عدل و انصاف

مولانا حافظ عبدالرحمن سلفی  جمعـء 25 نومبر 2022
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

’’اے ایمان والو! اﷲ کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہوجایا کرو اور لوگوں کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔ انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیز گاری کی بات ہے اور اﷲ سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ اﷲ تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہے۔‘‘ (سورۃ المائدہ)

فرمان باری تعالی کا مفہوم: ’’اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو۔ اﷲ تمہیں بہت خوب نصیحت کرتا ہے۔ بے شک! اﷲ سنتا (اور) دیکھتا ہے۔‘‘ (النسائ) عدل کے معنی حق دار کو اس کا پورا حق ادا کر دینا ہے۔ اسلام میں عدل و انصاف پر بہت زور دیا گیا ہے چوں کہ یہ وہ وصف ہے جسے اپنانے والی اقوام سربلندی و سرفرازی سے ہم کنار ہوتی ہیں اور جن معاشروں میں اس گوہر گراں مایہ سے محرومی پائی جاتی ہے وہ رُو بہ زوال ہو کر تباہی و بربادی سے دوچار ہوجاتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں عدل و انصاف کے قیام پر بے انتہا زور دیا گیا ہے۔ بہ حیثیت مسلمان ہم پر لازم ہے کہ ہم اﷲ رب العالمین کے احکامات اور رحمۃ للعالمین ﷺ کے ارشادات عالیہ پر کماحقہ عمل پیرا ہوں اور جب اﷲ اور اس کا رسول ﷺ کسی بات میں فیصلہ کر دیں تو انہیں بے چوں و چرا تسلیم کرلیں اور انہی احکامات کی روشنی میں اپنے معاشرے میں صحیح معنوں میں عدل و انصاف کو جاری کریں۔

مالک کائنات نے اہل ایمان کو تاکیداً فرمایا کہ جب بھی لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے لگو تو عدل و انصاف سے فیصلہ کیا کرو یعنی اگر کوئی حکم راں ہے یا منصب قضا پر فائز ہے یا پنچایت کا سربراہ‘ اسی طرح برادری کا بڑا ہو علیٰ ہذالقیاس کوئی بھی شخص کسی بھی لحاظ سے انصاف کرنے کی پوزیشن میں ہو تو اسے چاہیے کہ وہ فریقین کے دلائل‘ حالات و واقعات اور شہادتوں یا اقرار کی صورت میں ٹھیک ٹھیک عدل کرے اور مظلوم کو اس کا پورا حق دلائے اور ظالم و غاصب کے خلاف قرآن و سنت کی روشنی میں تادیبی کارروائی کرے۔

یہاں یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ محض حق دار کو اس کا حق دلا دینا ہی کافی نہیں بل کہ اس حق کو غصب یا پامال کرنے والے ظالم کو کیفر کردار تک پہنچانا بھی لازم ہے تاکہ عدل کے تمام تقاضے پورے ہوسکیں۔ اسی طرح اس آیت مبارکہ میں آگے فرمایا کہ دیکھو یہ معاملہ اﷲ کے نزدیک اس قدر حساس ہے کہ اس بارے میں تمہارا مالک تمہیں خوب نصیحت کرتا ہے تاکہ تمہارے دلوں میں اس حکم کی عظمت راسخ ہوجائے۔

نیز فرمایا کہ بے شک اﷲ سنتا اور دیکھتا ہے یعنی یہ نہ سمجھنا کہ تم اس دھرتی پر جو کچھ کرتے ہو اﷲ کو اس کی خبر نہیں۔ ایسی بات ہرگز نہیں بل کہ وہ تو سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے۔ تم سرگوشی کرو یا دل و دماغ میں کوئی بات سوچو اﷲ تعالیٰ تمہارے دلوں کی بات بھی سنتا ہے اور جو کچھ ظاہری یا درپردہ اعمال کرتے ہو انہیں بھی اچھی طرح دیکھ رہا ہے۔

اس آیت مبارکہ میں اﷲ نے اپنی ان صفات کا تذکرہ کیوں فرمایا ؟ ایسا اس لیے ارشاد فرمایا کہ منصفین کے دلوں میں اﷲ کی خشیت پیدا ہو اور وہ یہ جان رکھیں کہ اگر جان بوجھ کر یا کسی اور وجہ سے ہم غلط فیصلے کریں گے تو اﷲ ہم پر نگاہ رکھے ہوئے ہے اس سے ہمارا کوئی عمل مخفی نہیں ہے۔

درحقیقت عدل و انصاف ایسا عالی وصف ہے جو کسی بھی قوم یا معاشرے کو استحکام عطا کرتا اور بقا کی ضمانت فراہم کرتا ہے اور انصاف بھی ایسا ہو جو سب کے لیے یکساں ہو۔ یہ عدل نہیں کہ اگر کوئی امیر آدمی جرم کرے تو اسے چھوڑ دیا جائے جب کہ غریبوں کو سخت ترین سزائیں دی جائیں جیسا کہ ہمارے معاشرے میں دکھائی دیتا ہے اور یوں کہا جاتا ہے کہ قانون بنایا ہی اس لیے جاتا ہے تاکہ توڑا جائے اور بدقسمتی سے سب سے زیادہ قانون شکنی کچھ وہی لوگ کرتے ہیں جو اسمبلیوں میں قوانین پاس کرتے ہیں۔

حالاں کہ اسلامی معاشرے میں ایک عام آدمی سے لے کر امیر تک سب احکامات شرعیہ کے پابند ہوتے ہیں ‘ جرم کوئی بھی کرے اسے اس کی سزا مل کر ہی رہنی چاہیے۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے کہ قریش کی ایک شاخ بنو مخزوم کی ایک معزز عورت فاطمہ بنت اسود نے چوری کی اور قریش کے لوگوں نے چاہا کہ یہ عورت چوں کہ معزز خاندان سے تعلق رکھتی ہے اس لیے اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے۔ چوں کہ اس میں ہماری قوم کی ہمیشہ کے لیے بدنامی و رسوائی ہے لہٰذا انہوں نے سیدنا اسامہ بن زیدؓ کو سفارشی بنایا جو کہ رحمت عالم ﷺ کے متبنیٰ سیدنا زید بن حارثہؓ کے فرزند ارجمند تھے اور امام کائنات ﷺ انہیں بہت عزیز رکھتے تھے۔

اہل قریش کا خیال تھا کہ نبی کریم ﷺ اسامہ ؓ کی سفارش رد نہیں فرمائیں گے اور اس عورت کا جرم معاف فرما دیں گے۔ قریش کے اصرار پر جب سیدنا اسامہ بن زید ؓ خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے اور قریش کا مدعا بیان کیا تو ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ روایت فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے (اسامہ ؓ سے) فرمایا: کیا تُو اﷲ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدوں میں سے ایک کے لیے سفارش کرتا ہے۔‘‘ پھر آپ ﷺ کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا جس میں فرمایا: ’’اے لوگو! تم سے پہلے لوگوں کو اسی بات نے ہلاک کیا کہ ان میں سے جب کوئی عزت والا چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی کم حیثیت والا چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے۔‘‘ ( متفق علیہ) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر فاطمہ بنت اسد کی جگہ آج فاطمہ بنت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم بھی اس جرم میں گرفتار ہوتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘ (بخاری و مسلم)

امام کائنات ﷺ نے دنیا کے سامنے عدل و انصاف کی وہ روشن مثال قائم فرمائی جو رہتی دنیا تک کے لیے مشعل راہ ہے۔ یقیناً عدل و انصاف کا تقاضا ہے کہ حق دار کو پورا حق ادا کر دیا جائے اور ظالم کو اس کے جرم کی صحیح سزا ملے تاکہ مظلوم کے جذبۂ انتقام کو بہ ذریعہ قانون تسلی و تشفی ہو، وگرنہ معاشرے میں جرم در جرم ہوتے رہیں گے اور لوگ انصاف نہ ملنے پر قانون خود اپنے ہاتھوں میں لے لیں گے۔ اسلام مکمل عدل کی ہدایت کرتا ہے اور ظلم سے روکتا ہے ۔ مجرم کو بس اسی قدر سزا دی جاسکتی ہے جو اس نے جرم کیا ہے۔

اس سے زاید سزا ظلم کے زمرے میں آئے گی جس کی اسلام ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ جیسا کہ خالق کائنات نے اپنی آخری کتاب ہدایت میں عدل و انصاف کے بارے میں فرمایا، مفہوم: ’’اے ایمان والو! اﷲ کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جایا کرو اور لوگوں کی دشمنی تمہیں ا س بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔ انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیز گاری کی بات ہے اور اﷲ سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ اﷲ تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہے۔‘‘ (سورۃ المائدہ) ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’اور جب (کسی کی نسبت) کوئی بات کہو تو انصاف سے کہو گو وہ (تمہارا) رشتے دار ہی ہو اور اﷲ کے عہد کو پورا کرو۔‘‘ (سورۃ الانعام)

ان آیات مبارکہ سے عدل و انصاف کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ یہ عمل کس قدر حساس اور لازمی ہے کہ اس کے تقاضوں کو اﷲ کے ڈر خوف کے ساتھ انجام دیا جائے اور اگر عدل کرتے ہوئے اپنا قریب ترین عزیز رشتے دار بھی اس کی زد میں آ رہا ہو تو رشتوں کی پروا کیے بغیر عدل کے تقاضوں کو پورا کیا جائے اور ہر طرح کے تعلق‘ سفارش یا رشوت وغیرہ جیسی لعنتوں کو پائے استحقار سے ٹھکرادیا جائے تاکہ منصف بارگاہ ایزدی میں سرخ رُو ہو اور مظلوم کی داد رسی ہو اور مقتدر صاحب ثروت یا اقتدار اور دولت کے نشے میں چُور لوگوں کی حوصلہ شکنی ہو اور وہ ظلم و تعدی سے باز رہیں اور ایسا تبھی ہو سکتا ہے جب بے لاگ انصاف ہو ‘ جو آج ہمارے معاشرے میں مفقود ہے جس کی وجہ سے ذلت و رسوائی ہمارا مقدر بنی ہوئی ہے‘ اور ہم قوموں کی برادری میں بے وزن ہو کر رہ گئے ہیں۔ عدل کرنے کو اﷲ تعالیٰ محبوب رکھتا ہے: ’’اور انصاف کرو بے شک اﷲ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘ (سورۃ الحجرات)

گویا عدل کرنا حب الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے۔ بنا بریں ایک مسلمان قول و فعل اور فیصلہ کرنے میں انصاف کو تلاش کرتا ہے۔ یہ اس کی طبعی صفت ہوتی ہے جو کسی صورت اس سے جدا نہیں ہو سکتی۔ اس کا شیوہ ہوتا ہے کہ وہ جو بات کہتا اور جو کام کرتا ہے عدل و انصاف پر مبنی ہوتا ہے۔ حقیقی مسلمان کسی پر ظلم و زیادتی سے بہت دور رہتا ہے ۔ اس کی انصاف پسندی کو ہوائے نفس اور دنیاوی کوئی خواہش و شہوت ڈگمگا نہیں سکتی اور انہی صفات کی وجہ سے وہ اﷲ کی محبت، رضا، اعزازات و انعامات کا مستحق قرار پاتا ہے۔

اﷲ تعالیٰ کا ارشاد عالی بیان ہوا کہ وہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور رحمت عالم ﷺ نے اﷲ رب العالمین کے ہاں انصاف کرنے والوں کے اعزاز و اکرام کا پتا دیا ہے۔

مفہوم: ’’انصاف کرنے والے اﷲ کے نزدیک نور کے منبروں پر ہوں گے وہ جو اپنے فیصلوں، اہل و عیال اور جو ان کی حکم رانی میں ہوں‘ میں انصاف کرتے ہیں۔‘‘ (مسلم)

اس سے معلوم ہوا کہ عدل کرنا کس قدر عظمتوں کے حصول کا ذریعہ ہے اور بے انصافی کس قدر ظلم و تعدی اور ہلاکت و بربادی کا ذریعہ ہے۔ جب کہ عادل حکم ران اﷲ کے پسندیدہ ترین لوگوں میں سے ایک ہے۔ امام کائنات ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’سات طرح کے انسانوں کو (قیامت کے دن) اﷲ تعالیٰ اپنے سایے میں جگہ دے گا جب کہ اس کے سایے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا ان میں ایک امام عادل (یعنی انصاف کرنے والا حکم ران یا قاضی ہے)۔‘‘ (صحیح بخاری)

عدل کے بہت سے مظاہر ہیں جن میں ایک حقیقی مسلمان نمایاں ہوتا ہے۔

(1) سب سے پہلے اﷲ تعالیٰ کا حق ہے کہ ا س کے ساتھ عدل کیا جائے یعنی اس کی عبادات و صفات میں کسی کو شریک نہ بنایا جائے۔ اس کا شکر ادا کیا جائے اور کفران و ناشکری سے بچا جائے۔ اس کی اطاعت کی جائے اور نافرمانی سے بچا جائے، اسے یاد رکھا جائے اور کسی حال میں بھی بھلایا نہ جائے۔ بدقسمتی سے انسانیت نے ہمیشہ اس معاملے میں ناانصافی سے کام لیا اور اﷲ کی مخلوقات کو اس کا ساجھی قرار دیا۔

مفہوم: ’’بے شک! شرک سب سے بھاری ظلم ہے۔‘‘ (سورۃ لقمان )

(2) لوگوں کے فیصلے میں انصاف یعنی ہر حق والے کو اس کا پورا حق ملے اور اس کی داد رسی ہو۔: ’’ آپ (ﷺ) کہہ دیجیے کہ میرے رب نے مجھے انصاف کرنے کا حکم دیا ہے۔‘‘

عدل و انصاف لوگوں کے درمیان اس انداز میں کرنا کہ کافر و مسلم کی بھی تمیز روا نہ رکھی جائے اگر کافر حق دار ہے تو اس کو اس کا حق دلایا جائے۔

(3) بیویوں اور اولاد میں انصاف یعنی ان میں برابری کی جائے اور کسی کے ساتھ دوسرے کے مقابلے پر برتری و ایثار کا سلوک روا نہ رکھا جائے۔

(4) بات میں عدل یعنی جھوٹ نہ بولے کذب اور باطل سے پرہیز کرے۔

(5) عقائد و نظریات میں عدل یعنی حق اور سچائی کو تسلیم کیا جائے۔ خلاف حقیقت اور خلاف واقع باتوں کو دل میں جگہ نہ دی جائے۔

(6) فیصلے میں خواہش نفس‘ عصبیت اور دشمنی آڑے نہیں آنی چاہیے۔ عدل کا یہ اتمام جس معاشرے میں ہوگا وہاں امن، سکون اور اﷲ کی طرف سے رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہو گا۔

صحابہ کرامؓ نے اس نکتے کو بھی خوب سمجھ لیا تھا۔ چناں چہ حضرت عبداﷲ بن رواحہؓ کی بابت آتا ہے کہ جب امام کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں خیبر کے یہودیوں کے پاس بھیجا کہ وہ وہاں کے پھلوں اور فصلوں کا تخمینہ لگا کر آئیں۔ یہودیوں نے انہیں رشوت کی پیش کش کی تاکہ وہ کچھ نرمی سے کام لیں۔

انہوں نے فرمایا: ’’اﷲ کی قسم میں اس کی طرف سے نمائندہ بن کر آیا ہوں جو دنیا میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے اور تم میرے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہو لیکن اپنے محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت اور تمہاری دشمنی مجھے اس بات پر آمادہ نہیں کرسکتی کہ میں تمہارے معاملے میں انصاف نہ کروں۔ ‘‘ یہ سن کر ان یہودیوں نے کہا: ’’اسی عدل کی وجہ سے آسمان و زمین کا یہ نظام قائم ہے۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر)

عدل و انصاف کرنے والی اقوام دنیا میں عروج حاصل کرتی ہیں اور ان کے معاشرے میں امن و استحکام پیدا ہوتا ہے۔ اسلامی تاریخ عدل کی بے شمار مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔ خلیفۃ المسلمین سیدنا عمرؓ کے پاس ایک مصری شخص آیا اور کہا: ’’ آپ سے پناہ کی درخواست ہے، فرمایا تمہیں تحفظ حاصل ہے، بتاؤ کیا بات ہے؟ اس نے کہا: میرا عمرو بن عاص ؓ کے بیٹے کے ساتھ گھڑ دوڑ کا مقابلہ ہوا، میں اس مقابلے میں جیت گیا اور وہ مجھے یہ کہتے ہوئے چابک سے مارتا رہا کہ میں معززین کا فرد ہوں۔

عمرو بن عاص ؓ کو پتا چلا تو اس اندیشے سے کہ کہیں میں آپ کے پاس نہ پہنچ جاؤں مجھے گرفتار کرلیا۔ اب میں وہاں سے آزاد ہوکر آپ کی خدمت میں پہنچا ہوں۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے گورنر مصر عمر بن عاص ؓ کو لکھا کہ ایام حج میں آپ اور آپ کے فرزند دونوں مجھے ملیں اور مصری کو کہا کہ تم اس وقت تک یہیں ٹھہرو۔ حج سے فراغت کے بعد عمر بن عاص ؓ اور ان کا بیٹا امیرالمومنین کی خدمت میں حاضر ہوئے۔

مصری بھی آگیا۔ سیدنا عمر بن خطابؓ نے مصری کے ہاتھ میں کوڑا دیا اور لڑکے کو مارنے کا حکم دیا تو اس نے بہت مارا۔ اس دوران امیرالمومنین فرما رہے تھے کہ معززین کے بیٹے کو خوب مارو۔ مصری نے آخر مارنا بند کیا اور کہا: ’’اب مجھے انصاف مل گیا ہے میرا دل خوش ہے۔‘‘ امیرالمومنین نے عمرو بن عاص ؓ سے فرمایا: عمروؓ! تم نے کب سے انسانوں کو غلام بنانا شرو ع کیا ہے؟ جب کہ ان کی ماؤں نے تو ان کو آزاد پیدا کیا ہے۔

فیصلے میں انصاف کے نتائج میں سے ایک یہ ہے کہ نفوس میں اس سے اطمینان و سکون پھیلتا ہے۔ چناں چہ مروی ہے کہ قیصر بادشاہ روم نے سیدنا عمر بن خطابؓ کے پاس اپنا قاصد بھیجا وہ مدینہ میں آیا تو پوچھا: تمہارا بادشاہ کہا ں ہے؟ لوگوں نے کہا ہمارا بادشاہ نہیں ہے بل کہ ہمارا تو امیر ہے اور وہ شہر سے باہر گیا ہوا ہے۔

چناں چہ وہ شخص تلاش میں نکل کھڑا ہوا کیا دیکھتا ہے کہ مسلمانوں کا امیر ریت پر دُرّہ سرہانے رکھے سویا ہوا ہے۔ دُرّہ چھوٹی سے لاٹھی تھی جسے وہ ہر وقت اپنے ساتھ رکھتے اور نہی عن المنکر میں اسے استعمال کرتے تھے۔ قاصد نے دیکھا تو اس کے دل پر رقت طاری ہوگئی اور کہنے لگا: یہ شخص کہ دنیا کے بادشاہ جس سے کانپ رہے ہیں اس اطمینان سے اکیلا سویا ہوا ہے۔ وہ کہنے لگا: اے عمرؓ تم نے انصاف کیا ا س لیے تم سکون اور اطمینان میں ہو اور دنیا کے بادشاہ ظالم ہیں اس لیے وہ خائف ہیں اور ان کی نیندیں اڑ چکی ہیں۔

خرچ میں عدل اس طرح ہے کہ نہ فضول خرچی ہو اور نہ ہی کنجوسی‘ اسراف و بخل کے مابین کی حالت درست ہے۔ لباس میں اعتدال یہ ہے کہ وہ نہ تو فخر و غرور اور تکبر کے لیے ہو اور نہ ہی کھردرا اور بہت پیوند لگا ہوا ہو۔ چال میں اعتدال یہ ہے کہ متکبرانہ نہ ہو اور نہ ہی انتہائی مسکینی اور ذلت کے رنگ میں ہو۔ درحقیقت اعتدال ہر میدان میں افراط و تفریط کے مابین ایک درمیانی حالت ہے۔ عدل، استقامت کی طرح انسان کے لیے بہت بڑی فضیلت اور کردار کی بلندی کی علامت ہے۔

اس کی بہ دولت اس کے حامل کو اﷲ کی حدود پر ٹھہراؤ حاصل ہوتا ہے اور وہ فرائض کی ادائی میں سستی اور کمی سے محفوظ رہتا ہے اور عبادت کے کسی جزو میں افراط کا شکار بھی نہیں ہوتا۔ عدل سے ’’وصف عفت‘‘ کو جلا ملتی ہے جس کے نتیجے میں مسلمان حلال پر اکتفا اور حرام سے اجتناب کرنے کا عادی ہو جاتا ہے۔ اور جب یہ وصف کسی قوم کا مجموعی مزاج بن جائے تو پھر انہیں دنیاوی لحاظ سے بھی عروج حاصل ہوتا اور آخرت کی کام یابی و کام رانی بھی ان کا مقدر بن سکتی ہے۔ اس کے برعکس جن معاشروں میں اﷲ اور اس کے بندوں کے درمیان عدل نہیں ہوتا۔ وہ گم نامی و ذلت کی گہری کھائیوں میں جاگرتی ہیں۔ سیدنا علی ؓ کا فرمان ہے کہ کفر کی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم کی حکومت قائم نہیں رہ سکتی۔

اﷲ رب العالمین کا فرمان عالی شان کا مفہوم: ’’کیا ان لوگوں نے ملک میں سیر نہیں کی (سیر کرتے) تو دیکھ لیتے کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا انجام کیسا ہوا۔

وہ ان سے زور قوت میں کہیں زیادہ تھے اور انہوں نے زمینوں کو جوتا اور اس کو اس سے زیادہ آباد کیا تھا جو انہوں نے آباد کیا اور ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں لے کر آتے رہے تو اﷲ ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا بل کہ وہی اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے۔ پھر جن لوگوں نے برائی کی (یعنی راہ عدل کو چھوڑ کر بے انصافی ) ان کا انجام بھی بُرا ہوا اس لیے کہ اﷲ کی آیتوں کو جھٹلاتے اور ان کی ہنسی اڑاتے تھے۔‘‘ (سورۃ الروم)

اس سے معلوم ہوا کہ عدل کے برخلاف ظلم قوموں کو تباہ برباد کر دیتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ اور اس کے آخری پیغمبر جناب محمد رسول اﷲ ﷺ نے ہر حال میں عدل و انصاف کے احکامات دیے ہیں اور قوموں کی بقا کی ضمانت بھی اسی وصف عالیہ میں مضمر ہے۔

آج ہمارے ہاں عدل و انصاف کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں اور ہر طرف ظلم و تعدی کا بازار گرم ہے۔ اگر ہم اپنی قوم کا استحکام اور بقا چاہتے ہیں تو ہمیں اسلامی نظام عدل پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔ وگرنہ ذلت و رسوائی اور تباہی و بربادی ہمارا مقدر ہوگی۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو عدل و انصاف کی توفیق مرحمت فرمائے تاکہ ہمارا ملک مستحکم و ترقی یافتہ ہو اور ہر طرف امن و اطمینان کی فضا قائم ہو۔ آمین یارب العالمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔