گردے کے کینسر میں دن بدن اضافہ

ظفر سجاد  اتوار 27 نومبر 2022
معاشرے میں آگہی پیدا کر کےتقریباً پچانوے فیصد مریضوں کو علاج ہونے سے پہلے بچایا جا سکتا ہے، یورالوجسٹ ڈاکٹر ندیم بن نصرت ۔ فوٹو : فائل

معاشرے میں آگہی پیدا کر کےتقریباً پچانوے فیصد مریضوں کو علاج ہونے سے پہلے بچایا جا سکتا ہے، یورالوجسٹ ڈاکٹر ندیم بن نصرت ۔ فوٹو : فائل

ریاست پاکستان پر قرضوں اورعوام پر ٹیکسوں کا حد درجہ بوجھ ہے ، مگر اسکے باوجود بنیادی سہولتوں کا فقدان، حتیٰ کہ پینے کا صاف پا نی تک میسر نہیں، انصاف ، تعلیم اور طبی سہولتیں حاصل کرنے کیلئے وافر مقدار میں ذاتی رقم ہو تو آ پ کو یہ بنیادی سہولتیں ملیں گی۔

پاکستان کا طبی سہولتوں کے معا ملے میں 154واں نمبر ہے، بیماریوں میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اور ان بیماریوں سے پیدا ہونے والے مسائل میں بھی اضا فہ ہو رہا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں لوگ اپنے پیاروں کو کسمپرسی کی موت مرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ یہ مناظر بہت ہی دردناک اور المناک ہوتے ہیں مگر اب لوگوں نے اِسے زندگی کا ایک حصہ سمجھ لیا ہے۔

بیماریوں میں حد در جہ اضافے کی بڑی وجہ فضائی آلودگی، غیرمتوازن خوراک، غیرمتوازن طرز زندگی اور ذہنی پریشانیاں ہیں۔

کیمیکل مِلا دودھ اور مضرصحت سبزیاں بھی بہت بڑی وجہ ہیں۔ اگرچہ حکومت کی باربار اس طرف تو جہ دلائی جاتی رہی ہے کہ کارخانوں، فیکٹریوں اور مِلوں سے کیمیکل کا خارج ہونے والا فضلہ جن نالوں میں ڈالا جاتا ہے، بے شمار کسان اس زہریلے پانی کو اپنے کھیتوں میں اُگنے والی سبزیوں کیلئے استعمال کرتے ہیں، ان سبزیوں کا استعمال بھی انتہائی خطرناک ثابت ہوتا ہے۔

اُس سے بھی زیادہ سنگین مسئلہ یہ ہے کہ حکومتی سطح پر بیماریوں میں اضافے کی وجوہات کو جا ننے کی کوشش کی گئی ہے اور نہ ہی انکی روک تھام کی کوئی موثر پلاننگ۔

شہری آج بھی زہریلا دودھ زہریلی سبزیاں اور ملاوٹ زدہ خوراک استعمال کرنے پر مجبور ہیں مگر متعلقہ اداروں اور حکومت کے کان پر جّوں تک نہیں رینگتی۔

ذہنی پریشانیوں کی وجہ سے شوگر، بلڈ پریشر اورکینسر جیسے موذّی امراض میں حد درجہ اضافہ ہو رہا ہے ، مگر صورتحال یہ ہے، کہ حکو متی اور ریاستی پالیسیوں کی وجہ سے عوام کی فرسٹریشن اور ڈپریشن میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے، فرسٹریشن اور ڈپریشن کی وجہ سے انسانی جسم کے خلیئے بہت متاثر ہوتے ہیں مگر ان چیزوں کو اہمیت ہی نہیں دی جاتی۔

پہلے ہی ملک میں مہلک امراض میں حد درجہ اضافہ ہو رہا ہے مگر اب گردے کے کینسر میں اضافے کی ہو لناک شرح نے ہو شمند طبقے کو لرزا کر رکھ دیا ہے۔گردے کے کینسر کا عموماً کا فی عرصہ پتہ ہی نہیں چلتا، کیونکہ کینسر کی علامت بعض اوقات کئی سال تک نمودار نہیں ہو تیں ۔ یہ علامات اُ سوقت ظاہر ہوتی ہیں کہ جب ایک فرد مکمل طور پر متا ثر ہو چکا ہوتا ہے اور اسکے اثرات خون میں بھی شامل ہو چکے ہوتے ہیں، پاکستان جیسے ممالک میں صورتحال اور گمبھیر ہو جاتی ہے۔

عالمی شہرت یافتہ ماہر یورالوجسٹ ڈاکٹر ندیم بن نصرت کا شمار دنیا کے اُن چیدہ مسیحا ؤں میں ہوتا ہے کہ جنہوں نے دولت کی بجائے انسانیت کی خدمت کو ترجیح دی۔ اپنے تیس سالہ طبی کیرئیر میں وہ ہزاروں مریضوں کے گردوں کا آ پریشن کر کے انکی جان بچانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

وہ مکمل گردہ نکالنے کی بجائے صرف متاثرہ حصے کو بذریعہ آ پریشن نکالنے پر مہارت رکھتے ہیں اسے طبی اصطلاح میں ’’ گردے کے کچھ حصے کا آپریشن ‘‘ کہتے ہیں۔

انھوں نے نشتر میڈ یکل کالج ملتان سے ایم بی بی ایس کی ڈ گری حاصل کی، پمز(PIMS)اسلام آبادمیں چار سا لہ ٹریننگ حاصل کی۔ 2000ء میں انھوں نے انگلینڈ میں ’’گائینز‘‘ سے اسکالر شپ حاصل کیا۔ پھر آئیرلینڈ سے یورالوجی میں ایف آرسی ایس کی ڈگری حاصل کی، اسکے بعد دوسال تک سعودی عرب میں طبی خدمات سر انجام دیں ۔

2006ء میں وہ آ ئرلینڈ چلے گئے۔2021ء تک وہاں گردے کے ہزاروں آپریشن کئے، انھیں عزت، دولت اور شہرت حاصل ہوئی مگر وہ کہتے ہیں کہ قسمت نے ہمیشہ کامیابیاں عطا کیِں، آرام بھی بہت مِلا مگر ذہنی سکون نہیں تھا، میرے اندر سے ہمیشہ ایک آ واز اٹھتی رہی کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے ہر نعمت سے نواز مگر میں نے اسکی رضا کیلئے کیا کیِا؟ کافی عرصہ سوچ بچار کرتا رہا کہ اب مجھے انسانیت کی بے لوث خدمت کرنی ہے، اور اس مقصد کیلئے میں نے پا کستان واپس آنے کا سوچا ۔ 1993ء میں میرا مذہب کی جانب رجحان بہت زیادہ ہو گیا تھا۔

پہلے مذہب کو پڑ ھنے،پھر اسے سمجھنے، پھر اسے اپنی ذات پر طار ی کرنے اور وجود میں اتار نے کا جو سفر شروع ہوا وہ آ ج تک جاری ہے، پیغمبر، رسول، انبیائ، ولی اور اللہ کے برگزیدہ بندے ہر آزمائش اور امتحان میں پورا اُتر ے مگر انھوں نے فلاح انسانیت کی ذمہ داری سے منّہ نہیں موڑا، انکے پائے استقلال میں کبھی لرزش پیدا نہیں ہوئی، میرے ننھیال اور دوھیال کا تعلق بھارت یوپی کے صوبہ اتر پردیش (یوپی) کے ضلع حصار سے ہے۔ ہمارا خاندان  یوپی کا ایک تعلیم یافتہ اور اعلیٰ عہدوں پر فائز گھرانہ سمجھا جاتا تھا۔

قیام پاکستان کے بعد ہمارا خاندان سب کچھ چھوڑ کر وطن کی محبت میں پاکستان پہنچا تھا تو مجھے لگا کہ ابھی یہ ہجرت مکمل نہیں ہوئی۔ چنانچہ میں بھی اپنے بیوی بچوں سمیت پاکستان آ گیا۔ اور پاکستان کڈنی اینڈ لیور ریسرچ انسیٹیوٹ (PKLI) میں صرف پانچ لا کھ تنحواہ پر جاب حاصل کی۔ جبکہ آ ئرلینڈ میں میری تنحواہ پاکستانی روپوں کے حساب سے 65 لاکھ روپے تھی۔

مگر میں سمجھتا تھا کہ میرے اپنے وطن اور میرے ہم وطنوں کو میری زیادہ ضرورت ہے، کیونکہ مجھے علم تھا کہ پاکستان میں گردے کی بیماریوں کا مناسب علاج نہیں ہو پاتا۔ خصو صاً گردے کے کینسر کا علاج آ ج بھی پاکستان میں پیچیدہ سمجھا جاتا ہے۔

گردوں کے کینسر میں عموماً ایک گلٹی اندرونی طور پر گردے کے پاس پیدا ہوتی ہے، جو آہستہ آہستہ پھیلتی جاتی ہے۔گردے کے پاس جب یہ کینسر پیدا ہوتا ہے تو اُسوقت بظاہر مریض پر اسکی کوئی علامت نمودار نہیںہوتی، اس لئے اِسے ’ ’ خاموش کینسر‘‘  بھی کہا جاتا ہے، عموماً اس کینسر کا اس وقت پتہ چلتا ہے کہ جب وہ لا علاج ہو جاتا ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے کہ مریض کی تکلیف کی شدت کچھ کم کی جا سکتی ہے یا ادویات کے ذریعے زندگی کے ان تکلیف دہ لمحوں کو کچھ طوالت دی جا سکتی ہے مگر اسکا مکمل علاج نہیں کیا جا سکتا، مگر معاشرے میں آ گہی پیدا کر کے تقریباً پچانوے فیصد مریضوں کو علاج ہو نے سے پہلے بچایا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں آگہی اور شعور نہ ہونے کی وجہ سے لوگ مختلف بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں جب تک جسم مدافعت کرتا رہتا ہے ، موت کی چاپ سنائی نہیں دیتی، مگر جسم میں جراثیم مضبوط بھی ہوتے ہیں اور انکی تعداد میں بھی بے تحا شا اضافہ ہوتا رہتا ہے، پھر موت سامنے دکھائی دیتے لگتی ہے۔ بیماریوں کے متعلق آ گاہی ضرور پیدا ہو نی چاہیے۔

پا کستان ایک غریب ملک ہے، یہاں طبی سہولتیں مناسب نہیں ہیں۔ ڈاکٹر ز کی بھی کمی ہے اس وقت صرف ایک لا کھ 75 ہزار ڈاکٹر ز ہیں، یعنی 10764 آبادی کیلئے صرف ایک ڈاکٹر ہے جبکہ ایک ہزار افراد کیلئے دو ڈاکٹر ز ہونے چاہئیں۔ آ ٹھ فیصد دیہی علاقوں میںکسی قسم کی طبی سہولت ہی نہیں ہے۔ طبی سہولتوں کے معاملے میں 195 ریا ستوں میں پا کستان کا نمبر 154 ہے ۔ اِس طرف تو جہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔

ڈاکٹر ندیم بن نصرت کا کہنا ہے !کہ پا کستان میں بیماریوں کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں ہے، ذہنی بیماریوں کے متعلق آ گہی نہیں ہے ۔ صرف مکمل پاگل کو ذہنی بیمار سمجھا جاتا ہے جبکہ ملک کی بہت بڑی تعداد ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہے۔ ایسے افراد کے رو یّے معاشرے کیلئے انتہائی ضرررسا ںثابت ہو رہے ہیں۔ اگر گھر میں ایک فرد بھی ذہنی مریض ہے تو وہ پورے گھر کیلئے عذاب بنا رہتا ہے۔

عورتوں کی بہت بڑ ی تعداد ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہے۔ جسکی وجہ سے گھر کا ماحول نا رمل نہیں رہتا۔ اسکا نتیجہ ابنارمل معاشرے کی شکل میں نکلتا ہے۔ یہ بات تو مثال کے طور پر بیاں کی گئی ہے۔ باقی بیماریوں کا بھی یہی حال ہے۔

ڈاکٹر ندیم بن نصرت کا کہنا ہے! کہ میں یورالوجسٹ ہوں۔ میرے پاس اس شعبے کی جو ڈگریاں ہیں وہ دنیا میں بھی بہت کم ڈاکٹروں کے پاس ہیں۔ پہلے اگر گردے کا کینسر تشحض ہوتا ہے تھا تو پورا گردہ ہی نکال دیا جاتا تھا، شوگر کے مریضوں کا ایک گردے کے ساتھ زندگی گذارنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ شوگر کا اثر براہ راست گردے پر بھی پڑ تا ہے۔

ہم مکمل گردہ نکالنے کی بجائے صرف متا ثرہ حصے کا  آپریشن کرکے کاٹ دیتے ہیں، اس کا کیلئے خصوصی مہارت در کار ہوتی ہے۔ کیونکہ ہمیں اس بات کا بالکل علم نہیں ہوتا کہ باڈی کیا  ’’ری یکٹ‘‘  کرے گی۔ مگر مہارت سے آ پر یشن کیا جائے تو اللہ تعالیٰ 100فیصد کامیابی دیتا ہے۔

بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ گردے کے جزوی آ پریشن کے بعد خون نہیں رُکتا تو پھر ایک مخصو ص طریقہ  علاج کے ذریعے خون رسنے والی رگوں کو بند کردیا جاتا ہے۔

تقریباً 80 سے لیکر 90 فیصد مریض ایک نارمل زندگی گزارتے ہیں۔ البتہ ہم مریض کو ہدایت دیتے ہیں کہ آپریشن کا مکمل فالو اپ رکھا جائے۔ ہر چھ ماہ کے بعد چیک اپ کرایا جائے۔ الٹر اساؤنڈ کروایا جائے ایک سال کے بعد سِٹی اسکین کروایا جائے۔ مریض ایک نارمل زندگی گذارتے ہیں۔ جّزوی طور پر کاٹا گیا گردہ تقریباً ایک نارمل گردے کی طرح کام کرتا ہے۔

انھوں نے کہا! کہ مجھے احساس ہوتا ہے کہ پاکستان میں گردے کی بیماریاں دوسرے ممالک کی نسبت زیادہ ہیں صحت مندطرز زندگی سے گردے کی بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے، کھانے پینے، سونے ،جاگنے، پیشاب اور پا خانے کے معا ملے میں بہت محتاط طرز ِ عمل ہونا چا ہیے۔ ’’ ہا ئی فائبر غذا‘‘  کا استعمال بہت ضروری ہے۔ پھلوں اور سبزیوں کا استعمال زیادہ کریں، جن پھلوں کا چھلکا نرم ہوتا ہے ان کا چھلکا بھی استعمال کریں، پا نی زیادہ پیئے۔ کم ازکم دولیٹر پانی پیناچاہیے۔

وقفے وقفے سے پانی پیتے رہنا چاہیے، سونے سے پہلے ہر حال میں پیشاب کرکے سوئیں کیونکہ گردے رات کو بہت پیشاب بناتے ہیں۔ صحت مند زندگی گزارنے کیلئے بہتر ہے کہ رات نو بجے تک سو جائیں، آ ٹھ گھنٹے سوئیں وگرنہ چھ گھنٹے توضرورسونا چاہیے، چھوٹے بچوں کو زیادہ سے زیادہ سونے دیں انھیں نیند پوری کرنے دیں۔

گردے اور مثانے کی  بیماری کا شمار موروثی بیماریوں میں ہوتا ہے اگر والدین کو یہ بیماریاں ہوں تو اولاد کو یہ بیماریاں ہونے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا! کہ سٹریس یعنی ذ ہنی دباؤ نہیں ہونا چاہیے۔ ذہنی دباؤ لاتعداد بیماریوں کی جڑ ہے جسمیں شوگر، بلڈ پریشر، گردے اور دل کی کئی بیماریاں شامل ہیں۔

انھوں نے کہا ! کہ چالیس سال کی عمر میں گردے، جگر کا الٹر اساؤنڈ ضرور کروا لینا چا ہیے۔ چھاتی کا ایکسرے اور ای سی جی بھی ضرور کروا نی چا ہیے۔ بلڈ اور پیشاب کا ٹیسٹ بھی کروانا چا ہیے۔ پھر ہر دس سال بعد مکمل چیک اپ بہت ضروری ہے، ویسے تو یہ اہتمام حکومت کی طرف سے بِلا معا وضہ ہونا چا ہیے، مگر حکو مت نہ بھی کرے تو اپنے طور پر رقم خرچ کر کے چیک اپ ضرور کروا لینا چاہیے۔

انھوں نے مزید کہا !کہ گردے، جگر اور مثانے کی بیماریوں پر خصوصی طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، اگر مناسب احتیاط کی جائے تو ان بیماریوںسے بچا جا سکتا ہے، انھوں یہ بھی کہا ! کہ اگر گردے کا کینسر ہو جائے تو جس حصے پر ہو تو صرف اُ سے کاٹنا چاہیے ۔ انھوں نے کہا ! (PKLI) میں گردے کے جزوی آ پریشن کے دو ڈاکٹر ہیں۔

ایک میں ہوں اور  دوسرے ڈاکٹر نعمان ظفر ہیں۔ جوں جوں لوگوں کو علم ہو رہا ہے کہ (PKLI) میں پورا ’’گردہ‘‘  نکالنے کی بجائے صرف متاثرہ حصے کا آپریشن کیا جاتا ہے تو اب یہاں مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور ہمارا  ’’مین فوکس‘‘  بھی اسی طرف ہے۔ اگر رش بہت زیادہ ہو گیا تو ہم پتھری وغیرہ کے مریض دوسرے ہسپتالوں کو ریفر کریں گے، انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ہم دوسرے ڈاکٹر وں کو بھی گردے کے جّزوی آ پریشن کی تربیت دے رہے ہیں۔!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔