خراج تحسین گزارش کے دائرے میں۔۔۔

راؤ سیف الزماں  ہفتہ 29 مارچ 2014

مالا مال ہوگیا پاکستان۔ خوب ڈالر آرہے ہیں۔ ڈوبتی ہوئی معیشت کو تنکے کی جگہ شہتیر ہاتھ آگیا۔ اور ملک جیسے گہرے پانی میں ٹھہرے ہوئے جہاز کی مانند دھیرے دھیرے سرکنے لگا۔ اگرچہ کس سمت میں سرک رہا ہے اسے وقت ہی طے کرے گا۔ فی الحال تو بڑے دکھ میں سکھ کا سانس آیا ہے۔ اسے لے لیں۔ اور اس تبصرہ آرائی سے گریز کریں کہ ہمارے دوست ملک  نے یہ خطیر رقم ہمیں تحفتاً دی ہے۔ عاریتاً یا عادتاً۔ اور نہ ذہن پر زور ڈالیں کہ ان نوازشات کے پس منظر میں کون ہے؟ امریکا بہادر!  یا ایک صاحب نے مجھے بڑی رازداری سے اور گفتگو کے مقام سے ذرا دور لے جا کر بتایا کہ پرویز مشرف دور میں پاکستان و سعودی عرب کے درمیان یہ معاہدہ ہوا تھا کہ پاکستان، سعودی عرب کو اپنے ملک کی ایک لاکھ ایکڑ زرعی اراضی فروخت کرے گا۔ جس پر سعودی عرب (جہاں فصلیں اور زرعی اجناس پیدا نہیں ہوتیں اور اسے بوجوہ سبزیاں، دالیں وغیرہ امپورٹ کرنی پڑتی ہیں) کاشت کاری کرے گا۔ اور اس طرح وہ اس معاملے میں خودکفیل ہوجائے گا۔

ہو سکتا ہے کہ مذکورہ ڈالرز اس معاہدے کی پہلی قسط کے طور پر ادا کیے گئے ہیں  جب کہ دوسری اقساط کی آمدورفت بھی جاری رہے گی۔ لیکن اس بحث سے کیا حاصل؟ جو ان دنوں ملک بھر میں بہت زور شور سے جاری ہے۔ اور ہر طبقہ فکر کے لوگ اس سوچ و بچار میں سر کھپا رہے ہیں۔ ارے بھائی غریب تھے تو غربت مسئلہ تھی۔ اللہ نے مال دیا تو راہزن کا خوف سونے نہیں دے رہا۔ حالانکہ ہمیں تو بس یہ دیکھنا چاہیے کہ ہماری معیشت جو روبہ زوال تھی اب بہتری کی جانب گامزن ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اگر کم نہیں ہوئی تو رک گئی ہے۔ لہٰذا حکومت کی نیت یا طرز حکومت پر نہ تو شک کیا جانا چاہیے نہ نکتہ چینی۔ بلکہ ہمیں حکومت کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔ حکومتی کارکردگی کو عمدہ الفاظ میں سراہنا چاہیے۔ کیونکہ کم ازکم میں پچھلے 5 سالوں کو بھولنے کے لیے اپنے آپ کو کسی طور تیار نہیں پاتا۔

پچھلا دور حکومت جب ملک ہر طرف سے تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ امید کی کرن تو درکنار۔۔۔۔امید کے خیال تک سے دل و نظر خالی تھے۔ اس دور میں ملک نے بہت ترقی کی۔ لیکن صرف کرپشن میں۔ ایک روپے سے لے کر ایک کھرب تک کی کرپشن ۔ دنیا کی عظیم کرپشن جو گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ سمیت ہر بڑی کتاب میں درج ہونے کے لائق ہے۔ اگرچہ موجودہ دور میں بھی حالات کو مثالی نہیں کہا جاسکتا۔ بہتری کا ایک غیر محسوس سا احساس ہے۔

دہشت گردی بھی جاری ہے۔ ملک پر ہنوز بیرونی قرضوں کا بوجھ ہے۔ بلکہ مزید قرض بھی لیا گیا ہے۔ ڈالر کی قدر میں کمی سے ملکی برآمدات (Export) پر اثر پڑا ہے۔ لیکن پھر بھی بہتری کے آثار نمایاں ہیں۔ کیونکہ کرپشن نہیں ہے۔ کیونکہ نیتیں ٹھیک دکھائی دیتی ہیں۔ جو بھی سفر الیکشن کے بعد سے اب تک ملک و قوم نے حکومت کی رہنمائی میں طے کیا اس کی ایک سمت ہے۔ اس کے لیے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے اور انشاء اللہ جلد یا بدیر اس کے ثمرات ہم تک پہنچیں گے۔ زندگی بہرحال امکان کا نام ہے۔

حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا ابتدائیہ طے ہوچکا۔ گفتگو کا باقاعدہ آغاز ہوا چاہتا ہے۔ دونوں اطراف کی مذاکراتی کمیٹی کے اراکین طبعاً سنجیدہ و فہمیدہ نظر آتے ہیں۔ لیکن اس کا آخری اور حتمی نتیجہ کیا نکلے گا۔ اس کے بارے میں پیشن گوئی یا پیش بینی وہ کرے جس نے ’’شمع بینی‘‘ یا تحلیل النفسی کی مشقیں کی ہوں۔ مراقبے میں وقت گزارا ہو۔ مجھ جیسا دنیا دار تو صرف اچھی امید رکھ سکتا ہے۔ اور یہ دعا کرسکتا ہے کہ جیسے آج کل بم دھماکے نہیں ہو رہے۔ لوگوں کی جان و مال محفوظ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے ہی ہمیشہ وطن عزیز کی اور اس کے باشندگان کی حفاظت فرمائے (آمین!)

ایک اور مسئلہ جس کا بروقت تدارک نہ کیا گیا تو مستقبل قریب یا بعید میں وہ بڑی شدت لے کر سامنے آئے گا۔ اور اس وقت شاید اس طرح قابل حل نہ ہو جتنی آسانی سے اسے اس وقت دور کیا جاسکتا ہے۔ وہ ہے ’’بین الصوبائی‘‘ رابطے اور بھائی چارے کا فقدان۔ اگر ہم بات کو آسان لفظوں کا جامہ پہنادیں تو کہا جاسکتا ہے کہ قومی سوچ “Nationalism” کی کمی۔ جو بدقسمتی سے ملک وجود میں آنے کے 67 سال بعد بھی اتنی ہی مفقود نظر آتی ہے۔ جتنی قبل ازتقسیم رہی ہوگی۔ یعنی سندھی، پنجابی، پختون، بلوچ کی افراط و تفریق اور اس بنیاد پر پیدا ہونے والی خلیج جو بڑھتے بڑھتے اس قدر گہری ہوگئی ہے کہ اب یہ چار صوبے نہیں بلکہ چار ملک دکھائی دیتے ہیں۔ اور بعض اوقات تو پڑوسی ملکوں کی سرحدی جھڑپوں کی طرح ان چار صوبوں میں بھی لفظی جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ جیساکہ تقسیم آب کے معاملے پر صوبوں کے درمیان وہاں قائم حکومتوں کا لب و لہجہ اپنے زیرو بم میں خاصی اجنبیت لیے ہوئے ہوتا ہے۔ اور لگتا ہی نہیں کہ یہ چاروں صوبے ایک ہی ملک کا حصہ ہیں۔

اسی طرح سے جب بھی صوبائی خودمختاری کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو وہ مطالبہ آزادی زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ لیکن اپنی تحریر کے اس موڑ پر میں حکومت وقت، ملکی ایجنسیز اور دیگر نادیدہ قوتوں سے معافی چاہتے ہوئے اس گزارش کے ساتھ کہ وہ مجھے غداری کے فوری اعزاز سے نہ نواز دیں۔ چند ایک معروضات پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ ملک کے چاروں صوبوں میں پنجاب کی ترقی بحیثیت ایک پاکستانی میرے لیے قابل ذکر بھی ہے اور قابل فخر بھی۔ اور میں برملا کہتا ہوں کہ یہ ترقی اہل پنجاب بالخصوص دہقکان و مزدور کی شدید محنت کی مرہون منت ہے۔ لیکن آخر ایسا کیا ہے کہ یہ ترقی سندھ اور دیگر دو صوبوں میں دکھائی نہیں دیتی! اگر پنجاب میں پانی کی بہتات ہے اور وہاں دریا بہتے ہیں تو دیگر تین صوبے معدنیات اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں۔ اور ملکی آمدن کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ نسبتاً کم محنتی سہی لیکن بھائی فصلیں تو یہاں بھی کاشت ہوتی ہیں۔ مزدور یہاں بھی محنت سے ہی اپنا گھر چلاتا ہے۔ تو پھر ہم کیا سمجھ لیں؟ یا کیا فرض کرلیں۔

گڈ گورننس! سیاسی سوجھ بوجھ، ذہانت، محنت یا قسمت؟ لیکن دن بہ دن ترقی کی جانب سفر کرتا ہوا پنجاب اور تیزی سے تنزلی کی جانب گامزن باقی تین صوبے۔ نت نئے روٹس پر میٹرو بسز کے افتتاح ، طلباء میں لاکھوں Laptops کی تقسیم، دانش اسکولز کا قیام بہت سے سوالات کو جنم دے رہے ہیں۔ آپ کا صوبہ، ہمارا صوبہ کی تنقید تعریف سے نکل کر ذرا غور کیجیے۔ اور ٹھنڈے دل سے اس معاملے کو لے کر اس پر اپنی کابینہ میں بحث کیجیے۔ پھر حل کی طرف آئیے۔ آپ کے پاس مرکزی حکومت ہے لیکن یاد رکھیے گا کہ وہ بھی پنجاب ہی کی مرہون منت ہے۔ تو ایسے میں یہ واہمات ، وسوسے، اندیشے جڑ پکڑ کر ایک تناور درخت کی شکل اختیار کرسکتے ہیں۔

میں نواز شریف صاحب کی سربراہی میں قائم مرکزی حکومت سے اس اہم ترین معاملے پر خاص توجہ کی درخواست کرتا ہوں کہ آپ فوری طور پر ایکشن لیتے ہوئے باقی تینوں وزرائے اعلیٰ کو ساتھ بٹھائیں اور ان سے طویل مشاورت کا ایک سلسلہ قائم کریں۔ ان سے ان کے صوبوں کے مسائل سنیں۔ اور پھر انھیں مکمل دیانتداری سے حل کرنے کی اپنی سی کوشش کریں۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ وفاق مضبوط ہو۔ اگر آپ کی خواہش ہے کہ پاکستان ترقی کرے اور اگر آپ کے خیال میں یہ چاروں صوبے ایک ہی ملک اور ایک ہی وجود کا حصہ ہیں تو پھر قربانی دینے سے گریز مت کیجیے خواہ اس کا حجم کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو۔ مجھے بدقسمتی سے یہ احساس ہے کہ میری تحریر آپ تک نہیں پہنچ پائے گی لیکن دل خواہش گمان کہتا ہے کہ میٹرو بس کا اگلا افتتاح پشاور، کراچی یا کوئٹہ میں ہوگا۔ ورنہ۔۔۔۔

ہلکا سا یہ اک فرق دلوں میں جو پڑا ہے

پچھتاؤ گے اس زخم کو گہرا نہ سمجھ کر

[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔