اجتماعی دانش کا فقدان

محمد سعید آرائیں  جمعرات 24 نومبر 2022
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

ممتاز عالم دین مولانا طارق جمیل نے ایک انٹرویو میں کہا کہ کیا چوہدری اعتزاز احسن اور ایک عام آدمی کا ووٹ برابر ہو سکتا ہے؟ مگر نہیں ہو سکتا۔

مگر پاکستان میں ایسا ہے اور ایک ان پڑھ یا عام آدمی کے ووٹ کی بھی وہی اہمیت ہے جو ایک نہایت تعلیم یافتہ اور سوجھ بوجھ رکھنے والے شخص کے ووٹ کی ہے۔ اس لیے جمہوری نظام کا ملک میں یہی حال ہے اور ووٹ کا کوئی معیار نہیں ہے اور ہر خاص و عام کے ڈالے گئے ووٹ میں یکسانیت ہے کوئی فرق نہیں ہے۔

ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں ایک تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ جب ایک جھوٹ اتنی شدت سے بولا جائے کہ وہ سچ لگنے لگے تو یہ بیانیے کی کامیابی نہیں ہوتی بلکہ وہ قوم میں اجتماعی دانش کی کمی ہے، اسے بیانیے کی کامیابی مت کہیں کہ جب کوئی شخص کسی کی کم علمی یا جہالت سے فائدہ اٹھا رہا ہو۔

بیانیے کی کامیابی تو یہ ہے کہ اس سے قوم اور ملک کو فائدہ ہو جو بیانیہ کسی انسان کی ذات کے گرد ہو اسے کیسے بیانیے کی کامیابی کہا جاسکتا ہے۔ ایکسپریس کے ایک اور تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ عمران خان نے 22 سالوں میں نوجوان نسل کی نفسیات کو سمجھا ہے اور انھیں ساتھ لے کر چل رہے ہیں اب دیکھ لیں کہ لاہور مسلم لیگ (ن) کا گڑھ سمجھا جاتا تھا وہاں سے کتنے لوگ عمران خان کے ساتھ چل پڑے ہیں۔

پاکستان میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ہر حکومت میں حکومتی امیدواروں کو ضمنی انتخابات میں شکست ہوتی آئی ہے جس کا ثبوت عمران خان ہی کی حکومت میں چھوڑی ہوئی لاہور اور پشاور کی نشستوں پر پی ٹی آئی کے امیدواروں کی ناکامی تھی جب کہ کراچی کی نشست پر پی ٹی آئی کا امیدوار جیت گیا تھا۔ ہارنے والی عمران خان کی نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں پنجاب اور کے پی میں پی ٹی آئی کی اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور تینوں نشستوں پر حکومتی امیدوار ہار گئے تھے۔

عمران حکومت میں میئر اسلام آباد کی نشست پر مسلم لیگ (ن) کا میئر منتخب ہوا تھا پی ٹی آئی کی حکومت میں پنجاب ، کے پی اور سندھ میں پی ٹی آئی امیدوار اکثر ہارے تھے اور نوشہرہ کی سیٹ (ن) لیگ نے جیت لی تھی اور پنجاب میں صرف ایک صوبائی نشست پی ٹی آئی جیت پائی تھی اور باقی 13 نشستوں پر اپوزیشن کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔

کراچی میں فیصل واؤڈا کی نشست پی ٹی آئی نے اپنی حکومت میں ہاری تھی اور اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد کراچی کی دونوں قومی نشستیں پی ٹی آئی نے جیت لی تھیں۔ حالیہ ضمنی انتخاب میں ملتان میں شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی اپنی پنجاب میں حکومت میں ہار گئی تھی جب کہ جولائی میں پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں پی ٹی آئی 15 نشستوں پر جیتی اور 5 پر ہاری تھی۔

پاکستان میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ عمران خان نے پی ٹی آئی کی سات نشستوں پر الیکشن لڑ کر کامیابی حاصل کی جب کہ وہ اپنی میانوالی کی آبائی نشست سے مستعفی ہو چکے تھے۔

ساتوں حلقوں کے ووٹروں کو پتا تھا کہ عمران خان کو دیے گئے ان کے ووٹ ضایع جائیں گے اور وہ سات نشستوں پر حلف نہیں اٹھا سکتے بلکہ وہ سات ماہ سے قومی اسمبلی سے باہر ہیں اور وہ قانونی طور صرف ایک ہی نشست رکھ سکتے ہیں مگر ووٹروں نے انھیں ووٹ دیے تو کیا ان فیصلوں کو دانش مندی کہا جاسکتا ہے جس کا مکمل علم رکھتے ہوئے بھی انھوں نے جان بوجھ کر عمران خان کو ووٹ دیے جو ضایع ہوگئے مگر الیکشن اخراجات پر قومی خزانہ اور دیگر امیدواروں کو ایک ارب روپے سے زائد کا مالی نقصان ہوگیا اور دوبارہ ان نشستوں پر الیکشن ہوگا اور قوم کے ٹیکسوں کے مزید کروڑوں روپے ان پر ضایع ہو جائیں گے۔ کیا یہ ووٹ کا احترام اور دانش مندی تھی کہ قرضوں میں جکڑے ملک پر مزید مالی بوجھ بڑھا دیا جائے۔

اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد سات ماہ سے نئے انتخابات کا مطالبہ کرنے والے عمران خان نے نئے انتخابات کے انعقاد سے مایوس ہونے کے بعد کہا ہے کہ مجھے سال بعد بھی الیکشن سے مسئلہ نہیں ہے۔

سیاسی دانش سے عاری لوگوں کو بھی ملک میں جاری یہ سیاسی تماشا پسند ہے انھیں بے بنیاد سیاسی بیانیوں سے دلچسپی ہے ۔ عمران خان سمجھتے ہیں کہ وہ حکومت میں رہے ہی نہیں ہیں اور پہلی بار اقتدار حاصل کرنے کے لیے اس بار وہ بالا تروں کی بجائے نئے نئے بیانیوں سے نوجوانوں اور اپنے حامیوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں جو عمران خان سے یہ پوچھنا ہی نہیں چاہتے کہ آپ نے پونے چار سال اقتدار میں کون سے وعدے پورے کیے اور کون سی بہترین کارکردگی دکھائی تھی کہ آپ کو دوبارہ اقتدار میں لایا جائے۔ سابق وزیر اعظم اپنی کارکردگی کا کوئی ذکر نہیں کرتے ان کا زور اب بھی سیاسی مخالفین کو چور ڈاکو قرار دینے میں ہے جن کو وہ اپنے اقتدار میں سزا نہ دلا سکے تھے۔

کرپشن کو برا اور سابقہ حکمرانوں کو کرپٹ سمجھنے والوں کو ملک کی فکر اور کرپشن سے نفرت ہے تو وہ ایمانداری اور بے داغ ہونے کے دعوے دار امیدواروں کو ووٹ کیوں نہیں دیتے اور سرکاری ہیلی کاپٹر پر سفر کے عادی عمران خان کی بجائے سادہ زندگی گزارنے اور ذاتی سائیکل پر وزیر ہوتے ہوئے سفر کرنے والے سراج الحق کے بیانیوں پر یقین نہیں کرتے اور ایک بار ہی انھیں کیوں نہیں آزماتے کیونکہ باقی سب کو تو آزمایا جاچکا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔