آرزو فاطمہ کا والدین کے پاس جانے کا فیصلہ، عدالت نے کیس ختم کردیا

کورٹ رپورٹر  جمعرات 24 نومبر 2022
13 سالہ مسیحی لڑکی آروز فاطمہ نے اسلام قبول کرکے 44 سالہ علی اظہر سے شادی کرلی تھی (فوٹو فائل)

13 سالہ مسیحی لڑکی آروز فاطمہ نے اسلام قبول کرکے 44 سالہ علی اظہر سے شادی کرلی تھی (فوٹو فائل)

 کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے پسند کی شادی کرنے والی آرزو فاطمہ کے والدین کے پاس جانے سے متعلق بیان کے بعد کیس ختم کردیا۔

جسٹس کے کے آغا کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ کے روبرو سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2013ء کی خلاف ورزی سے متعلق آرزو فاطمہ کے والدین کی درخواست پر سماعت ہوئی، جس میں  کم عمر لڑکی آرزو فاطمہ عدالت میں پیش ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: آرزو فاطمہ والدین کے پاس جانا چاہتی ہے تو درخواست دائر کرے، سندھ ہائیکورٹ

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا بچی والدین کے ساتھ خوش ہے؟ جس پر آرزو فاطمہ نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ جی والدین کے ساتھ خوش ہوں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کسی کا دباؤ یا خوف تو نہیں ہے؟ آرزو فاطمہ نے کہا کہ نہیں مجھے کسی قسم کا خوف نہیں ہے، والدین کے پاس رہنا چاہتی ہوں۔

عدالت نے آرزو فاطمہ کے بیان کے بعد والدین کی زیر سماعت درخواست نمٹادی۔

مزید پڑھیں: نو مسلم آرزو فاطمہ نے والدین کے گھر جانے کی استدعا کردی

واضح رہے کہ 13 سالہ مسیحی لڑکی آروز فاطمہ نے اسلام قبول کرکے 44 سالہ علی اظہر سے شادی کرلی تھی۔ والدین نے بچی گمشدگی کیخلاف سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا۔ عدالت کے حکم پر بچی کو بازیاب کراکر عدالت میں پیش کیا گیا۔ میڈیکل رپورٹ میں آرزو کم عمر ثابت ہوگئی تھی، جس پر  سندھ ہائیکورٹ نے کم عمری کی شادی کرنے والی آرزو فاطمہ کو دارالامان بھیج دیا تھا۔

دسمبر 2021ء میں عدالت نے آرزو فاطمہ کو 18 سال کی عمر تک والدین کے ساتھ رہنے کی اجازات دی تھی۔ سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ میرج ایکٹ 2013ء کے تحت 18 سال سے کم عمر لڑکی یا لڑکا شادی نہیں کر سکتے۔ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کی سزا 2 سال اور ایک لاکھ  جرمانہ ہے جب کہ خلاف ورزی میں معاونت کرنے والوں کو بھی 2 سال کی سزا ہوسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔