سفر جب suffer بن جاتا ہے۔۔۔

شیریں حیدر  ہفتہ 29 مارچ 2014
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

جب راستہ صاف ہو،ٹریفک کم ہو… یہی سفر پچیس منٹ سے ایک گھنٹے میں طے ہو جاتا ہے، مگر لگ بھگ دو گھنٹے ہونے کو آئے تھے، منزل سے جب دو ہاتھ دور تھے تو علم ہوا کہ راستے میں ایک قصبے سے لوگوں نے سڑک بند کر رکھی تھی، سڑک پر ٹائر جلا کر اور دیگر رکاوٹیں کھڑی کر کے سفر کرنے والوں کو suffer کرنیوالے بنا دیا گیا تھا۔ یہ قصبہ گجرات سے ہمارے گاؤں جانے کی سڑک پر ایک انتہائی مرکزی مقام پر واقع ہے اور اس چوک سے سڑکیں ہر چار سمت میں کھاریاں، بھمبر، جلالپور جٹاں اور گجرات کی طرف جاتی ہیں… اس وقت اس چوک کے ہر طرف سے ٹریفک بلاک تھی اور لوگ اپنی منازل تک پہنچنے سے قاصر تھے۔ وجہ پوچھنے پر علم ہوا کہ کسی لڑکی کے اغوا ہونے اور پولیس کی طرف سے اس کی رپورٹ نہ لکھنے کے باعث اس کے اہل خانہ اور خاندان و دیگر لوگوں نے مل کر احتجاجاً سڑکیں بند کر دی تھیں۔

پچیس منٹ کا سفر طے کر کے واپس گجرات لوٹے کیونکہ کوئی اور متبادل راستہ نہ تھا۔ وہاں سے جی ٹی روڈ پکڑی اور براستہ لالہ موسی… دوبارہ گاؤں کی طرف عازم ہوئے اور معمول کا نصف گھنٹے کا راستہ اس خواری اور بیزاری کے ساتھ طے کیا کہ اڑھائی گھنٹے میں جب شادی پر پہنچے تو جہاں ہمیں استقبالیہ پر کھڑے ہو کر مہمانوں کو مسکرا مسکرا کر ملنا تھا، وہاں اس وقت رخصتی کی تیاری ہو رہی تھی اور باقی وقت ہم لوگوں کو وضاحتیں دیتے رہ گئے۔ یہ تو ایک مثال ہے… میرے گھر سے کام کا فاصلہ لگ بھگ ایک گھنٹے کا ہے جو کہ کئی بار چار سے پانچ گھنٹوں تک محیط ہو جاتا ہے یا پھر میں گھر پہنچ ہی نہیں پاتی کہ اہم ترین شاہراہ احتجاجیوں نے بند کر کے پورے وفاقی دارالحکومت کو یرغمال بنا رکھا ہوتا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ظلم کی چکی میں پستے ہوئے لوگ… اس انداز میں احتجاج کرتے ہیں تو اس کا نقصان کسے ہوتا ہے؟ انھی کے طبقے کے ان لوگوں کو جو ان عوامی سڑکوں پر ہر روز سفر کرتے ہیں۔

گھنٹوں انتظار کی قطاروں میں کھڑے… اس خوف میں مبتلا کہ کہیں کوئی ہنگامہ شروع ہو گیا تو وہ خواہ مخواہ مارے جائیں گے… ایمبولینسوں میںموت سے لڑتے ہوئے مریض… تکلیف میں تڑپتی ہوئی عورتیں، بھوک سے بلبلاتے بچے، فطری ضروریات کے ہاتھوں مجبور عورتیں کہ مردوں کو کوئی مسئلہ نہیں…  مختلف منازل کی طرف سفر کرنے کے لیے گھروں سے جاتے ہوئے مسافر، جن کی پروازیں چھوٹ جاتی ہیں، غریب ٹیکسیوں والے… جن کے ایک ایک منٹ کے عوض ان کے گھر والوں کے نصیب کی روٹی سے منسلک ہوتے ہیں ۔

پوری زندگی کو ہی سفر سے تشبیہ دی جاتی ہے… یہی سفر کبھی کبھارuffer  s  بن جاتا ہے تو کبھی پوری عمر ہی suffering بن جاتی ہے۔ کیا آج تک کسی توڑ پھوڑ سے، کسی احتجاجی مظاہرے سے، کسی مضبوط ترین گواہی سے، کسی تگڑی سے تگڑی پارٹی کو بھی انصاف ملا ہے؟

کیا کسی سوؤ موٹو ایکشن سے کوئی سرکاری مشینری حرکت میں آئی؟ کیا کسی غریب کی بچی کی لٹی ہوئی عزت واپس ملی؟  کیا کسی کا بے گناہ قتل کرنے والے اپنے انجام کو پہنچے؟ کیا اغواء کرنے والا کوئی بھی گروہ آج تک پکڑا گیا؟ کیا کسی سڑک کو گھنٹوں بند کر دینے سے بھی پولیس کا بنیادی نظام تبدیل ہو سکتا ہے؟ کیا کسی کا حق کھانے والے کو سزا ملی ہے؟ عورت کو ذلت کی انتہاؤں تک پہنچا دینے والا کوئی بھی مجرم آج تک پکڑا گیا؟ نہیں نا… تو پھر کیا فائدہ بھینس کے آگے بین بجانے کا… خود کو مصیبت میں ڈالنے اور دوسروں کو بے مقصد ایسی سزا میں مبتلا کرنے کا؟ حکمرانوں نے تو ملک کا جغرافیہ ہی تبدیل کر کے اسے ایک صوبے کی حد تک limited کر دیا ہے، ان کی ترقی اور کامیابی ایک صوبے، بلکہ ایک شہر تک محدود ہو کر رہ گئی ہے… انھیں کیا معلوم کہ اس ملک کے نقشے میں کوئی بھدر نام کا گاؤں بھی ہو گا، جس کے راستے میں دولت نگر نامی انتہائی اہم قصبہ بھی ہے کہ جہاں سے بہت اہم سمتوں کو سڑکیں نکلتی ہیں … وہاں کسی لڑکی کا اغواء ہوا ہو گا اور پولیس نے رپورٹ نہیں لکھی ہو گی۔ ان کے آسمانوں کی وسعتیں بہت زیادہ ہیں اور ان کا وژن ان ’’چھوٹے چھوٹے ‘‘ مسائل سے بہت بالا تر ہے، کیونکہ یہ مسائل چھوٹے چھوٹے لوگوں کے ہیں۔

قانون اور قانون ساز ادارے اتنے بے بس ہیں یا پھر عوام کی بے بسی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کوئی اخبار اٹھا کر دیکھ لیں، کوئی چینل آن کریں جہاں ’’ ڈشوں ڈشوں ‘‘ کر کے کسی کی بچی کی عزت لٹنے کی داستان… داستان الف لیلی کی طرح اور مکمل تفاصیل کے ساتھ ’’ بریکنگ نیوز ‘‘ کے ٹائٹل کے ساتھ دکھائی جا رہی ہوتی ہے۔ ایک تو یہ جرم معاشرے میں اتنا عام ہو گیا ہے کہ جس طرف نظر اٹھاؤ ایک مظلوم کی شکل نظر آ جاتی ہے، میڈیا ایسی خبروں کو تلاشتا اور اچھالتا ہے مگر نہیں کوئی سنتا تو … وہ ہیں کہ جنھیں سننا چاہیے… جنھیں متاثرین کے آنسو پونچھنا چاہئیں۔

ہاں ٹیلی وژن پر دکھایا جاتا ہے کہ اعلی ترین عہدوں پر فائز لوگ، متاثرین کے پاس جاتے ہیں، ان سے وعدے کرتے ہیں کہ مجرموں کو نہ صرف جلد گرفتار کرلیا جائے گا بلکہ انھیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا اور قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ مگر آج تک چشم فلک نے تو ایسا کچھ ہوتے نہیں دیکھا، کسی کو سزا کیا ملے… ایسے بڑے بڑے مجرم نہ صرف قانون کی زد سے محفوظ رہتے ہیں بلکہ کیمروں کے سامنے victory کے نشانات بناتے، مسکراتے ہوئے عدالتوں سے رخصت ہوتے ہیں اور ننگی تلواروں کی طرح دندناتے پھرتے ہیں۔

ایک بار… فقط ایک بار، اگرکوئی عدالت، ایسے کسی ایک مجرم کو ایسی سزا دے کہ جو واقعی نشان عبرت ہو تو ایک جیسے واقعات کا ارتکاب ہونا بالکل بند نہ سہی، کچھ عرصے کے لیے ضرور موقوف ہو جائے گا۔ کسی قاتل کو سزا ملتی ہے نہ کسی زانی کو…جو معصوم بچیوں کی معصومیت کے قاتل ہوتے ہیں۔ ماں باپ تڑپتے اور بلکتے رہ جاتے ہیں، پیسہ اور طاقت اس ملک میں سب سے بڑے قانون ہیں… باقی سب کچھ اس کے مطیع ہے۔

جس کی لاٹھی اسی کی بھینس… یہ ہمارے ملک کے قانون کی بالکل واضح تشریح ہے۔ انتظامیہ، مقننہ اور انصاف فراہم کرنے والے ادارے… کون ہے جس کاکام نظر آ رہا ہے!!! کون ہے جسے کوئی اختیار ہے؟ کوئی نہیں کیونکہ یہاں ہر آنے والا اپنے count down  کا گوشوارہ ہاتھ میں تھامے ہوئے آتا ہے اور  بانسری بجا کر اپنا وقت پوراکرتا اور  ڈگڈگی بجاتا ہوا چلا جاتا ہے… ہم سارے بندروں کی طرح … مگر تماشہ کرنے کی سکت بھی نہیں کہ خود تماشہ بنے ہوئے ہیں۔

ایک ماں کے ہاتھوں اپنے ہی بچوں کے بہیمانہ قتل کی خبر اتنے مسالے لگا کر اور اتنی مسلسل دکھائی جاتی ہے کہ کئی اور کو شہ ملتی ہے اور ایک کے بعد دوسرا … اور ایک ہی نوعیت کے واقعات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ کسی ایک مجرم کو پھانسی کے تختے پر لٹکائیں، موت کا خوف کئی مجرموں کو جرم چھوڑنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ایک بچی کی عزت لٹتی ہے تو ’’ خبر ‘‘  بن جاتی ہے، کئی دن تک کے لیے اور اس دوران اسی نوعیت کے کئی واقعات اوپر تلے ہو جاتے ہیں۔ اخلاقی پستی کا شکار ہو کر ہم جانوروں سے بھی گئے گزرے ہو گئے ہیں، ان میں حیوانیت ہے، بھوک ہے، طلب ہے، ہوس ہے، لالچ ہے… مگر یقین کریں، ان کی ہر ہر گھٹیا جبلت میں بھی قوائد اور اصول ہیں…

کیا خوب کسی نے خواہش کی تھی کہ … میرے ملک میں جنگل کا ہی کوئی قانون !!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔