وہ تمہاری راہ تکتے ہیں۔۔۔۔۔۔ !

نازلی فیصل  جمعـء 25 نومبر 2022
سُنیے! سردی سے ٹھٹھرتے سیلاب متاثرین کو مت بھولیے گا ۔ فوٹو : فائل

سُنیے! سردی سے ٹھٹھرتے سیلاب متاثرین کو مت بھولیے گا ۔ فوٹو : فائل

ناگہانی و قدرتی آفتیں بلاشبہ بندوں کی اپنی ہی کرنیوں کا پھل، اپنی ہی غلطیوں، نافرمانیوں اور گناہوں کا وہ وبال ہوتی ہیں جو آناً فاناً بستیوں کو اجاڑ پھینکنے اور صفحہ ہستی سے مٹانے کا سبب بنتی ہیں کورونا کے بعد آسمان سے لگا تار برستا پانی آدھے پاکستان کو سیلاب میں ڈبو گیا اور ہمارے کتنے ہی ہم وطنوں کا سب کچھ بہا کر لے گیا، جہاں سے سیلابی ریلہ گزرا ہنستے، بستے، بھرے پُرے گھر تنکوں کی طرح بہہ گئے۔ ندی نالے اور دریا بپھر کر غصیلے سانپوں کی طرح پھنکارے تو چاروں طرف ان بپھرے پانیوں میں انسانی لاشیں تیرتی نظر آئیں۔ یاد ہے ناں یہ سب آپ کو۔

زندگی کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے جانے کتنے لوگ پانی کی سینہ زوری میں بہہ گئے، احباب، رشتے دار، بہن، بھائی، ایک دوسرے سے بچھڑ گئے، لاکھوں گھر برباد ہوئے، کروڑوں شہری بے گھر ہوئے، خاندانوں کے خاندان تباہ ہوگئے، کسی کے ماں باپ ، کسی کی بیوی بیٹی اور کسی کا معصوم پھول سا بچہ، ان لہروں کی زد میں ایسا آیا کہ پھر نہ ابھر سکا:

کوئی گہرے پانیوں میں ڈوب کر ابھرا نہ تھا

کوئی ساحل پہ کھڑا بس ہاتھ ملتا رہ گیا

پانی کی سرکش و بپھری لہروں نے جو ناقابل بیان تباہی مچائی تھی اسے دیکھنے و سننے کے بعد انسان اپنی بے بسی و بے چارگی و لاچارگی پر کانپ اٹھا کہ وہ کس قدر ذرّہ حقیر ہے اور واقعی منہ زور پانی کے آگے کس کا بس چلتا ہے۔

وہ پانی جو زندگی کی ضمانت ہے، وجہ زندگی ہے، وہی پانی جس کی مدھر تانیں سادہ لوح دیہاتیوں کا سکھ چین تھیں، اسی پانی نے بپھر کر موت کا روپ دھارا تو بستیوں کی بستیوں کو اپنے پاؤں تلے روندتا ہوا، دیہاتیوں کا سکھ چین لُوٹتے ہوئے اپنے پیچھے غم میں ڈوبی ایسی درد ناک داستانیں چھوڑ گیا۔ حالیہ سیلاب پاکستان کی تاریخ کا بدترین سیلاب تھا جس نے بربادی کے ایسے نشان چھوڑے ہیں جس کے اثرات بہت طویل عرصے تک رہیں گے۔

سیلاب نے جو قیامت ہم پر توڑی ہے اس کی تباہ کاریوں کا حال دیکھ کر جس طرح دل دہلا کہ پوری جان سے لرز اٹھا۔ کل تک جو صوبے شاد و آباد تھے آج انہی چاروں صوبوں کے آباد دیہاتوں کے اجاڑ منظر، سڑکیں، راستے، پل سب دریا برد ہوگئے، چاروں طرف اداسی، غم، ویرانی کے پھیلے ہوئے سائے رہ گئے اور سب کچھ پانی میں بہہ گیا۔

آپ کو یاد ہے ناں کہ دور دور تک بندہ نہ بندے کی ذات ، سوائے ان چند ایک اکا دکا دیہاتیوں کے جو گھٹنوں گھٹنوں اور کہیں کندھوں تک پانی میں ڈوبے ہوئے، سروں پر چھابے اور بچے کچے سامان کی گانٹھیں اٹھائے، مٹی میں لتھڑے ہوئے۔

زندگی بچانے کی تگ و دو میں مصروف نظر آئے۔ سرسبز و شاداب علاقے، حد نظر تک پانی میں ڈوبے ہوئے اور انہی پانیوں میں کسی کے کپڑے، کسی کے جوتے، کہیں پانی میں تیرتی ہوئی چارپائیاں اور ٹوٹے ہوئے گھڑے جو خاموشیوں کی زبان میں کرب کی وہ داستانیں سنا رہے تھے جنہوں نے پل بھر میں پُررونق بستیاں اجاڑ دی تھیں، سالوں بعد ایسی تباہی دیکھنے میں آئی، جس نے زندگی کے نام و نشان ہی مٹا ڈالے:

کھیت، گھر، مسجدیں نہ آدم زاد

بستیوں کا ہے اب صرف نشاں باقی

کل جہاں زندگی سرگرم عمل تھی آج وہاں موت کا سناٹا ہے، کل جہاں ٹریکٹروں کا شور اور محنت کشوں و جفاکشوں کے ہل جوتنے کی آوازیں تھیں، خوشیوں و قہقہوں کی جھنکار تھی آج وہی ویرانیوں کا مسکن ہے۔ وہ کھیت کھلیان، وہ لہلہاتی فصلیں جو ہماری سونا اگلتی زمین کا حسن تھیں، بانکپن تھیں اور ہمارے کسانوں کا کل سرمایہ و اثاثہ تھیں۔

سب پانی میں مل کر برباد ہوگئیں، اناج، ذخائر، مال مویشی، باغات غرض ان کی عمر بھر کی پونجی ان لہروں کی نذر ہوگئی۔ سیلاب کی لشکر کشی انہیں مزید غریب و بے آسرا کرگئی، وہ سر و قد بوٹے و پھلوں سے لدے درخت جو کل تک پانی کے دم خم سے کھڑے تھے آج اسی کی زور آور لہروں کے آگے بے بس ہوکر زمین پر ٹوٹے پڑے ہیں:

پانی کا نم تھا جس کے لیے وجہ تازگی

آج جڑ سے اکھڑ گئی وہ شاخ گل فروش

اور اس پر ستم تو دیکھیے کہ ان بھرے پانیوں کے زور سے ٹوٹی ہوئی اور پانی میں ڈوبی ہوئی شاخوں پر پرندے اپنا آشیانہ ڈھونڈتے پھر رہے ہیں، وہیں ان گہرے پانیوں میں جانے کتنے لوگ اپنے گھروں اپنے آشیانوں کے نشان اور اپنوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں وہ گھبرو جوان بیٹے جو ان کا سہارا تھے۔

ان کا بازو تھے جو انہی کی لہروں کی گود میں پل کر جوان ہوئے آج انہیں غضب ناک موجوں میں ایسے گم ہوئے ہیں کہ بوڑھے ماں باپ کو اپنی بینائی کا سراغ ہی نہیں مل رہا، جانے کتنی بہنوں کے ارمان اور سہاگنوں کے سہاگ اس پانی نے ہڑپ کرلیے ہیں۔

اب یہ قیامت خیز لمحے ہم سب کے امتحان اور آزمائش کے ہیں۔ ہم ان کے ڈوبنے والوں کو تو نہ بچا سکے لیکن اس ناگہانی آفت سے بچ جانے والے، ستم رسیدہ افراد کے زخموں پر تو ہم دردی و امداد کا مرہم رکھ سکتے ہیں جو قافلوں کی صورت میں نقل مکانی کرکے آج بے یار و مددگار کھلے آسمان تلے پڑے ہیں، کل تک جو چھت ان کے سر پہ سایہ فگن تھی آج وہ پیوند زمین ہوکر انہیں بے آسرا و بے ٹھکانہ کرگئی ہے، مخلوق خدا کے پاس اس وقت سر چھپانے کو اور دو وقت کی روٹی پیٹ بھرنے کو نہیں، ان کے چہروں پر پھیلے ہوئے اداسی و غم کے سائے ان کی بیچارگی و کسمپرسی کے آئینہ دار ہیں۔

وہ آج جس بے بسی کے عالم میں اپنے ہم وطن بہن بھائیوں کی طرف امداد طلب نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ ملت کے ہر فرد کا فرض ہے کہ لبّیک کہہ کر ان کا ہاتھ پکڑ لے ان کو منزل کا نشان اور راستہ دکھانا ہمارا قومی و اخلاقی فرض ہے، وہ جس تکلیف و کرب سے گزر رہے ہیں اسے اس سے نکالنا ہمارا دینی فرض ہے۔ ہم مسلمانوں کا رشتہ تو ایک جسم کی طرح ہے ایک حصے کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم درد سے کراہ اٹھتا ہے اور آج تو ہمارا آدھا جسم درد سے کراہ رہا ہے پھر بھلا ہم کیسے سکھ کی نیند ہوسکتے ہیں۔

رسول کریم ﷺ کی امت ہونے کے ناتے وہ مہاجر و انصار کا بھائی چارہ یاد کیجیے کہ کیسے انہوں نے اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کرکے مثال قائم کی وہی جذبہ لے کر آپ بھی اٹھیے، موسم سرما کا آغاز ہوچکا ہے اور ہمارے سیلاب متاثرین کے لیے پھر سے ایک نئے امتحان کا آغاز ہو چکا ہے۔

یہ وقت سیلاب کی تباہ کاریوں پر افسوس کرنے اور ہاتھ دھرنے کا نہیں بلکہ سسکتی بلکتی انسانیت کو بچانے کا ہے، ان کا تو سیلاب سب کچھ بہا کر لے گیا لیکن خدا نے آپ کو اس ناگہانی آفت سے بچا کر ان کی مدد کے قابل بنایا ہے تو اپنا دل اور ہاتھ کشادہ کریں، ان کی امداد میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں۔ سب کچھ تو یہیں رہ جاتا ہے پھر وہ توشہ آخرت تو سمیٹ لیجیے جو آپ کے ساتھ جانا ہے، آج آپ ہی کے ہاتھوں کا دیا آپ کے اگلے سفر میں آپ کے کام آئے گا۔

جب سب کچھ یہیں رہ جانا ہے تو انہیں الماریوں و صندوقوں میں بند کرنے سے فائدہ، اپنی الماریوں و بکسوں کو کھول کر وہ سامان نکالیں جو آپ استعمال نہیں کررہے۔ گرم چادریں، کپڑے، جوتے جو کچھ نکال سکتے ہیں نکالیں تاکہ ان تباہ حال انسانوں کی مدد کیجیے۔

یاد رکھیے! خدا کے نزدیک اس شخص کا درجہ بہت بلند ہے اور خدا اس شخص سے پیار کرتا ہے جو اس کے بندوں سے پیار کرتا ہے :

کرو مہربانی تم اہل زمیں پر

خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر

آج آپ ہی کا دیا کل آپ کو کسی بڑی آفت سے بچاسکتا ہے۔ وقت ضایع کیے بغیر مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کرکے اپنا قومی و دینی فریضہ انجام دیں اور ساتھ ہی خداوند کریم کے آگے سر بہ سجود ہوکر اپنے گناہوں کی معافی مانگیں کیوں کہ یہ گھڑیاں عاجزی و انکساری کے ساتھ اﷲ کی مدد مانگنے اور توبہ استغفار کرنے کی ہیں تاکہ ہمیں ان تمام بلاؤں اور ناگہانی آفتوں سے محفوظ رکھے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔