں برداشت کیں، شیطان نے بارہا ورغلایا، راہ مستقیم سے بھٹکانے کے نئے نئے حربے آزمائے لیکن ان اللہ کے صالح بندوں کے پائے استقامت کو لرزش نہ ہوئی۔ سچ ہے کہ جو شخص اللہ سے جو مانگتا ہے اور جس کام کے لیے کوشش کرتا ہے اسے وہی ملتا ہے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے جس کا ذکر قرآن پاک میں موجود ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔