جذباتی ذہانت کیا ہے؟

 جمعرات 24 نومبر 2022
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

 ڈاکٹر ثاقب انوار صدیقی

انسان کے اندر ذہانت ایک فطری عمل ہے جس کا انحصار اس کی دماغی صلاحیت پر ہے۔ ذہانت کی کئی اقسام کی نشان دہی ہوچکی ہیں اور ان پر تحقیق کی جاچکی ہے۔

ان اقسام میں اعدادی یا نمبریاتی ذہانت، معاشرتی یا سماجی ذہانت، تجریدی ذہانت، مکینکل یا مشینی الات/ ٹولز کی ذہانت وغیرہ شامل ہیں۔ ذہانت کی تعریف کئی انداز میں کی گئی ہے جیسے تجرید کی صلاحیت، منطق، تفہیم، خود آگاہی، سیکھنے، جذباتی علم، استدلال، منصوبہ بندی، تخلیقی صلاحیت، تنقیدی سوچ، اور مسئلہ حل کرنے وغیرہ۔

تحقیق کے مطابق ذہانت کا تعلق انسانی دماغ سے ہے کیونکہ سوچنے کا عمل صرف دماغ میں ہوتا ہے۔ دماغ انسانی جسم کے سب سے بڑے لیکن پیچیدہ اعضاء میں سے ایک ہے۔

انسانی دماغ اللہ کی ایسی حتمی تخلیق ہے جس پر جتنی زیادہ تحقیق کی جائے کم ہے جبکہ سوچ دماغ میں جاری عمل ہے جو انسانوں کو دنیا میں اہم چیزوں کا احساس دلانے، ان کی نمائندگی کرنے اور ان کی تشریح کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ ذہنی سرگرمیوں میں سوچنے، یادداشت، جذبات، چھونے، بصارت، سانس لینے، درجہ حرارت، بھوک اور ہر اس عمل کو کنٹرول کرنا شامل ہے جو ہمارے جسم کو منظم کرتا ہے۔

دماغ اور ریڑھ کی ہڈی، جو اس سے پھیلتی ہے انسان کا مرکزی اعصابی نظام بناتی ہے۔ دماغ پورے جسم میں کیمیائی اور برقی سگنل بھیجتا اور وصول کرتا ہے۔ مختلف سگنل مختلف اعمال کو کنٹرول کرتے ہیں، ہمارادماغ ہر ایک کی ترجمانی کرتا ہے۔ مثلاً بعض ہمیں تھکاوٹ کا احساس دلاتے ہیں، جبکہ بعض درد کا ۔ بعض پیغامات دماغ کے اندر رکھے جاتے ہیں، جبکہ دیگر ریڑھ کی ہڈی کے ذریعے اور جسم کے اعصاب کے وسیع نیٹ ورک کے ذریعے درد کی انتہا تک پہنچ جاتے ہیں۔ ایسا کرنے کے لیے مرکزی اعصابی نظام اربوں نیوران (عصبی خلیات) پر انحصار کرتا ہے۔

آج، ذہانت کو ’ موافقت‘ کے تناظر میںدیکھا جاتا ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں، ایک شخص جتنا بہتر اپنے ماحول میں ڈھلنے کے قابل ہوتا ہے (یعنی کامیاب ہوتا ہے ) ، اتنا ہی زیادہ ’ ذہین‘ ہوتا ہے۔ ماہر نفسیات رابرٹ سٹرنبرگ نے ذہانت کی تعریف ’ ذہنی سرگرمی کے طور پر کی ہے جو کسی کی زندگی سے متعلق حقیقی دنیا کے ماحول کو بامقصد موافقت ، انتخاب اور تشکیل کی طرف لے جاتی ہے۔

سٹرنبرگ کا نظریہ ، ذہانت کی تین اقسام کی نشان دہی کرتا ہے: عملی، تخلیقی اور تجزیاتی۔ اس طرح ہم ذہانت کو ماحول سے ہم آہنگ کرنے کی صلاحیت ، مختلف اشیاء اور طریقوں کے درمیان تعلق کو سمجھنے کی صلاحیت ، مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت، آزادانہ طور پر سوچنے کی صلاحیت، کم از کم وقت میں زیادہ سے زیادہ سیکھنے کی صلاحیت ، اس سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت اور اپنے تجربے سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت کے طور پر دیکھتے ہیں۔

دوسری طرف جذبات کا تعلق انسانی دل سے منسلک کیاجاتا ہے لیکن میڈیکل سائنس اور ماہر نفسیات، جذبات کو دماغ کی سرگرمی سے جوڑتے ہیں۔کیونکہ انسانی دماغ مختلف حصوں کا مرکب ہے، جو مختلف حالات اور منظرناموں میں مختلف طریقے سے کام کرتا ہے۔ وسیع تر تناظر میں انسانی دماغ کو تین اہم حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے یعنی سیریبرم (Cerebrum) ، سیریبیلم (Cerebellum) اور برین اسٹیم (Brainstem)۔ سیریبرم (دماغ کا سامنے والا حصہ) جسے سیریبرل کورٹیکس (cerebral cortex) کہا جاتا ہے۔ یہ سرمئی مادے اور اس کے مرکز میں سفید مادے پر مشتمل ہوتا ہے۔

دماغ کا یہ سب سے بڑا حصہ جسم میں حرکت اور ہم آہنگی پیدا کرتا ہے اور جسم میں درجہ حرارت کو ریگولیٹ کرتا ہے۔ اس کے دیگر حصے بات کرنے، بولنے، فیصلہ کرنے، بصارت، سماعت، سوچ اور استدلال، مسئلہ حل کرنے، جذبات اور سیکھنے کے قابل بناتے اور ان سے متعلق ، دیگر حواس و افعال پر کام کرتے ہیں۔ دماغ کے اسی حصے میں (دائیں اور بائیں ) بادام کی شکل کے دو عدد نیوکلئیس کے جھرمٹ موجود ہوتے ہیں جنہیں امیگڈالا (Amygdala) کہا جاتا ہے۔

امیگڈالا کو عمومی طور پر اعصابی نظام کا مرکز تصور کیاجاتا ہے جو ہمارے غصے، خوف اور اداسی جیسے جذبات کے ادراک کے ساتھ جارحیت پر قابو پانے کے لیے بھی ذمہ دار ہے۔ امیگڈالا واقعات اور جذبات کی یادوں کو ذخیرہ کرنے میں مدد کرتا ہے تاکہ ایک فرد مستقبل میں اسی طرح کے واقعات کو پہچاننے کے قابل ہو سکے۔

اس طرح امیگڈالا اور پریفرنٹل کورٹیکس دونوں جذباتی نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔ اس کے برعکس یونانی فلسفیوں نے کم و بیش اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ دل ہمارے مضبوط ترین جذبات بشمول محبت سے جڑا ہوا ہے۔ افلاطون نے محبت اور منفی جذبات ، مثلاً خوف ، غم ، غصے اور درد میں دل کے غالب کردار کے لیے دلیل دی ۔ یونانی فلسفیوںاورحکمت کے ماہرین نے زیادہ تر جسمانی بیماریوں کوقلب کی کمزوری یا مضبوطی کے ساتھ منسلک کیا ہے۔

عام طور پر بھی مفروضہ ’ دل سے سوچو‘ ، ’ دل سے کام کرو‘ کئی بار سنا جاتا ہے حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ دل نہیں سوچتا اور نہ ہی دل جسم کو کنٹرول کرتا ہے بلکہ سوچنے کاعمل اورجسم کو ہدایات دینا صرف دماغ کا ہی کام ہے تاہم حال ہی میں انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ میتھ کے محققین نے تجویز پیش کی ہے کہ’’ دل اور دماغ ایک متحرک دو طرفہ مکالمے میں کام کرتے ہیں، جس میں ہر عضو دوسرے کے کام کو مسلسل متاثر کرتا ہے۔‘‘ حیرت انگیز طور پر، ایسا لگتا ہے کہ دل جسمانی طور پر بدیہی معلومات کو پروسیس کرنے اور اسے لوگوں تک پہنچانے میں ملوث ہے۔

اس کے علاوہ ڈاکٹر آرمر کی تحقیق کے مطابق دل انسانی جسم میں برقی مقناطیسی توانائی کا سب سے طاقت ور جنریٹرہے جو جسم کے کسی بھی اعضاء کا سب سے بڑا دھڑکن یا نبض پرمبنی برقی مقناطیسی فیلڈ پیدا کرتا ہے۔ دل کا برقی نظام دماغ کی طرف سے پیدا ہونے والی برقی سرگرمی کے مقابلے میں طول و عرض میں تقریباً 60 گنا زیادہ ہے۔

موجودہ دور میں جذباتی ذہانت (emotional intelligence) کی اصطلاح کو امریکی ماہر نفسیات جان مائر (John Mayer) اور پیٹر سولوی (Peter Salavoy ) نے 1990 میں متعارف کرایا لیکن اس کی مقبولیت اوراہمیت کو اجاگر کرنے کا سہراڈینیل گولمین ( Daniel Goleman ) کے سر پر جاتا ہے جس نے1996ء میں اپنی کتاب کے ذریعے اصطلاح کو مقبول بنایا ۔گویا تقریباً پچھلی تین دہائیوں سے جذباتی ذہانت پر تحقیق اہمیت کی حامل ہے۔

جذباتی ذہانت دنیا بھر میں وسیع اور بڑھتی ہوئی دلچسپی کا موضوع بن گیا ہے کیونکہ یہ تعلقات استوار کرنے، لوگوں کے تناؤ کو کم کرنے، تنازعات کو کم کرنے اور ملازمت کی اطمینان کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ مزید برآں جذباتی ذہانت کا عنصر بچوں کو اسکول میں کامیاب ہونے اور کام کی جگہوں پر اور آپ کے کیریئر اور ذاتی اہداف کو حاصل کرنے میں مدد کرتا ہے۔ یہ آپ کو اپنے احساسات سے جڑنے، ارادے کو عمل میں بدلنے اور آپ کے لیے سب سے زیادہ اہمیت کے حامل فیصلے کرنے میں بھی مدد کر سکتا ہے۔ آج جذباتی چیلنجز وسیع ہیں۔

ورلڈ اکنامک فورم فیوچر آف ورک رپورٹ، 8 جذباتی ذہانت کی مہارتوں کی نشاندہی کرتی ہے جو 2025 کے لیے ٹاپ 10 سکلز کی فہرست میں شامل ہیں۔ وبائی امراض کے سائے میں ، جذباتی ذہانت کی اہمیت اس سے بھی زیادہ اہم ہوسکتی ہے۔ جذباتی ذہانت ایک ٹول باکس ہے جو ہر شخص کو آگے آنے والے چیلنجز سے گزرنے میں مدد کرتا ہے۔

جذباتی ذہانت کا مطلب اپنے جذبات سے آگاہی یا اپنے جذبات کے ساتھ ہوشیار ہونا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، درست طریقے سے جذباتی ڈیٹا اکٹھا کرنا اور اسے مؤثر طریقے سے استعمال کرنا۔جذباتی ذہانت انسان کی وہ خصوصیت یا قابلیت کہلاتی ہے جس کی بدولت وہ خود کو جاننے میں مہارت حاصل کرتا ہے۔ جس طرح علمی ذہانت کو اکثر “IQ” کہا جاتا ہے ، اسی طرح جذباتی ذہانت کو “EQ” کہا جاتا ہے۔

گولمین ( مشہور سماجی سائنسدان) نے کہا کہ جذباتی ذہانت کی قابلیت روایتی “IQ” نہیں ہے بلکہ سیکھی ہوئی صلاحیتیں ہیں ، جن پر شاندار کارکردگی حاصل کرنے کے لیے کام کیا جا سکتا ہے۔

تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ انسان میں جذباتی ذہانت (EQ) زندگی میں کامیابی کے لیے علمی ذہانت (IQ) سے زیادہ اہم ہے۔ جذباتی ذہانت کے اسکورز کامیابی کے اہم عوامل کی پیش گوئی کرتے ہیں جن میں تاثیر، تعلقات ، صحت اور زندگی کا معیار شامل ہے۔ جو لوگ جذباتی ذہانت پر اوسط سے زیادہ اسکور کرتے ہیں ، ان میںکامیابی کے عوامل ہونے کا امکان 10 گنا زیادہ ہوتا ہے۔ جذباتی ذہانت تناؤ، دماغی بیماری اور تنہائی کو کم کرنے میں مدد کرتی ہے۔

دور حاضر کی پیچیدہ پریشانیوں کے پیشِ نظر جذباتی ذہانت کی خوبیوں کو اسکول، کالج ، یونیورسٹیوں اور سرکاری اداروں میں حکومتی سطح پر اجاگر کرنے اور اسے ہر درجے پر بطور مضمون پڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ حکومتی سطح پر معاشرتی جانکاری اور بنیادی حقوق کے معاملات کی معلومات کی ترسیل کو یقینی بنانے کی بھی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔