سندھ کے بدلتے تیور

جاوید قاضی  ہفتہ 29 مارچ 2014
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

مجھے سندھ کے اندر اک شورش نظر آرہی ھے، وہ شورش جس کی ایک شکل ایم آر ڈی تحریک کی صورت میں بنی تھی تو دوسری صورت بینظیر کے قتل پر بنی تھی، پھر ایک موت بشیر قریشی کی بھی ہوئی اور پھر ایک قتل اور اس کے بھائی مسعود قریشی کا حال ہی میں ہوا۔ اس طرح کراچی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بہت بڑا جلوس اس کی پارٹی والے نکالنے میں کامیاب ہوگئے۔ ایم آر ڈی تحریک کیا تھی؟ بھٹو کی پھانسی کا غم و غصہ تھا۔ بھٹو سے پہلے سندھ بہت جاگیردارانہ تھا، جاگیردارانہ تو خیر اب بھی ہے اور اس نے نئے عہد کے اندر اپنی استحصالی قوت ہونے میں نئے انداز بھی اپنا لیے ہیں۔ لیکن اس میں اب کچھ شگاف پڑتے ہوئے نظر آرہے ہیں، وہ جو ورکر کلاس ہے یا مڈل کلاس، اب قوم پرست سیاست کے گرد چکر کاٹنے لگی ہے، جو بھٹوز کے گرد گھوما کرتی تھی اب سید کی فکر کے گرد جمع ہونے لگی ہے۔

ایک طرف مدرسوں کے انبار لگنے لگے ہیں تو دوسری طرف قوم پرست سیاست کے خیمے گڑھ رہے ہیں، تو بیچ میں بیٹھی ہے قائم علی شاہ کی حکومت،  سر آئینہ شاہ صاحب ہیں، پس آئینہ کل تک ٹپی تھے اور وہ خود بھی فرنٹ مین تھے۔ بلاول بھٹو کا سیاسی کیریئر داؤ پر لگا ہوا ہے، اور کب تک آخر لوگ بھٹوز کی وجِہ سے ان کو سب کچھ معاف کرتے رہیں گے۔ تھر میں اپنی نااہلی کو چھپانے کے لیے اب بھی لگے ہوئے ہیں۔ جسے جو جی میںآتا ہے وہ کرتا ہے، نہ کوئی پوچھنے والا ہے، نہ دیکھنے والا۔ روایتی سندھ کے پاسدار مخدوم صاحب کے گھر پہنچ گئے، کسی پر نااہلی کا بار گرنا تھا اور گرانا بھی لازم تھا، وہ یہ کام بھی نہ کرسکے۔ جاگیردارانہ سسٹم کا گہرا تعلق بنتا ہے بری حکمرانی سے۔ بری حکمرانی ان مائی باپ لوگوں کی روٹی پانی ہے، خود بھی کھاتے ہیں اور کھلاتے بھی ہیں، جو اس اصول کا انحرافی ٹھہرا اسے یہ پاگل کہہ کر نظام سے خارج کردیتے ہیں۔ بس یہی بات ہے شاہ صاحب کی وہ اچھی حکمرانی دینے سے قاصر ٹھہرے۔

ہاں مگر ایک کام بہت خوب کیا، وہ تھا بلاول بھٹو کا سندھ کی سیکولر تہذیب کو اجاگر کرنا، اور یہ کہنا کہ عرب بھی انگریزوں کی طرح غاصب تھے اور یہ کہ سندھ عربوں سے پہلے ہی بہت مہذب تھا۔ کل جب بینظیر کو دفنانے گڑھی خدا بخش کا وقت آیا تو ’نہ کھپے نہ کھپے، پاکستان نہ کھپے‘ کے نعروں سے فضا گونجنے لگی، کوئی بشیر قریشی والے نہیں بلکہ جیالے لگا رہے تھے۔ اسی نعرے کے ردعمل میں ایک نعرہ زرداری نے ’کھپے کھپے پاکستان کھپے‘ کی صورت میں فضائوں کی نذر کیا۔ اب ایک طرف منان قریشی ہے جو اپنے والد اور چچا کی شہادت کا وارث بننے کا اعزاز لیتا ہے تو دوسری طرف بلاول بھٹو ہے، گڑھی خدا بخش کے شہیدوں کا امین۔ لاڑکانہ کے بالکل اسی تعلقے میں کچھ ہی میل کے فاصلے پر شہیدوں کا ایک اور قبرستان اپنی آرزو بچھائے بیٹھا ہے کہ کب ایک دن وہ اتنا رتبا سندھ میں پا سکے گا جتنا بڑا رتبہ بھٹوز کے قبرستان کا ہے، وہ ہے بشیر قریشی اور اس کے بھائی مقصود قریشی کا قبرستان، جس کے درگاہ نشین منان قریشی ٹھہرے۔

منان قریشی و بلاول بھٹو سندھ کے صوفی تشخص کی بقا کی خاطر ہم آہنگی رکھتے ہیں۔ ٰادھر نواز شریف و عمران خان میں کم ہی تضاد پایا جاتا ہے۔ طالبان کی نفسیاتی کامیابی تب نظر آئی جب شام کے ابھرتے تضاد نے ان کو ایک موڑ پر لاکر کھڑا کردیا۔ طالبان و القاعدہ  کچھ اس تیزی سے اس ملک کو ڈیڑھ ارب ڈالر کی لالچ میں کھینچ گئے ہیں کہ سیدھا یہ ملک جاکر مشرق وسطیٰ کے تضاد میں اپنے آپ کو کوسوں دور ہوتے ہوئے بھی اپنی موجودگی کا عرب دنیا کو احساس دلاتا ہے اور اس کی وجہ سے سندھ کے اندر مذہبی انتہاپرست بے لگام ہوتے نظر آتے ہیں، کبھی رنکل کماری، تو کبھی بھورو بھیل والا واقعہ، تو کبھی اس مندر کو تو کبھی اس مندر کو آگ لگادیتے ہیں۔ یہ بھی ہوا کہ صوفیوں کی درگاہوں پر بھی دھماکے کیے گئے۔ بلاول بھٹو بھی ’مر ویسوں مر ویسوں سندھ نہ ڈیسوں‘ کا نعرہ لگاتے ہیں، تو منان قریشی کا تو یہ پہلے سے لگایا ہوا نعرہ ہے۔ سندھ میں اب یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ جس طرح بنگالی شورش کو کچلنے کے لیے مذہب کو استعمال کیا گیا اور اسی طرح  قوم پرستی  کے خلاف بھی یہی ہتھیار استعمال کیا گیا، بالکل اسی طرح سندھی صوفی قومی تشخص کو ہراساں کرنے کے لیے وہی کچھ کیا جا رہا ہے۔

سندھ اپنے صوفی تشخص کو  زیادہ سنجیدہ لیتا ہوا نظر آتا ہے۔ سندہ فیسٹیول کا بھی یہی نکتہ تھا، تو جسقم کا کراچی میں مارچ کا بھی بنیادی نکتہ یہی تھا، گرچہ دونوں کی آگے چل کر منزل مختلف ہوجاتی ہے۔ کھپے اور نہ کھپے میں تقسیم ہوجاتی ہے۔ سندھ کا اتنا مختلف مزاج اس لیے بھی رہا کہ سندھ کی نیریٹو ملک سے ہٹ کر سندھی صحافت کی وجہ سے بھی رہی، جو کہ مجموعی طور پر انتہائی ترقی پسند و سیکولر رہی ہے۔ اس میڈیا کا روٹی پانی اسی پر ہے، جو کہ سوائے انگریزی صحافت کے پاکستان کی کسی اور صحافتی زبان کا مرکز نہیں۔ یہ لوگ جی ایم سید کے نام پر ووٹ نہ دیں مگر سوائے اس کی علیحدگی پرستی کے باقی ساری اس کی باتیں تقریباً مانتے ہیں۔

میڈیا کی ایک بڑی طاقت بننے سے پہلے، سندھ کی سیکولر فکر کی سیٹ جامشورو تھا، پھر ضیاالحق کے زمانے میں خود جی ایم سید کے پیروکاروں نے ترقی پسند سوچ کے خلاف فاشسٹ انداز اپنایا ۔ تعلیم درسگاہوں کی طویل تعطیل کے بعد اب سندھ کی اس مخصوص سوچ کو فیس بک کا سہارا مل گیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔